کرشن چندر کا لازوال افسانہ: ان داتا


”ستار سناؤ جی۔ جی بہت اداس ہے!“

پھر یہ ننھی سی بچی ہمارے ہاں آ گئی۔ ادھر آؤ بیٹا۔ ہاں مسکرا دو۔ ہنس پڑو۔ ان سے کہہ دو میں بالکل معصوم ہوں، انجان ہوں، میری عمر دو سال کی بھی نہیں اور مجھے جھنجھنا بجاتے، گڑیا سے کھیلنے اور ماں کی چھاتی سے لگ کر دودھ پینے اور دودھ پیتے پیتے اس کے سینے سے اپنے ننھے منے ہاتھ چمٹائے اس گداز آغوش میں سو جانے کا بہت شوق ہے۔ میں اتنی پاکیزہ ہوں کہ خود بول بھی نہیں سکتی۔ بات بھی نہیں کرتی، صرف مٹر مٹر تکتی ہوں۔ اس آسمان کی طرف جس مالک نے مجھے اس زمین پر بھیجا ہے کہ میں اپنے باپ کے دل میں انسانی مسرت کی کرن بن کر رہوں اور بانس کی سیلی سیلی چھپریا میں خوشی کا گیت بن کر گھر کے آنگن کو اپنی ہنسی کے راگ سے بھر دوں۔ مسکرا دو بیٹا!

ہاں تو جب یہ ننھی سی بچی پیدا ہوئی۔ اس وقت بھات روپے کا ایک سیر تھا۔ لیکن ہم لوگ اس پر بھی خدا کا شکر بجا لاتے تھے۔ جس نے چاول کے دانے بنائے اور زمیندار کے پاؤں چومتے تھے، جس نے ہمیں چاول کے دانے کھلائے اور سچ بات تو یہ ہے کہ بنانے اور کھانے کے بیچ میں جو چیز حائل ہے، وہ بجائے خود ایک پوری تاریخ ہے۔ انسانی زندگی کے ہزاروں سال کی داستان ہے۔ اس کی تہذیب و تمدن، مذہب اوہام فلسفہ اور ادب کی تفسیر ہے۔ بنانا اور کھانا بہت سہل الفاظ ہیں۔ لیکن ذرا اس گہری خلیج کو بھی دیکھیے جو ان دو لفظوں کے درمیان حائل ہے۔

بھات روپے کا ایک سیر تھا۔
پھر بھات روپے کا تین پاؤ ہوا۔
پھر بھات روپے کا آدھ سیر ہوا۔
پھر بھات روپے کا ایک پاؤ ہوا۔
اور۔ پھر بھات معدوم ہو گیا۔

پھر درختوں پر سے آم۔ جامن، کٹہل، شریفے، کیلے ختم ہو گئے۔ تاڑی ختم۔ ساگ سبزی ختم۔ مچھلی ختم۔ ناریل ختم۔ کہتے ہیں۔ زمیندار کے پاس منوں اناج تھا اور بنیئے کے پاس بھی۔ لیکن کہاں تھا، کس جگہ تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا۔ اناج حاصل کرنے کی سب تدبیریں رائیگاں گئیں۔ گڑ گڑانا، منتیں کرنا، خدا سے دعا مانگنا، خدا کو دھمکی دینا۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ صرف اللہ کا نام باقی تھا یا زمیندار اور بنیئے کا گھر۔

اناج کی گرانی دیکھ کر زمیندار نے میرا ستار سکھانا بند کر دیا۔ جب لوگ بھوکے مر رہے ہوں اس وقت نغمہ کی کسے سوجھتی ہے۔ پچاس روپے دے کر ستار کون سیکھتا ہے۔

بھوک، نا امیدی اور بلکتی ہوئی بچی!
میں نے اپنی بیوی سے کہا، ”ہم کلکتہ چلیں گے۔ وہاں لاکھوں لوگ بستے ہیں۔ شاید وہاں کوئی کام چل جائے!“
”چلو کلکتہ چلو!“

