کرشن چندر کا لازوال افسانہ: ان داتا


20 ستمبر

آنریبل ممبر تحقیقات کے بعد واپس چلے گئے ہیں۔ سنا ہے، وہاں حضور وائسرائے بہادر سے ملاقات کریں گے اور اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھیں گے۔

25 ستمبر

لندن کے انگریزی اخباروں کی اطلاع کے مطابق ہر روز کلکتہ کی گلیوں اور سڑکوں، فٹ پاتھوں پر لوگ مر جاتے ہیں۔ بہر حال یہ سب اخباری اطلاعیں ہیں۔ سرکاری طور پر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ بنگال میں قحط ہے۔ سب پریشان ہیں۔ چینی قونصل کل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ بنگال کے فاقہ کشوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھولنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کوئی کہتا ہے کہ قحط ہے کوئی کہتا ہے قحط نہیں ہے۔ میں نے اسے سمجھایا، بیوقوف نہ بنو۔ اس وقت تک ہمارے پاس مصدقہ اطلاع یہی ہے کہ غذائی بحران اس لئے ہے کہ ہندوستانی بہت زیادہ کھاتے ہیں۔ اب تم ان لوگوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھول کر گویا ان کے پیٹوپن کو اور شہ دو گے۔ یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن چینی قونصل میری تشریحات سے غیر مطمئن معلوم ہوتا تھا۔

ف۔ ب۔ پ

28 ستمبر

دلی میں غذائی مسئلے پر غور کرنے کے لئے ایک کانفرنس بلائی جا رہی ہے۔ آج پھر یہاں کئی سو لوگ ”سوکھیا“ سے مر گئے۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ مختلف صوبائی حکومتوں نے رعایا میں اناج تقسیم کرنے کی جوا سکیم بنائی ہے۔ اس سے انھوں نے کئی لاکھ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔ اس میں بنگال کی حکومت بھی شامل ہے۔

ف۔ ب۔ پ

20 اکتوبر

کل گرانڈ ہوٹل میں ”یوم بنگال“ منایا گیا۔ کلکتہ کے یورپین امراء و شرفاء کے علاوہ حکام اعلیٰ، شہر کے بڑے سیٹھ اور مہاراجے بھی اس دلچسپ تفریح میں شریک تھے۔ ڈانس کا انتظام خاص طور پر اچھا تھا۔ میں نے مسز جیولٹ تریپ کے ساتھ دو مرتبہ ڈانس کیا (مسز تریپ کے منھ سے لہسن کی بو آتی تھی۔ نہ جانے کیوں؟) مسز تریپ سے معلوم ہوا کہ اس سہن ماہتابی کے موقعہ پر یوم بنگال کے سلسلہ میں نو لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا ہے۔

مسز تریپ بار بار چاند کی خوب صورت اور رات کی سیاہ ملائمت کا ذکر کر رہی تھیں اور ان کے منھ سے لہسن کے بھپارے اٹھ رہے تھے۔ جب مجھے ان کے ساتھ دو بار ڈانس کرنا پڑا تو میرا جی چاہتا تھا کہ ان کے منھ پر لائی سول یا فینائل چھڑک کر ڈانس کروں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مسز جیولٹ تریپ موسیو ژاں ژاں تریپ کی باوقار بیوی ہیں اور موسیو ژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقوامی معاملات میں ایک قابل رشک مرتبہ حاصل ہے۔

ہندوستانی خواتین میں مس سنیہہ سے تعارف ہوا۔ بڑی قبول صورت ہے اور بے حد اچھا ناچتی ہے۔
ف۔ ب۔ پ

26 اکتوبر

مسٹر منشی حکومت بمبئی کے ایک سابق وزیر کا اندازہ ہے کہ بنگالی میں ہر ہفتے قریباً ایک لاکھ افراد قحط کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ سرکاری اطلاع نہیں ہے۔ قونصل خانے کے باہر آج پھر چند لاشیں پائی گئیں۔ شوفر نے بتایا کہ یہ ایک پورا خاندان تھا جو دیہات سے روٹی کی تلاش میں کلکتہ آیا تھا۔ پرسوں بھی اسی طرح میں نے ایک مغنی کی لاش دیکھی تھی۔ ایک ہاتھ میں وہ اپنی ستار پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں لکڑی کا ایک جھنجھنا سمجھ نہیں آیا۔ اس کا کیا مطلب تھا۔ بیچارے چوہے کس طرح چپ چاپ مر جاتے ہیں اور زبان سے اف تک بھی نہیں کرتے۔

