پیوما (3)
میرے لیے وہ دن نسبتاً خاموش تھا۔ ابا کی ترکے میں چھوڑی ہوئی سن ستر کی مرسڈیز میں کچھ کام نکل آیا تھا۔ ایک عدد جیپ اور ایک نئی کار کی موجودگی کے باوجود وہ مجھے بہت عزیز تھی۔ میں طارق روڈ پر عزیز مستری کے پاس اسے بنوانے چلا گیا۔
مستری حضرات کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ کار اپنی طبیعت سے مقررہ مدت میں بنوانی ہو تو ان کے ساتھ بیٹھ کر سوٹے بھی لگانے پڑتے ہیں۔ کوئٹہ ہوٹل والوں کی چینک کی غلیظ چائے جس میں بیرے کے ناخنوں کے میل کی آمیزش ہو اور جس کی کیتلی صرف بنتے وقت دھلی ہو، وہ بھی پینی پڑتی ہے۔ پیرس، جینوا، برلن، تہران اور دوبئی کے عمدہ ہوٹلوں میں رہنے اور کھانے پینے کے بعد بھی میرا مزاج کچھ ایسا امارت پسندانہ نہیں ہوا کہ مجھے نچلے طبقات سے مراسم میں کچھ دشواری پیش آئے۔
دھابے سے مغز فرائی، رومالی چپاتی کھا کر، چینک کی شربتی چائے پی کر میں نے عزیز کا چترالی ٹافی والا سگریٹ لبوں سے لگایا تھا کہ سیل فون پر شہود گیلانی کا فون آ گیا گیلانی جیسے فضول مرد کا فون سننا اس نشیلے سگریٹ کی توہین تھی۔ ارد گرد کے شور میں میرے فون کی استاد ولایت خان کی ستار پر راگ شنکارا والی رنگ ٹون نے کئی دفعہ بجنے کے باوجود مجھے کچھ ڈسٹرب نہ کیا، سگریٹ ختم ہونے پر جب ایک بار پھر سے گھنٹی بجی تو گیلانی کی بے لطف ہیلو سنائی دی۔ بتانے لگا کہ وہ دو دن کے لیے ملک سے باہر جا رہا ہے۔ کیا میں سعدی کو پیوما کے پاس بھیج سکتا ہوں۔ اس کی دو سہیلیاں کھانے پر آئی ہوئی ہیں۔ پیوما پر کل کی ملاقات کا بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ اس کی دوست بھی سعدی سے ملنے کی مشتاق ہیں۔ میں نے فون کیا تو سعدی راستے میں تھا گھانگرو کو اسلام آباد والی فلائیٹ پر سوار کرا کر میرے فلیٹ پر آ رہا تھا۔
گیلانی کی دعوت کا سن کر سعدی کہنے لگا کہ اس کی کار وہ یہاں عزیز کے پاس منگوا لے۔ چند لمحات گزرے ہی تھے کہ سعدی بھی آن پہنچا۔ اس نے کہا کہ سامنے سڑک پار ایک پھول والا ہے اس کے پاس بہت عمدہ ٹیوب روز دیکھے ہیں۔ چلو پیوما کے لیے خرید لیتے ہیں۔
ہم گلدستہ خرید کر لوٹے تو میں نے راستے میں دو سوال داغ دیے کہ ایک تو اس نے تمہیں اکیلے کیوں بلایا ہے اور وہ بھی اپنے شوہر گیلانی کے ذریعے۔ میرا سوال سن کر کہنے لگا ’تمہیں معلوم ہے جب ہم کل رات رخصت ہو رہے تھے تو کار میں جھک کر میں نے اس کے کان میں کیا کہا تھا۔
سعدی نے کان میں کہا Always and Never ان دو الفاظ سے مجھے نفرت ہے
وہ ہنس کر سعدی کے ہاتھ کی پشت کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہنے لگی
I promise. I will always remember And I will never used these
آقا مجھے لگتا ہے معاملہ عشق عاشقی سے زیادہ کا ہے۔ میں نے چھیڑنے کے لیے کہا کہ کیا اس کی خدمات بطور ایک یو پی ایس کے طور پر لی گئی ہیں۔
