کرشن چندر کا لازوال افسانہ: ان داتا


وہ آدمی جو ابھی زندہ ہے

میں مر چکا ہوں؟ میں زندہ ہوں؟ میری پھٹی پھٹی بے نور بے بصر آنکھیں آسمان کی پہنائیوں میں کسے ڈھونڈ رہی ہیں؟ آؤ پل بھر کے لئے اس قونصل خانے کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاؤ اور میری داستان سنتے جاؤ۔ جب تک پولیس، سیواسمتی، یا انجمن خدام المسلمین میری لاش کو یہاں سے اٹھا نہ لے جائیں۔ تم میری داستان سن لو۔ نفرت سے منھ پھیرو۔ میں بھی تمہاری طرح گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اب میرے جسم پر گوشت کم اور پوست زیادہ نظر آتا ہے اور اس میں بھی سڑاند پیدا ہو رہی ہے اور ناک سے پانی کے بلبلے سے اٹھ رہے ہیں۔

لیکن یہ تو سائنس کا ایک معمولی سا عملیہ ہے۔ تمہارے جسم اور میرے جسم میں صرف اتنا فرق ہے کہ میرے دل کی حرکت بند ہو گئی ہے۔ دماغ نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پیٹ ابھی تک بھوکا ہے۔ یعنی اب بھی اس قدر بھوکا ہے کہ میں سوچتا ہوں، اگر تم چاول کا ایک ہی دانا میرے پیٹ میں پہنچا دو تو وہ پھر سے کام شروع کر دے گا۔ آزما کر دیکھ لو۔ کدھر چلے۔ ٹھہرو، ٹھہرو، ٹھہرو نہ جاؤ۔ میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔ تم گھر ا گئے کہ کلکتہ کے مردے بھی بھیک مانگتے ہیں؟ خدا کے لئے نہ جاؤ میری داستان سن لو۔ ہاں ہاں اس چاول کے دانے کو اپنی مٹھی میں سنبھال کر رکھو۔ میں اب تم سے بھیک نہیں طلب کروں گا۔ کیوں کہ میرا جسم اب گل چکا ہے۔ اسے چاول کی دانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب یہ خود ایک دن چاول کا دانہ بن جائے گا۔ نرم نرم گداز مٹی میں جس کے ہر مسام میں ندی کا پانی رچا ہوگا۔ یہ جسم گھل جائے گا۔ اپنے اندر دھان کی پنیری اگتے ہوئے دیکھے گا اور پھر یہ ایک دن پانی کی پتلی تہہ سے اوپر سر نکال کر اپنے سبز سبز خوشوں کو ہوا میں لہرائے گا، مسکرائے گا، ہنسے گا، کھلکھلائے گا۔ کرنوں سے کھیلے گا۔ چاندنی میں نہائے گا۔ پرندوں کے چہچہوں اور خنک ہوا کے جھونکوں کے شہد آ گیں بوسوں سے اس کی حیات کے بند بند میں ایک نئی رعنائی ایک نیا حسن، ایک نیا نغمہ پیدا ہو گا۔ چاول کا ایک دانہ ہو گا۔ صدف کے موتی کی طرح اجلا، معصوم اور خوب صورت۔ آج میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا راز، وہ راز جو تمھیں ایک مردہ ہی بتا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے دعا کرو۔ وہ تمھیں انسان نہ بنائے۔ چاول کا ایک دانہ بنا دے۔ گو زندگی انسان میں بھی ہے اور چاول کے دانے میں بھی۔ لیکن جو زندگی چاول کے دانے میں ہے۔ وہ انسان کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ خوبصورت ہے۔ پاک ہے اور انسان کے پاس بھی اس زندگی کے سوا اور ہے کیا۔

انسان کی جائیداد اس کا جسم، اس کا باغ اس کا گھر نہیں بلکہ یہی اس کی زندگی ہے۔ اس کا اپنا آپ، وہ ان سب چیزوں کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے اپنے جسم کو، اپنی زمین کو، اپنے گھر کو اس کے دل میں چند تصویریں ہوتی ہیں۔ چند خیال آگ کے چند انگارے ایک مسکراہٹ وہ ان ہی پر جیتا ہے۔ اور جب مر جاتا ہے تو صرف انھیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

چاول کے دانے کی زندگی تم دیکھ چکے۔ اب آؤ میں تمھیں اپنی زندگی دکھاؤں، نفرت سے منھ نہ پھیر لو۔ کیا ہوا؟ اگر میرا جسم مردہ ہے۔ میری روح تو زندہ ہے میری روح تو بیدار ہے اور بیشتر اس کے کہ وہ بھی سو جائے، وہ تمھیں ان چند دنوں کی کہانی سنانا چاہتی ہے۔ جب روح جسم ایک ساتھ چلتے پھرتے ناچتے گاتے ہنستے بولتے تھے۔ روح اور جسم، دو میں مزا ہے، دو میں حرکت ہے، دو میں زندگی ہے، دو میں تخلیق ہے۔ جب دھرتی اور پانی ملتے ہیں تو چاول کا دانہ پیدا ہوتا ہے۔

جب عورت اور مرد ملتے ہیں تو ایک خوبصورت ہنستا ہوا بچہ ظہور میں آتا ہے۔ جب روح اور جسم ملتے ہیں تو زندگی پیدا ہوتی ہے اور جب روح الگ ہوتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے۔ اگر غور سے دیکھو گے تو تمہیں اس دھوئیں میں میرے ماضی کی تصاویر لرزتی، دمکتی، گم ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔ یہ تجلی کیا تھی۔ یہ میری بیوی کی مسکراہٹ تھی۔ یہ میری بیوی ہے۔ شرماؤ نہیں سامنے آ جاؤ، اے جان تمنا۔ اسے دیکھا آپ نے؟ یہ سانولی سلونی مورت یہ گھنے بال کمر تک لہراتے ہوئے۔ یہ شرمیلا تبسم۔ یہ جھکی جھکی حیران حیران آنکھیں۔

