ملکہ حسن کہلانے والی اداکارہ صابرہ سلطانہ


’۔ آپ دیکھیں کہ ذلیل بھی کہا اور خوش رہنے کی دعا بھی دے گئیں۔ میرے والدین بڑا ہنسے۔ پھر سلو بھائی سے ان کی شادی ہو گئی۔ ہماری وقتاً فوقتاً زرین آپا سے ملاقات ہوتی رہی۔ ان کے گھر بھی آنا جانا رہا۔ میں اور والدہ کبھی کبھار ان کے گھر جاتے تھے۔ وہ بھی ہمارے ہاں آتی تھیں۔ سلو بھائی کی ایک فلم ”سبق“ ( 1972 ) میں کام بھی کیا تھا۔ مری میں عکس بندی ہوئی تھی۔ وہاں آپی (زرین پنا ) اور بچے بھی ساتھ تھے۔ وہ مجھے اتنی اچھی لگتی ہیں کہ وہ واحد شخصیت ہیں جو مجھے جھاڑ پلا سکتی ہیں۔ ایک دن میں نے ان کو فون کیا۔ پوچھا کون بول رہی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری اماں! شرم نہیں آتی؟ کتنے دن ہو گئے فون نہیں کیا۔ مجھے اس پیار بھری جھاڑ کا بڑا مزا آتا ہے۔ یہ خلوص اور محبت کا اظہار ہے۔ اللہ ان کو اور زیادہ ہمت اور استقامت دے۔ اور سلو بھائی کو صحت عطا فرمائے! ”۔

”لاہور میں اداکار علا الدین، گیت نگار حضرت تنویرؔ نقوی وغیرہ کے ہاں با قاعدگی سے موسیقی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ کیا آپ وہاں جاتی تھیں؟“۔ میں نے سوال کیا۔

”نہیں! البتہ ایک روز سید شوکت حسین رضوی صاحب اللہ بخشے، وہ شوقین تھے۔ شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ جوشؔ ملیح آبادی وغیرہ ان کے ہاں مشاعرے میں آئے۔ مجھے مشاعرے سے کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی لیکن مجھے یاسمین باجی نے کہا کہ تمہیں ضرور آنا ہے۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ میں گئی۔ وہ بہت اچھی اور خوبصورت محفل تھی گو کہ شاعری میرے سر سے گزر گئی۔ وہاں جوشؔ صاحب اداکاراؤں کو خطاب دینے لگے۔ حسنہ کو انہوں نے ’ملکہ ء کوہسار‘ کا خطاب دیا۔ مجھے خطاب ملا ’شعلہ رو‘ ۔ یعنی آگ لگانے والا چہرہ! میں نے کہا مجھے بہت بڑا اعزاز مل گیا۔ بس یہ ہی محفل میں نے دیکھی“۔

”سب سے عجیب و غریب خطاب مجھے ریاض شاہد صاحب نے دیا تھا۔ وہ بہت ہی زندہ دل تھے۔ مسکراتے رہنا، اٹکھیلیاں کرنا۔ مجھے دیکھ کر کہتے کہ یہ جو خاتون ہیں یہ کس طرف سے آرٹسٹ ہیں! میں نے پوچھا کہ بھئی کیا ہوا ریاض بھائی؟ کہنے لگے کہ نماز تم پڑھتی ہو، روزے تم رکھتی ہو اس لئے میں سوچ رہا ہوں کہ تمہیں میں کیا نام دوں! پھر کہنے لگے کہ تمہارا بہترین نام ہے ’مسلم لیگ‘ ۔ میں نے کہا کیا مسلم لیگ میری پارٹی ہے؟

تو کہنے لگے کہ مسلم لیگ میں نماز، روزہ، شرافت، آرٹ۔ سب ہی کچھ آ گیا۔ پھر جب شاٹ تیار ہوتا اور میری ضرورت ہوتی تو آواز لگاتے : شاٹ تیار ہے مسلم لیگ آ جاؤ۔ خطابات تو بس ایک شغل تھا۔ ماحول بہت اچھا تھا۔ سب لوگ ایک خاندان کی طرح سے تھے۔ ایک دوسرے سے حسد کرنے کا کوئی چلن نہیں تھا۔ کسی کو نگار ایوارڈ ملتا تو دوسرے بھی اتنے ہی خوش ہوتے تھے ”۔