وہ کہنے لگا کہ پیوما کو پڑھنا اور سمجھنا شاید اتنا مشکل نہ ہو۔ وہ تو ایک دیوان غزلیات ہے۔ کہیں سے بھی شروع کرو۔ فرق نہیں پڑتا۔ ہر شعر کا اپنا مزاج اور مزہ ہے۔ اثر گہرا مگر آغاز و اختتام کی کوئی قید نہیں۔ غزل میں مطلع و مقطع کا لطف و سواد درمیانہ اشعار کے سوا ہے۔ شہود گیلانی البتہ مجھے ایک آبدوز لگتا ہے۔ زیر آب سفر کرنے والا۔ بظاہر بیوی کے ہاتھوں مجبور مگر سی سی ٹی وی کیمرے کی کی طرح خاموش جائزہ لینے والا اور Rattle Snake کی طرح کنڈلی مار کر، بے سدھ جلیبی بن کر موقع کی تاک لگا کر پڑا رہنے والا۔ دم کا جھن جھنا بجا کر قریب آنے والے پر مہلک وار کرنے والا۔ اس مہربان جوڑے کے حوالے سے سعدی کے یہ شناختی استعارے مجھے دل چسپ، بہت گہرے اور کچھ خوف ناک لگے۔ پچھتاوا ہوتا ہے کہ اس جان لیوا تجزیے کے باوجود میں نے سعدی کو پیوما کے قریب جانے سے روکا کیوں نہیں۔ میرا خیال ہے ہمیں دانشمندی سے فائدہ اٹھانے کی تب سوجھتی ہے جب یہ دانشمندی ہمارے لیے مفید نہیں رہتی۔ سعدی گیلانی کی بھیجی ہوئی کار میں بیٹھ کر پیوما کی دعوت پر چلا گیا۔
ایک ہفتے تک میری سعدی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ دورے پر پہلے بہاولپور، پھر دالبدین۔ بلوچستان اور وہاں سے اسلام آباد چلا گیا۔ ایسے موقعوں پر وہ کسی غیر معروف نمبر سے مجھے کال کرتا تھا۔ فون سے پہلے ایک میسج آتا تھا میرے آقا، سیدنا، آیت اللہ۔ یہ ہمارا کوڈ تھا۔ میرے جواب کے پانچ منٹ بعد فون آ جاتا تھا۔ اس عرصۂ غیر حاضری میں حیرت ناک طور پر مجھے تین دفعہ گیلانی کا فون آیا۔ کہنے لگا کہ پیوما کچھ مضطرب ہے۔ اچانک یوں بن بتائے سعدی کہاں غائب ہو گیا ہے۔ اس کا فون بھی بند مل رہا ہے۔
چھٹے دن خود پیوما میرے فلیٹ پر آ گئی۔ مجھے لگا کہ اس کا بن بتائے یوں آجانا ایک طرح کا جائزہ مشن ہے۔ مصر تھی کہ میں بتاؤں کہ سعدی کہاں غائب ہے؟ اسے اس بات کی پریشانی ہے کیوں کہ اس کا فون بند مل رہا ہے؟ اس کی ایک دو ست روحی بھی ساتھ تھی۔ اس سے عمر میں دو چار سال بڑی، بے رحم، بے کیف چہرہ۔ بے رونق، جلد جیسے کسی نے جلدی سے گورے پن کی سرحد سے دور بغیر کاغذات چیک کیے ہی سیاہی کی سرحدوں کی جانب ڈی پورٹ کر دیا ہو۔ چہرے پر بے خیالی سے بکھرے بال جن کو دیکھ کر مزاج کے حوالے سے بے ترتیبی اور لاپرواہی کا گمان ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سیدھی کلکتہ، کیرالہ یا چنائے سے امپورٹ کی گئی ہے۔ جسم میں ایک لبھاؤ بھری دعوت جو دیگر خامیوں کو نظر انداز کر کے ٹوٹ پڑنے پر اکساتی تھیں۔ آنکھوں میں سپاٹ کشادہ سفیدی لیکن سیاہ دیدوں میں ایک بے رحم چمک۔ نگاہوں کا انداز بھی بالکل آڈیٹر جیسا۔ گویا وہ نہ صرف حساب کتاب میں مصروف ہیں بلکہ ان کا واحد مقصد غلطی یا بے ایمانی کو پکڑنا تھا۔
