کرشن چندر کا لازوال افسانہ: ان داتا


ہوٹلوں کے باہر بھوکے مرے پڑے ہیں۔ جھوٹی پتلوں میں کتے اور انسان ایک جگہ کھانا ٹٹول رہے ہیں۔ کتے اور آدمی لڑ رہے ہیں۔ ایک موٹر فراٹے سے گزر جاتی ہے۔

ننگے بدن میں پسلیاں آہنی زنجیریں معلوم ہوتی ہیں۔ ان کے اندر روح کو کیوں قید کر رکھا ہے۔ اسے اڑ جانے دو۔ اس مہیب زنداں خانے کا دروازہ کھول دو۔ ایک موٹر فراٹے سے گزر جاتی ہے۔

لیکن جسم روح کی فریاد نہیں سنتا۔ مائیں مر رہی ہیں۔ بچے بھیک مانگ رہے ہیں۔ بیوی مر رہی ہے۔ خاوند رکشا والے صاحب کی خوشامد کرتا ہے۔ یہ نوجوان عورت مادر زاد ننگی ہے۔ اسے یہ پتہ نہیں وہ جوان ہے۔ وہ عورت ہے۔ وہ صرف یہ جانتی ہے کہ وہ بھوکی ہے۔ اور یہ کلکتہ ہے۔ بھوک نے حسن کو بھی ختم کر دیا ہے۔

میں اس قونصل خانے کی سیڑھیوں پر مر رہا ہوں۔ بے ہوش پڑا ہوں۔ چند لوگ آتے ہیں۔ میرے سرہانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا مجھے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھ رہے ہیں۔ پھر میرے کانوں میں ایک مدھم سی آواز آتی ہے، جیسے کوئی کہہ رہا ہے، ”حرامی ہندو ہوگا۔ جانے دو۔ آگے بڑھو۔“

وہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اندھیرا بڑھ جاتا ہے۔
پھر چند لوگ رکتے ہیں۔ کوئی مجھ سے پوچھ رہا ہے۔ ”تم کون ہو؟“
میں بمشکل اپنے بھاری پپوٹے اٹھا کر آنکھیں کھول کر جواب دیتا ہوں۔
”میں ایک آدمی ہوں۔ بھوکا ہوں۔“
وہ کہتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ”سالا کوئی مسلمان معلوم ہوتا ہے۔“
بھوک نے مذہب کو بھی ختم کر دیا ہے۔
اب چاروں طرف اندھیرا ہے۔ مکمل تاریکی، روشنی کی ایک کرن بھی نہیں، خاموشی، گہرا سناٹا۔

یکایک کلیساؤں میں مندروں میں عبادت خانوں میں خوشی کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ ساری کائنات شیریں آوازوں سے معمور ہو جاتی ہے۔

ایک اخبار فروش چلا چلا کر کہہ رہا ہے۔ ”طہران میں بنی نوع انسان کے تین بڑے رہنماؤں کا اعلان، ایک نئی دنیا کی تعمیر!“

ایک نئی دنیا کی تعمیر!
میری آنکھیں حیرت اور مسرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ احساسات پتھر کی طرح جامد ہو جاتے ہیں۔
میری آنکھیں اس وقت سے کھلی کی کھلی ہیں۔

میں سیاست داں نہیں ہوں۔ ستار بجانے والا ہوں۔ حاکم نہیں ہوں۔ حکم بجا لانے والا ہوں۔ لیکن شاید ایک نادار مغنی کو بھی یہ پوچھنے کا حق ہے کہ اس نئی دنیا کی تعمیر میں کیا ان کروڑوں بھوکے ننگے آدمیوں کا بھی ہاتھ ہو گا جو اس دنیا میں بستے ہیں؟ میں یہ سوال اس لئے پوچھتا ہوں کہ میں بھی ان بڑے رہنماؤں کی نئی دنیا میں رہنا چاہتا ہوں۔ مجھے بھی فسطائیت جنگ اور ظلم سے نفرت ہے اور گو میں سیاست داں نہیں ہوں۔ لیکن مغنی ہو کر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اداس نغمے سے اداسی ہی پیدا ہوتی ہے جو نغمہ خود اداس ہے، وہ دوسروں کو بھی اداس کر دیتا ہے۔ جو آدمی خود غلام ہے، وہ دوسروں کو بھی غلام بنا دیتا ہے۔

دنیا کا ہر چھٹا آدمی ہندوستانی ہے۔ یہ غیر ممکن ہے کہ باقی پانچ آدمی کرب کی اس زنجیر کو محسوس نہ کرتے ہوں۔ جو ان کی روحوں کو چیر کر نکل رہی ہے اور ایک ہندوستانی کو دوسرے ہندوستانی سے ملا دیتی ہے۔ جب تلک میری ستار کا ایک تار بھی بے آہنگ ہوتا ہے اس وقت تک سارا نغمہ بے آہنگ و بے ربط رہتا ہے۔ میں سوچتا ہوں۔ یہی حال انسانی سماج کا بھی ہے۔ جب تک دنیا میں ایک شخص بھی بھوکا ہے، یہ دنیا بھوکی رہے گی۔ جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی غلام ہے، سب غلام رہیں گے۔ جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی مفلس ہے، سب مفلس رہیں گے۔

اسی لئے میں تم سے یہ سوال پوچھ رہا ہوں۔

تم مجھے مردہ نہ سمجھو مردہ تم ہو میں زندہ ہوں اور اپنی پھٹی پھٹی بے نور، بے بصر آنکھوں سے ہمیشہ تم سے یہی سوال کیا کروں گا تمھاری راتوں کی نیند حرام کردوں گا۔ تمھارا اٹھنا، بیٹھنا، سونا جاگنا، چلنا، پھرنا سب دوبھر ہو جائے گا تمھیں میرے سوال کا جواب دینا ہو گا میں اس وقت تک نہیں مر سکتا، جب تک تم میرے سوال کا تسلی بخش جواب نہ دو گے۔

میں یہ سوال اس لئے بھی پوچھ رہا ہوں کیوں کہ میں نے جل پری کو بے گور و کفن سڑک پر چھوڑ دیا ہے اور میرے ہاتھ میں لکڑی کا ایک جھنجھنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9