”آپ نے کراچی سے اپنا فلمی سفر شروع کیا تھا۔ وہاں کا کوئی دلچسپ واقعہ یاد ہے؟“۔

”ایک کیمرا مین تھے بابر بلال۔ وہ میرے پاس سے گزرتے تو مسکراتے ہوئے یہ کہتے : ’اکھاں والیو، اکھیاں بڑی نعمتاں نیں‘ ۔ میں بھی ترکی بہ ترکی کہتی کہ آنکھیں تو سب ہی کے پاس ہیں تو بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ تب وہ کہتے کہ تمہاری خوبصورت آنکھوں کے لئے یہ کہتا ہوں تم تو ہو ہی ’بودی‘ بہت مذاق کرتے تھے“۔

”میڈم نورجہاں سے کبھی کوئی ملاقات ہوئی؟“۔

”ان کی کوئی ریکارڈنگ تھی۔ وہاں میری ملاقات ہوئی تھی۔ بڑے تپاک سے ملیں۔ بہت اچھا اخلاق تھا۔ اتنی بڑی بین الاقوامی آرٹسٹ ہونے کے باوجود خود آگے بڑھ کر سب چھوٹے بڑوں کو سلام کرتی تھیں۔ میری اس کے بعد بھی دو ایک ملاقاتیں ہوئیں۔ ایسے آرٹسٹ کم ہوتے ہیں جن میں حسن بھی ہو، فن بھی ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ اخلاق بھی ہو۔ حسن اور فن ہو، اخلاق نہ ہو تو وہ ایسا ہے جیسے چاند میں گرہن“۔

ایک جواب میں انہوں نے کہا: ”شمیم آرا مجھ سے سینیئر تھیں لیکن بڑا پیار کرتی تھیں۔ میں نے ان کی دو فلمیں“ صائقہ ”( 1968 ) اور“ سہاگ ”( 1972 ) کی تھیں۔ کبھی ہم کھانے پینے کو نکلتیں تو وہ گاڑی بہت تیز چلاتی تھیں۔ میں انہیں پیار سے کہتی ’حسینہ‘ تو وہ جواباً مجھے ’مہ جبینہ‘ کہتیں۔ میں کہتی کہ خدا کے واسطے گاڑی آہستہ چلاؤ تو کہتیں : ’کچھ نہیں ہوتا کلاؤڈز تھلے آ رہے ہیں‘ ۔ پنجابی، انگریزی اردو مکس بولتیں!“

”ایک دلچسپ بات یاد آئی۔ فلمی فنکار کرکٹ کا میچ کھیلنے ساہیوال گئے۔ میں شمیم آرا کی گاڑی میں بیٹھی تھی۔ ساہیوال تک وہ طوفان کی طرح گئیں۔ اس وقت وہاں کے ڈپٹی کمشنر مصطفے ٰ زیدی صاحب تھے۔ شہر اور ضلع بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ ہمیں بڑا پروٹوکول ملا۔ کمشنر ہاؤس پرانی قدیم عمارت تھی۔ آتش دانوں میں لکڑیاں جلائی جا رہی تھیں۔ صبح صبح ہم سب سفید وردیاں پہنے میدان میں اترے“۔

”کیا آپ بھی کرکٹ کی اچھی کھاڑی تھیں؟“۔ میں نے سوال کیا۔

”ارے نہیں بھئی! زیادہ تر کھلاڑی تو بس یوں ہی گئے تھے۔ میچ دیکھنے والے کون سا ہمارا کھیل دیکھنے آئے تھے؟ جب گیند دیکھنے والوں کی طرف جاتی تو میں، نیر سلطانہ، شمیم آرا، حسنہ، زمرد اور دوسرے لوگ گیند کے پیچھے بھاگتے تو عوام اٹھ کر کھڑی ہو جاتی کہ کسی طرح ہمیں دیکھیں۔ میں دوڑنے میں سب سے آگے تھی لہٰذا جب دوڑ کر گیند پکڑتی تو تالیاں بجتیں۔ پھر میچ کے بعد کھلی جیپ میں ہم لوگوں نے کرکٹ کے میدان کا پورا راؤنڈ لیا۔ میں نے اس میدان کے پورے چکر میں سب لوگوں کو ٹاٹا کیا۔ بعد میں میرے شوہر صاحب نے بتایا کہ میں بھی وہاں تھا۔ میں نے تم کو دیکھ کر اللہ سے دعا کی تھی کہ یہ عورت میری قسمت میں لکھ دے۔ میں نے ان سے کہا کہ اچھا! تو قبولیت وہیں کے وہیں کیوں نہیں ہوئی!“۔

”ماشاء اللہ پھر آپ کی ایک بیٹی بھی ہوئی۔ کبھی آپ کے دل میں خواہش ہوئی کہ بیٹی بھی سپر اسٹار اداکارہ بنے؟“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8