مجھے اس کے سرحد پار سے ہونے کا شبہ اس کی گفتگو میں لا شعوری طور پر کبھی کبھار ہندی الفاظ کا استعمال تھا۔ اس کے مکالموں کے دوران پانچ ہندی الفاظ کا استعمال میں نے خصوصیت سے نوٹ کیا : یعنی سواد، کارن (وجہ) کشٹ (تکلیف ) چنتا ( پریشانی ) اوربھاؤنا (سمجھ بوجھ) ۔ میں نے حفظ ما تقدم کے طور پر اسے پوچھ بھی لیا کہ اسے ہندی آتی ہے۔ کہنے لگی کہ دوبئی میں اس کے زیادہ تر دوست اور دفتری ساتھی ہندوستان سے ہیں لہذا بی۔ بلاک۔ نارتھ ناظم آباد کراچی کی شدھ چچا غالب والی اردو اب وہ تقریباً بھول سی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس نے ایک کارڈ نکال کر مجھے دے دیا جس پر اس کا نام روحی حسن درج تھا۔ وہ کسی بلڈنگ مینجمینٹ کمپنی میں ایچ۔ آر کی چیف تھی۔ کارڈ نکال کر دینے کا مقصد غالباً یہ تھا کہ میری جانب سے مزید نجی گفتگو سے احتراز کیا جائے۔
جب تک وہ دونوں میرے فلیٹ پر رہیں دونوں نے کراچی، بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور جنوبی پنجاب کے حالات پر کھل کر باتیں کیں۔ کراچی ان کا محبوب موضوع تھا۔ جانتی تھیں کہ میں ایک طویل عرصے سے کراچی میں مقیم ہوں اور اپنے فرقہ وارانہ روابط کی روشنی میں اور اپنے لوگوں کے عمومی طور پر بہتر تعلیم یافتہ اور مختلف پیرائیوں میں جڑے ہونے کے ناتے بہت باخبر بھی۔ انہیں اس میں بہت دل چسپی تھی کہ کراچی سے مذہبی سیاست کو ایک ایسی لسانی سیاست نے کیسے اکھاڑ باہر کیا جو اب تک کچھ زیادہ ڈیلور نہیں کر پائی۔ جس کی نمائندہ جماعت کی تخلیق میں قوم پرست سندھیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جس نے انہیں مقامی سیاست کا شیرہ چٹا کر سندھ کی سیاست اور سرکاری ملازمتوں سے بالکل چیر کر علیحدہ کر دیا ہے۔
میرے جواب بھی کچھ ٹالنے والے سے تھے۔ مجھے اجنبی لوگوں سے ملکی حالات پر بحث کرنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے روحی کو چھیڑا کہ اسے سیاست اور ملکی حالات پر دوبئی میں تازہ ترین خبریں مل ہی جاتی ہوں گی۔ اچھا ہوتا وہ مجھ سے کراچی کے فیشن سین اور لان کی نت نئی سیلز پر باتیں کرے تو وہ ہنس کر کہنے لگی اس حوالے سے دوبئی بھی بہت Vibrant ہے۔ وہاں نیتا للا، منیش ملہوترا، ابو جانی جیسے ہندوستانی فیشن ڈیزائنر کے علاوہ آپ کے پروانی، مسکٹیا، فرح طالب، ماہین خان ہر سیزن میں اپنی رام لیلا سجانے آ جاتے ہیں۔
دونوں میری دعوت پر ڈنر کے لیے مان گئیں۔ میرے کک منعم بھوئیاں کے تیار کردہ فش سوپ کی تعریف بھی کی۔ دو سو روپے نکال کر اسے انعام بھی دیا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کسی ملازم کو کوئی مہمان انعام دے۔ اس سے ملازم کی عادتیں خراب ہوتی ہیں۔ وہ مالکان اور مہمانوں کو پھر اسی انعام کی عینک سے دیکھتا ہے۔ میں ایسے لوگوں پر اپنے گھر کے دروازے فوری طور پر بند کر دیتا ہوں جو میرے ملازمین کو مجھ سے پوچھے بغیر ترجیح دیں اور اس کو ایک معلوماتی ایجنسی کے طور پر استعمال کریں۔ دونوں نے سعدی کے ذریعے بھجوائی ہوئی پی بی گھانگرو کی جانب سے میرے لیے تحفے میں ثمر کے ہاتھ بھیجی ہوئی جنوبی افریقہ کی ( Alto Rouge (Shiraz کی سرخ شراب کے دو دو پیگ بھی ٹکائے۔