”چلو کلکتہ چلو!“ جیسے یہ صدا سارے گاؤں والوں نے سن لی۔ گاؤں کی سماجی زندگی اک بند کی طرح مضبوط ہوتی ہے۔ یکا یک ”چلو کلکتہ چلو“ کی صدا نے اس بند کا ایک کنارہ توڑ دیا اور سارا گاؤں اس سوراخ کے راستہ سے بہہ نکلا۔

”چلو کلکتہ چلو۔“ ۔ ہر لب پر یہی صدا تھی۔ چلو کلکتہ چلو! ”

سیکڑوں، ہزاروں آدمی اس سڑک پر چل رہے تھے۔ یہ سڑک جو کلکتہ کے مضافات میں سے بنگال کے دور دور پھیلے ہوئے گاؤں میں سے گھومتی ہوئی آ رہی تھی۔ یہ سڑک جو ان انسانوں کے لئے شہ رگ کی طرح تھی۔

چلو کلکتہ چلو۔ چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ خاک و خون میں اٹی ہوئی لتھڑی ہوئی اور کلکتہ کی لاش کی طرف جا رہی تھں۔ ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں اور اس قافلے کے اوپر گدھ گھوم رہے تھے۔ اور ساری فضا میں مردہ گوشت کی بو تھی، چیخیں تھیں۔ فضا میں، آہ وبکا اور آنسوؤں کی سنلک اور لاشیں جو سڑک پر طاعون زدہ چوہوں کی طرح بکھری پڑی تھیں لاشیں جنھیں گدھوں نے کھا لیا تھا اور اب ان کی ہڈیاں دھوپ میں چمکتی نظر آتی تھیں۔ لاشیں جنھیں گیدڑوں نے کھا لیا تھا۔ لاشیں جنھیں کتے ابھی تک کھا رہے تھے۔ لیکن چیونٹیاں آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔ یہ چیونٹیاں بنگال کے ہر حصے سے بڑھتی چلی آ رہی تھیں اور ان کے ذہن میں کلکتہ کی لاش تھی۔ کوئی کسی کا پرسان حال کیسے ہوتا۔ ان لاکھوں آدمیوں میں سے ہر شخص اپنے لئے لڑ رہا تھا۔ جی رہا تھا۔ مر رہا تھا۔ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ شاید ایسا ہی ہونا تھا۔ ان لوگوں کی موت اسی طرح لکھی تھی۔ ان ہزاروں لاکھوں چیونٹیوں کی موت، پیٹ میں بھوک کا دوزخ اور آنکھوں میں یاسیت کی مہیب تاریکی لئے۔ یہ انسانی چیونٹیاں اپنے بوجھل قدموں سے سڑک پر چل رہی تھیں۔ لڑ رہی تھیں۔ کراہ رہی تھیں۔ مر رہی تھیں۔ کاش ان انسانوں میں چیونٹیوں کا سا ہی نظم و نسق ہوتا تو بھی یہ صورت حال نہ ہوتی۔ چیونٹیاں اور چوہے بھی اس بری طرح نہیں مرتے۔

راستہ میں کہیں کہیں خیرات بھی مل جاتی تھی۔ ہندو ہندوؤں کو اور مسلمان مسلمانوں کو خیرات دیتے تھے۔ لیکن خیرات سے کب کسی کا پیٹ بھرتا ہے۔ خیرات تو زندگی عطا نہیں کرتی۔ خیرات ہمیشہ دھوکا دیتی ہے۔ خیرات کرنے والے کو بھی اور خیرات لینے والے کو بھی۔ ہمیں بھی خیرات ملی اور ایک دن ایک سالم ناریل ہاتھ لگ گیا۔ بچی کب سے دودھ کے لئے چلا رہی تھی اور ماں کی چھاتیاں اس دھرتی کی طرح تھیں جس پر مدت سے پانی کی ایک بوند برسی ہو۔ اس کا پھول سا جسم جھلس گیا تھا۔ وہ بار بار بچی کو پچکارنے کے لئے اس کے ہاتھ میں جھنجھنا دے دیتی۔ بچی کو یہ جھنجھنا بہت پسند تھا۔ وہ اسے ہر وقت کلیجے سے لگائے رکھتی۔ اس وقت بھی وہ اس جھنجھنے کو زور سے اپنی مٹھی میں دبائے اپنی ماں کے شانے سے لگی بلک رہی تھی اور روئے جاتی تھی۔ جیسے کوئی بے بس زخمی جانور برابر چیخے جاتا ہے اور جب تک اسے موت نہیں آتی برابر اسی طرح، اسی انداز میں، اسی لے میں بین کیے جاتا ہے۔ لیکن اچھا ہوا عین اسی روز ہمیں ایک سالم ناریل مل گیا۔ ناریل کا دودھ ہم نے بچی کو پلایا اور ناریل ہم دونوں نے کھایا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے سارا جہاں جی اٹھا ہو۔