یہ آج سے تین سال پہلے کی لڑکی ہے۔ جب میں نے اسے اتا پارا کے ساحلی گاؤں میں سمندر کے کنارے دو پہر کی سوئی ہوئی فضا میں دیکھا تھا۔ میں ان دنوں اجات قصبے میں زمیندار کی لڑکی کو ستار سکھاتا تھا اور یہاں اتا پارا میں دو دن کی چھٹی لے کر اپنی بڑی موسی سے ملنے کے لئے آیا تھا۔ یہ خاموش گاؤں سمندر کے کنارے بانسوں کے جھنڈ اور ناریل کے درختوں سے گھرا ہوا اپنی اداسی میں گم تھا۔ نہ جانے ہمارے بنگالی گاؤں میں اتنی اداسی کہاں سے آ جاتی ہے۔ بانس کے چھپروں کے اندر اندھیرا ہے۔ سیلن ہے۔ بانس کی ہانڈیوں میں چاول دبے پڑے ہیں۔ مچھلی کی بو ہے۔ تالاب کا پانی کائی سے سبز ہے۔ دھان کے کھیتوں میں پانی ٹھہرا ہوا ہے۔ ناریل کا درخت ایک نکیلی برچھی کی طرح آسمان کے سینے میں گہرا گھاؤ ڈالے کھڑا ہے۔ ہر جگہ، ہر وقت درد کا احساس ہے۔ ٹھہرا کا احساس ہے۔ حزن کا احساس ہے۔ سکون، جمود اور موت کا احساس ہے۔ یہ اداسی جو تم ہماری محبت، ہمارے سماج، ہمارے ادب اور نغمے میں دیکھتے ہو۔ یہ اداسی ہمارے گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور پھر ساری دھرتی پر پھیل جاتی ہے۔ جب میں نے اسے پہلے پہل دیکھا تو یہ مجھے ایک جل پری کی طرح حسین نظر آئی۔ یہ اس وقت پانی میں تیر رہی تھی اور میں ساحل کی ریت پر ٹہل رہا تھا اور ایک نئی دھن میں سوچ رہا تھا۔ یکایک میرے کانوں میں ایک شیریں نسوانی آواز سنائی دی،

”پرے ہٹ جاؤ، میں کنارے پر آنا چاہتی ہوں۔“

میں نے دیکھا آواز سمندر میں سے آ رہی تھی۔ لانبے ریشمیں گھنے بال اور جل پری کا چہرہ۔ ہنستا ہوا۔ مسکراتا ہوا اور دور پرے افق پر ایک کشتی، جس کا مٹیالا بادبان دھوپ میں سونے کے پر ے کی طرح چمکتا نظر آ رہا تھا۔

میں نے کہا، ”کیا تم سات سمندر پار سے آئی ہو؟“

وہ ہنس کر بولی، ”نہیں میں تو اسی گاؤں میں رہتی ہوں۔ وہ کشتی میرے باپ کی ہے۔ وہ مچھلیاں پکڑ رہا ہے۔ میں اس کے لئے کھانا لائی ہوں۔ ذرا دیکھ کر چلو۔ تمہارے قریب ناریل کے تنے کے پاس کھانا رکھا ہے اور وہاں میری ساڑھی بھی ہے۔“

یہ کہہ کر اس نے پانی میں ایک ڈبکی لگائی اور پھر لہروں میں پھوٹتے ہوئے بلبلوں کی افشاں سی نہاتی ہوئی کنارے کے قریب آ گئی۔ بولی، ”پرے ہٹ جاؤ اور وہ دھوتی مجھے دیدو۔“

میں نے کہا، ”ایک شرط پر۔“
”کیا ہے؟“
”میں بھی مچھلی بھات کھاؤں گا۔ بہت بھوک لگی ہے۔“

وہ ہنسی اور پھر سن سے ایک تیر کی طرح پانی کے سینے کو چیرتی ہوئی دور چلی گئی۔ جہاں اس کے چاروں طرف سورج کی کرنوں نے پانی میں طلائی جال بن رکھا تھا اور اس کا نازک چھریرا سبک اندام جسم اک نئی کشتی کی طرح ان پانیوں میں گھومتا نظر آیا۔ پھر وہ گھومی اور سیدھی کنارے کو ہولی۔ لیکن اب ہولے ہولے آ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ، ڈگمگ ڈگمگ۔

میں نے پوچھا، ”کیا ہوا ہے تمھیں؟“
بولی، ”آج کل بھات بہت مہنگا ہے۔ روپے کا دو سیر ہے۔ میں تمہیں بھات نہیں کھلا سکتی۔“
”پھر، میں کیا کروں۔ مجھے تو بھوک۔“
”سمندر کا پانی پیو۔“ اس نے شوخی سے کہا اور پھر ایک ڈبکی لگائی۔

جب وہ میری بیوی بن کر میرے گھر آئی تو بھات روپے کا دو سیر تھا اور میری تنخواہ پچاس روپے ماہانہ تھی۔ بیاہ سے پہلے مجھے خود صبح اٹھ کر بھات پکانا پڑتا تھا۔ کیوں کہ زمیندار کی بیٹی اسکول جاتی تھی اور مجھے علی الصبح اسے ستار سکھانے کے لئے جانا پڑتا تھا۔ شام کو بھی اسے دو گھنٹے تک ریاض کراتا تھا۔ دن میں بھی زمیندار بلا لیتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9