رخصت ہونے سے کچھ دیر قبل میرا رد عمل جاننے کے لیے روحی کہنے لگی کہ ”یہ آپ کے سعدی صاحب تو بڑے چت چور (دل کے چور ) نکلے۔ ہماری اس ابلا ناری ( نادان لڑکی ) کا دل لے کر خود کہیں پتلی گلی سے رفو چکر ہو گئے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ارے پگلی تو بیاہتا ہے۔ نہ کر۔ کہتی ہے گیلانی جی کو مجھ پر اور سعدی پر پورا وشواش (بھروسا ) ہے۔ روحی کہنے لگی میں نے پیوما سے پوچھا بھی کہ“ کیا وہ پہلی نظر میں محبت کی قائل ہے؟ ”کہنے لگی سو فیصد اس کے علاوہ دو بالغ افراد کا محبت کرنا میری سمجھ میں تو نہیں آتا۔ مجھے لگا کہ وہ اس نو تشکیل شدہ تکون میں میرا in۔ put چاہتی ہے۔ روحی سے میں نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ میری پیوما اور گیلانی سے صرف ایک دفعہ ملاقات ہوئی ہے۔ میں سر دست اس موضوع پر کچھ کہنے سے اس لیے بھی قاصر ہوں کہ سعدی نے بھی مجھے پیوما کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ وہ چلی گئیں تو میں گہری گہری سوچوں میں ڈوبا رہا۔
اگلے دن میں اپنی پڑوسن زینب کو ڈیفنس میں اسکول چھوڑنے ساتھ لیے جا رہا تھا۔ وہ وہاں پڑھاتی تھی کہ سعدی کا فون آ گیا۔ وہ حب کے راستے کراچی پہنچ گیا تھا۔ یہاں ڈیفنس کے ایک بنگلے میں موجود ہے۔ میں آ جاؤں۔ لیکن کار میں وہاں مین روڈ پر ایک بڑے سے اسٹور کے قریب کسی جگہ کھڑی کروں۔ اس کے دفتر کا کوئی آدمی وہاں موجود ہو گا۔ جو مجھے بنگلے تک لے آئے گا۔ یہ بنگلہ ایک ایسی گلی میں تھا جس میں تین طرف سے رسائی تھی۔ دیوار پر ایک بڑے سمندری پتھر کی پشت پر سائے کے نیچے ایک گارڈ بندوق تانے بیٹھا تھا۔ یہ غیر معمولی قسم کا انتظام تھا۔ چھت پر نگاہ گئی تو مجھے وہاں بھی گارڈ نظر آئے۔ چھت یہ پر لانڈری لائن پر دھوپ میں سوکھتے جوڑوں کی اوٹ سے مجھے کچھ بندوقوں کی نالیاں بھی مین روڈ کی جانب نشست لیے دکھائی دیں۔
سعدی بتانے لگا کہ یہ انٹیلی جنس والوں کا ایک اسپیشل ٹاسک یونٹس کا نیا دفتر ہے۔ اسے اسلام آباد والے ڈیپ پاکٹ کہتے ہیں۔ اس کے ذمے کراچی، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جو ایران سے ملحق ہے۔ اسی طرح ایک دفتر پستۂ خنداں (وہ ایرانی پستہ جو درمیاں سے پھٹ جاتا ہے اور دو لبوں کی مسکراہٹ لگتا ہے ) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ، ایک کا نام مدرستہ البنات اور ایک کا نام دم پخت ہے جو دہلی کا موریا ہوٹل کا مشہور مغلئی ریستوراں ہے۔ جس کا شمار دنیا کے پچاس بہترین ریستورانٹس میں ہوتا ہے۔ دم پخت آپ تو جانتے ہی ہیں slow oven cooking کو کہتے ہیں۔ ہندوستان کے علاقے اودھ کے اس اسٹائل کو انٹرنیشنل حلقوں میں متعارف کرانے کا سہرا امتیاز قریشی کے سر جاتا ہے جو مشہور بھارتی اداکارہ ہما قریشی کے قریبی عزیز ہیں۔ کراچی کو Hub بنا کر چار سیٹ اپ بنائے گئے ہیں۔ اس میں ملک کے چار اہم اداروں کے افسر بطور ایک ٹیم شامل ہیں۔ نام مجھے انٹیلی جینس کے حساب سے کچھ عجیب لگے۔ خیال ہوا کہ اسلام آباد والوں کو مشن کو پوشیدہ رکھنے کے لیے شاید ایسی بازاری حس مزاح کی افادیت زیادہ بھلی لگی ہو۔
میں نے پوچھ لیا کہ کیا مد رستہ البنات خواتین پر فوکس کرے گا تو وہ ہنس کر کہنے لگا ایسا نہیں مگر چاروں کا انتظام اسلام آباد کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود بہت Fluid ہے۔ وہ اس لیے کہ تخریب کار کا کوئی ڈومیسائل نہیں ہوتا نہ وہ علاقوں کے حساب سے نقل و حرکت کرتے ہیں۔ ان کے ہاں نہ تو جنس، نہ فرقہ، نہ ادارہ اس طرح کی کوئی پابندی نہیں۔ واحد رشتہ کرنسی اور واحد مال تجارت موت اور بد امنی ہے، حلیے اور طریق کار کے حوالے سے بھی بڑی آزادی ہے۔ سرکاری اداروں، سیاست دانوں، بیگمات کی این جی اوز، اعلی تعلیمی اداروں، مدارس، تاجروں، میڈیا کون سا شعبہ ہے جہاں یہ ایجنٹ موجود نہیں۔
میں نے اسے بتایا کہ جب وہ شہر سے باہر دورے پر تھا تو اس کی یاد میں بے قرار و مضطرب پیوما ایک دوست روحی کے ساتھ میرے گھر پر اس کی تلاش میں آئی تھی۔ اسے افسوس ہوا کہ پیوما کے ساتھ آنے والی روحی کے بارے میں نے کسی قسم کی تفصیلات جمع کرنے سے کیوں گریز کیا۔ ان کی مصروفیات کا احوال سن کر اس نے ایک عجیب بے لطفی و بے اعتباری سے مجھے دیکھا۔ برسوں کا ساتھ نہ سہی مگر ہم دونوں کے تعلقات کی گہرائی اور سمجھ ہمیں اس بات کی اجازت دیتی تھی کہ ہم کئی مواقع پر ایک دوسرے کی نگاہوں سے لفظوں کی ادائیگی کے بغیر بھی ایک دوسرے کی بات سمجھ لیا کرتے تھے۔ مجھے لگا کہ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ آیت اللہ آپ نے حالات کا صحیح ادراک کیوں نہیں کیا۔ وہ دونوں ایک جائزہ مشن پر تھیں۔ اس کا اضطراب کم کرنے کے لیے میں نے شیشے کے چھوٹے سے پیالے میں پڑا روحی کا بزنس کارڈ اسے دکھایا تو وہ اس نے چپ چاپ لے کر دراز میں ڈال دیا، وہ کہنے لگا دورے پر روانگی والی رات بھی اس کی دو عدد سہیلیاں ملاقات میں موجود ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواتین دیگر مردوں سے اپنے تعلقات کے معاملے میں بہت محتاط اور آہستہ رو ہوتی ہیں غور طلب نقطہ یہ ہے کہ پیوما کیوں اسے ہر جگہ نمایاں کر رہی ہے۔
مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
- کمشنر پنڈی اور جنرل ضیا کا ریفرنڈم - 25/02/2024
- پھر یہ سودا گراں نہ ہو جائے - 03/08/2023
- پیوما (چوتھی اور آخری قسط) - 21/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).