کرشن چندر کا لازوال افسانہ: ان داتا


20 اگست

سوکھیا کی بیماری کے مریضوں کو اب ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف کلکتہ میں روز دو ڈھائی سو آدمی اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اب یہ بیماری ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ڈاکٹر لوگ بہت پریشان ہیں کیوں کہ کونین کھلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مرض میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوتی۔ ہاضمے کا مکسچر میگنیشیا مکسچر اور ٹنکچر آیوڈین پورا برٹش فارما کوپیا بیکار ہے۔

چند مریضوں کا خون لے کر مغربی سائنسدانوں کے پاس بغرض تحقیق بھیجا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ کسی غیر معمولی مغربی ایکسپرٹ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں یا ایک رائل کمیشن بٹھا دیا جائے جو چار پانچ سال میں اچھی طرح چھان بین کر کے اس امر کے متعلق اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے۔ الغرض ان غریب مریضوں کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ شد و مد کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے کہ سارے بنگال میں قحط کا دور دورہ ہے اور ہزاروں آدمی ہر ہفتے غذا کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن ہماری نوکرانی (جو خود بنگالن ہے) کا خیال ہے کہ یہ اخبارچی جھوٹ بولتے ہیں۔ جب وہ بازار میں چیزیں خریدنے جاتی ہے تو اسے ہر چیز مل جاتی ہے۔ دام بے شک بڑھ گئے ہیں۔ لیکن یہ مہنگائی تو جنگ کی وجہ سے ناگزیر ہے۔

ایف۔ بی۔ پی۔
25 اگست

آج سیاسی حلقوں نے قحط کی تردید کر دی ہے۔ بنگال اسمبلی نے جس میں ہندوستانی ممبروں اور وزراء کی کثرت ہے۔ آج اعلان کر دیا ہے کہ کلکتہ اور بنگال کا علاقہ ”قحط زدہ علاقہ“ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ بنگال میں فی الحال راشننگ نہ ہو گا۔ یہ خبر سن کر غیر ملکی قونصلوں کے دل میں اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اگر بنگال قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا جاتا تو ضرور راشننگ کا فی الفور نفاذ نہ ہوتا اور۔ میرا مطلب ہے کہ اگر راشننگ کا نفاذ ہوتا تو اس کا اثر ہم لوگوں پر بھی پڑتا۔ موسیو سی گل جو فرنچ قونصل میں کل ہی مجھ سے کہہ رہے تھے کہ عین ممکن ہے کہ راشننگ ہو جائے۔ اس لئے تم ابھی سے شراب کا بندوبست کر لو۔ میں چندر نگر سے فرانسیسی شراب منگوانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ سنا ہے کہ چندر نگر میں کئی سو سال پرانی شراب بھی دستیاب ہوتی ہے۔ بلکہ اکثر شرابیں تو انقلاب فرانس سے بھی پہلے کی ہیں۔ اگر حضور پرنور مطلع فرمائیں تو چند بوتلیں چکھنے کے لئے بھیج دوں۔

ف۔ ب۔ پ
28 اگست

کل ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں نے نیو مارکیٹ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کے لئے چند کھلونے خریدے۔ ان میں ایک چینی کی گڑیا بہت ہی حسین تھی۔ اور ماریا کو بہت پسند تھی۔ میں نے ڈیڑھ ڈالر دے کر وہ گڑیا بھی خرید لی اور ماریا کو انگلی سے لگائے باہر آ گیا۔ کار میں بیٹھنے کو تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کی بنگالی عورت نے میرا کوٹ پکڑ کر مجھے بنگالی زبان میں کچھ کہا۔

میں نے اس سے اپنا دامن چھڑا لیا اور کار میں بیٹھ کر اپنے بنگالی شوفر سے پوچھا، ”یہ کیا چاہتی ہے؟“

ڈرائیور بنگالی عورت سے بات کرنے لگا۔ اس عورت نے جواب دیتے ہوئے اپنی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جسے وہ اپنے شانے سے لگائے کھڑی تھی۔ بڑی بڑی موٹی آنکھوں والی زرد زرد بچی بالکل چینی کی گڑیا معلوم ہوتی تھی اور ماریا کی طرف گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔

پھر بنگالی عورت نے تیزی سے کچھ کہا۔ بنگالی ڈرائیور نے اسی سرعت سے جواب دیا۔
”کیا کہتی ہے یہ؟“ میں نے پوچھا۔

ڈرائیور نے اس عورت کی ہتھیلی پر چند سکے رکھے اور کار آگے بڑھائی۔ کار چلاتے چلاتے بولا، ”حضور یہ اپنی بچی کو بیچنا چاہتی تھی۔ ڈیڑھ روپے میں۔“

”ڈیڑھ روپے میں، یعنی نصف ڈالر میں؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
”ارے نصف ڈالر میں تو چینی کی گڑیا بھی نہیں آتی؟“
”آج کل نصف ڈالر میں بلکہ اس سے بھی کم قیمت پر ایک بنگالی بچی مل سکتی ہے۔“
میں حیرت سے اپنے ڈرائیور کو تکتا رہ گیا۔