میں نے ہندوستانیوں سے زیادہ شریف چوہے دنیا میں اور کہیں نہیں دیکھے۔ اگر امن پسندی کے لئے نوبل پرائز کسی قوم کو مل سکتا ہے۔ تو وہ ہندوستانی ہیں۔ یعنی لاکھوں کی تعداد میں بھوکے مر جاتے ہیں لیکن زبان پر ایک کلمۂ شکایت نہیں لائیں گے۔ صرف بے روح، بے نور آنکھوں سے آسمان کی طرف تاکتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں۔ ان داتا، ان داتا! کل رات پھر مجھے اس مغنی کی خاموش شکایت سے معمور، جامد و ساکت پتھریلی بے نور سی نگاہیں پریشان کرتی رہیں۔

ف۔ ب۔ پ

5 نومبر

نئے حضور وائسرائے بہادر تشریف لائے ہیں۔ سنا ہے کہ انھوں نے فوج کو قحط زدہ لوگوں کی امداد پر مامور کیا ہے اور جو لوگ کلکتہ کے گلی کو چوں میں مرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے باہر مضافات میں مرکز کھول دیے گئے ہیں۔ جہاں ان کی آسائش کے لئے سب سامان بہم پہنچایا جائے گا۔

ف۔ ب۔ پ

10 نومبر

موسیو ژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ بنگال میں واقعی قحط ہو اور سوکھیا کی بیماری کی اطلاعیں غلط ہوں۔ غیر ملکی قونصل خانوں میں اس ریمارک سے ہل چل مچ گئی ہے۔ مملکت گوبیا، لوبیا اور مٹرسلووکیا کے قونصلوں کا خیال ہے کہ موسیو ژاں ژاں تریپ کا یہ جملہ کسی آنے والی خوفناک جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ یورپی اور ایشیائی ملکوں سے بھاگے ہوئے لوگوں میں آج کل ہندوستان میں مقیم ہیں۔

وائسرائے کی اسکیم کے متعلق مختلف شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ اگر بنگال واقعی قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا تو ان کے الاؤنس کا کیا بنے گا؟ وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ میں حضور پر نور کی توجہ اس سیاسی الجھن کی طرف دلانا چاہتا ہوں، جو وائسرائے بہادر کے اعلان سے پیدا ہو گئی ہے۔ مغرب کے ملکوں کے رفیوجیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کیا ہمیں سینہ سپر ہو کر نہ لڑنا چاہیے۔ مغربی تہذیب کلچر اور تمدن کے کیا تقاضے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ میں اس سلسلہ میں حضور پرنور کے احکام کا منتظر ہوں۔

ف۔ ب۔ پ

25 نومبر

موسیو ژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط نہیں ہے۔ موسیو فاں فاں فنگ چینی قونصل کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ حضور نے مجھے جس کام کے لئے کلکتہ کے قونصل خانے میں تعینات کیا تھا۔ وہ کام میں گزشتہ تین ماہ میں بھی پورا نہ کر سکا۔ میرے پاس اس امر کی ایک بھی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ بنگال میں قحط ہے یا نہیں ہے۔ تین ماہ کی مسلسل کاوش کے بعد بھی مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ صحیح ڈپلومیٹک پوزیشن کیا ہے۔ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں، شرمندہ ہوں۔ معافی چاہتا ہوں۔

نیز عرض ہے کہ حضور پر نور کی منجھلی بیٹی کو مجھ سے اور مجھے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے عشق ہے۔ اس لئے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ حضور پر نور مجھے کلکتہ کے سفارت خانے سے واپس بلا لیں اور میری شادی اپنی بیٹی۔ مطلب ہے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے کر دیں اور حضور پر نور مجھے کسی ممتاز سفارت خانے میں سفیر اعلی کا مرتبہ بخش دیں؟ اس نوازش کے لئے میں حضور پر نور کا تاقیامت شکر گزار ہوں گا۔

ایڈتھ کے لئے ایک نیلم کی انگوٹھی ارسال کر رہا ہوں۔ اسے مہاراجہ اشوک کی بیٹی پہنا کرتی تھی۔
میں ہوں جناب کا حقیر ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخہ
قونصل مملکت سانڈوگھاس برائے کلکتہ

وہ آدمی جو مر چکا ہے

صبح ناشتہ پر جب اس نے اخبار کھولا تو اس نے بنگال کے فاقہ کشوں کی تصاویر دیکھیں جو سڑکوں پر، درختوں کے نیچے، گلیوں میں، کھیتوں میں بازاروں میں، گھروں میں ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ آملیٹ کھاتے کھاتے اس نے سوچا کہ ان غریبوں کی امداد کس طرح ممکن ہے۔ یہ غریب جو نا امیدی کی منزل سے آگے جا چکے ہیں اور موت کی بحرانی کیفیت سے ہمکنار ہیں۔ انھیں زندگی کی طرف واپس لانا، زندگی کی صعوبتوں سے دوبارہ آشنا کرنا، ان سے ہمدردی نہیں دشمنی ہو گی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9