اب کسی کے پاس کچھ نہ تھا۔ سب تجارت ختم ہو چکی تھی۔ صرف گوشت پوست کی تجارت ہو رہی تھی۔ اس کے تاجر شمالی ہند سے آتے تھے۔ ان میں یتیم خانوں کے منیجر تھے۔ جنھیں یتیموں کی تلاش تھی۔ ماں باپ اپنے ننھے منے بچے اور چھوٹے چھوٹے لڑکے ان کے حوالے کر کے انھیں یتیم بنا رہے تھے۔ دراصل غربت ہی تو یتیم پیدا کرتی ہے۔ ماں باپ کا زندہ رہنا یا مر جانا ایک خدائی امر ہے۔ ان تاجروں میں ودھوا آشرموں کے کارکن بھی تھے اور خالص تاجر جو ہر قسم کی اخلاقی مذہبی، تمدنی ریاکاری سے الگ ہو کر خالص تجارت کرتے تھے۔ نوجوان لڑکیاں، بکریوں کی طرح ٹٹولی جاتی تھی۔

مال اچھا ہے۔
رنگ کالا ہے۔
ذرا دبلی ہے۔
منھ پر چیچک ہے۔
ارے اس کی تو بالکل ہڈیاں نکل آئی ہیں۔
چلو۔ خیر، ٹھیک ہے۔
دس روپے دے دو۔

خاوند بیویوں کو، مائیں لڑکیوں کو، بھائی بہنوں کو فروخت کر رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اگر کھاتے پیتے ہوتے تو ان تاجروں کو جان سے مار دینے پر تیار ہو جاتے۔ لیکن اب یہی لوگ نہ صرف انھیں بیچ رہے تھے بلکہ بیچتے وقت خوشامد بھی کرتے تھے۔ دکاندار کی طرح اپنے مال کی تعریف کرتے گڑگڑاتے۔ جھگڑا کرتے۔ ایک ایک پیسے کے لئے مر رہے تھے۔

مذہب، اخلاقیات، مامتا، زندگی کے قوی سے قوی ترین جذبوں کے بھی چھلکے اتر گئے تھے اور ننگی بھوکی پیاسی خونخوار زندگی۔ منھ پھاڑے سامنے کھڑی تھی۔

میری بیوی نے کہا، ”ہم بھی اپنی بچی بیچ دیں۔“

ڈرتے ڈرتے، شرمندہ، محجوب سی ہو کر اس نے یہ الفاظ کہے اور پھر فوراً ہی چپ ہو گئی۔ اس نے کنکھیوں سے میری طرف دیکھا۔ جیسے وہ اپنے الفاظ کے تازیانوں کا اثر دیکھ رہی ہو۔ اس کی نگاہوں میں ایک ایسا احساس جرم تھا۔ جیسے اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی بچی کا گلا گھونٹ ڈالا ہو۔ جیسے اس نے اپنے خاوند کو ننگا کر کے اس کے بدن پر کوڑے لگا دیے ہوں۔ جیسے اس نے خود اپنے ہاتھوں سے پھانسی کا پھندا تیار کیا ہو اور اب اس کی دبلی پتلی گردن اس میں لٹک رہی ہو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9