اس وقت مجھے اپنے وطن کی تاریخ کا وہ باب یاد آیا۔ جب ہمارے آبا و اجداد افریقہ سے حبشیوں کو زبردستی جہاز میں لاد کر اپنے ملک میں لے آتے تھے اور منڈیوں میں غلاموں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ ان دنوں ایک معمولی سے معمولی حبشی بھی پچیس تیس ڈالر سے کم میں نہ بکتا تھا۔ افوہ، کس قدر غلطی ہوئی۔ ہمارے بزرگ اگر افریقہ کے بجائے ہندوستان کا رخ کرتے تو بہت سستے داموں غلام حاصل کر سکتے تھے۔ حبشیوں کے بجائے اگر وہ ہندوستانیوں کی تجارت کرتے تو لاکھوں ڈالر کی بچت ہو جاتی۔ ایک ہندوستانی لڑکی صرف نصف ڈالر میں! اور ہندوستان کی بھی آبادی چالیس کروڑ ہے۔ گویا بیس کروڑ ڈالر میں ہم پورے ہندوستان کی آبادی کو خرید سکتے تھے۔ ذرا خیال تو فرمائیے کہ بیس کروڑ ڈالر ہوتے ہی کتنے ہیں۔ اس سے زیادہ رقم تو ہمارے وطن میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔

اگر حضور پرنور کی منجھلی بیٹی کو یہ پسند ہو تو میں ایک درجن بنگالی لڑکیاں خرید کر بذریعہ ہوائی جہاز پارسل کر دوں۔ تب شوفر نے بتایا کہ آج کل ”سونا گاچی“ جہاں کلکتہ کی طوائفیں رہتی ہیں۔ اس قسم کی بردہ فروشی کا اڈہ ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں لڑکیاں شب و روز فروخت کی جا رہی ہیں۔

لڑکیوں کے والدین فروخت کرتے ہیں اور رنڈیاں خریدتی ہیں۔ عام نرخ سوا روپیہ ہے۔ لیکن اگر بچی قبول صورت ہو تو چار پانچ بلکہ دس روپے بھی مل جاتے ہیں۔ چاول آج کل بازار میں ساٹھ ستر روپے فی من ملتا ہے۔ اس حساب سے اگر ایک کنبہ اپنی دو بچیاں بھی فروخت کر دے تو کم از کم آٹھ دس دن اور زندگی کا دھندا کیا جا سکتا ہے۔ اور اوسطاً بنگالی کنبے میں لڑکیوں کی تعداد دو سے زیادہ ہوتی ہے۔

کل مئیر آف کلکتہ نے شام کے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ وہاں یقیناً بہت ہی دلچسپ باتیں سننے میں آئیں گی۔
ف۔ ب۔ پ

29 اگست

میئر آف کلکتہ کا خیال ہے کہ بنگال میں شدید قحط ہے اور حالت بے حد خطرناک ہے۔ اس نے مجھ سے اپیل کی کہ میں اپنی حکومت کو بنگال کی مدد کے لئے آمادہ کروں۔ میں نے اسے اپنی حکومت کی ہمدردی کا یقین دلایا۔ لیکن یہ امر بھی اس پر واضح کر دیا کہ یہ قحط ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور ہماری حکومت کسی دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتی۔ ہم سچے جمہوریت پسند ہیں اور کوئی سچا جمہوریہ آپ کی آزادی کو سلب کرنا نہیں چاہتا۔ ہر ہندوستانی کو جینے یا مرنے کا اختیار ہے۔ یہ ایک شخصی یا زیادہ سے زیادہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کی نوعیت بین الاقوامی نہیں۔ اس موقعہ پر موسیو ژاں ژاں تریپ بھی بحث میں شامل ہو گئے اور کہنے لگے۔

جب آپ کی اسمبلی نے بنگال کو قحط زدہ علاقہ FAMINE AREA ہی نہیں قرار دیا تو اس صورت میں آپ دوسری حکومتوں سے مدد کیوں کر طلب کر سکتے ہیں۔ اس پر میئر آف کلکتہ خاموش ہو گئے اور رس گلے کھانے لگے۔
ف۔ ب۔ پ

30 اگست

مسٹر ایمری نے جو برطانوی وزیر ہندو ہیں۔ ہاؤس آف کامنز میں ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں آبادی کا تناسب غذائی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے۔ ہندوستان کی آبادی میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ درحالیکہ زمینی پیداوار بہت کم بڑھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہندوستانی بہت کھاتے ہیں۔

یہ تو حضور میں نے بھی آزمایا ہے کہ ہندوستانی لوگ دن میں دوبار بلکہ اکثر حالتوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اس قدر کھاتے ہیں کہ ہم مغربی لوگ دن میں پانچ بار بھی اس قدر نہیں کھا سکتے۔ موسیو ژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں شرح اموات کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا پیٹو پن ہے۔ یہ لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں تو پیٹ پھٹ جاتا ہے اور وہ جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ہندوستانی کبھی منھ پھٹ نہیں ہوتا لیکن پیٹ پھٹ ضرور ہوتا ہے بلکہ اکثر حالتوں میں تلی پھٹ بھی پایا۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانیوں اور چوہوں کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اکثر حالتوں میں ان دونوں میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جتنی جلدی پیدا ہوتے ہیں اتنی جلدی مر جاتے ہیں۔ اگر چوہوں کو پلیگ ہوتی ہے تو ہندوستانیوں کو ”سوکھیا“ بلکہ عموماً پلیگ اور سوکھیا دونوں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بہر حال جب تک چوہے اپنے بل میں رہیں اور دنیا کو پریشان نہ کریں۔ ہمیں ان کے نجی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔

غذائی محکمے کے ممبر حالات کی جانچ پڑتال کے لئے تشریف لائے ہیں۔ بنگالی حلقوں میں یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ آنر بیل ممبر پر اب یہ واضح ہو جائے گا کہ بنگال میں واقعی قحط ہے اور شرح اموات کے بڑھنے کا سبب بنگالیوں کہ انارکسٹانہ حرکات نہیں بلکہ غذائی بحران ہے۔
ف۔ ب۔ پ

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9