اور ہم نے کتاب چھپوائی


ایک تصویر انٹرنیٹ پر ایک محترمہ نے پبلک پوسٹ کے طور پر لگائی، یہ حال میں ہوئی کسی آرٹ کی نمائش کی تصویر ہے۔ کسی طرح اتفاقاً یہ تصویر مسافر کے سامنے آ گئی۔ مسافر نے اس مکان کو دیکھا تو زمان کے ایک اور دور میں پہنچ گیا جہاں مسافر اس مکان میں پایا جاتا تھا۔ یہ جگہ آرٹ کے لیے شروع سے مختص رہی ہے۔

یہ لاہور میں ایر فورس کا ایر ڈیفنس سکول تھا جو کہ اب ایک کلب بن گیا ہے۔ یہ کھلا برآمدہ تھا جہاں ہر دوسرے تیسرے ماہ میزیں لگا کر چائے اور کھانے کا بندوبست ہوتا تھا۔ اس چائے اور کھانے کا خرچ عام طور پر کسی پر ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ خرچ اس کلاس پر ڈالا جاتا تھا جو یہاں کورس مکمل کر کے جا رہی ہوتی تھی۔ سنا ہے موجودہ زمان میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ یہاں لوگ اپنے کھانے کا خرچہ خود اٹھاتے ہیں۔

یہاں سے تھوڑا بائیں چلیں تو ایک برآمدہ آتا ہے جس کے ایک طرف چھوٹا سے باغیچہ ہے اور دوسری طرف کمروں کی ایک قطار ہے۔ مسافر دو سے تین سال ان کمروں میں سے ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔ یہ مسافر کا دفتر تھا۔ مسافر کی یہاں کئی یادیں ہیں۔

یہیں اسی دفتر میں لگے نوٹس بورڈ پر مسافر نے پرانے اخبار کی ایک تصویر کاٹ کر لگا رکھی تھی جس میں مرد حق بننے سے قبل کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق یونیفارم میں جھک کر ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ایک دن مسافر دفتر آیا تو بورڈ سے وہ تصویر غائب تھی پتہ لگا کہ افسر کمانڈنگ کسی وجہ سے اس دفتر آئے تو تصویر کو دیکھ کر کہنے لگے کہ اس فلائیٹ لفٹیننٹ کے مسائل پہلے ہی کیا کم ہیں کہ مزید کی تلاش میں ہے۔

وہ افسر کمانڈنگ جس نے ایک دفعہ اس کی حرکات پر اپنے دفتر میں اسے بلا کر ڈانٹا کہ مسافر نے کچھ ایسا کیا تھا کہ جو ہیڈ کواٹرز سے تنبیہ کے ساتھ آیا تھا۔ ڈانٹ کے آخر میں ایک جملہ عجب ادا کر دیا کہ میں خوش بھی ہوں کہ کوئی ایسا بھی ہے جو سچ کو سچ کہہ سکتا ہے۔ مسافر آج بھی اس شخص کا شکرگزار ہے کہ جو سمجھ گیا تھا کہ مسافر ایسے موڑ سے گزر رہا ہے، جہاں اصول و قواعد درست رہنمائی نہیں کر سکتے سو درگزر ہی بہتر ہے۔ سمجھدار لوگ بہت عام نہیں۔

مسافر اس دور میں زندگی کے عجب موڑ سے گزر رہا تھا۔ زندگی اور خدا پر اس کا اعتماد متزلزل تھا۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ناراض تھا، شاید وہ چیزوں کو دیکھ نہیں پا رہا تھا، یا شاید ایسے دیکھ پا رہا تھا جو عام حالات میں نہیں دکھتے۔

بیرونی منظر اندرونی منظر کے تابع ہوتا ہے۔ ہر منظر اپنے اپنے معنی رکھتا ہے، ایک منظر کئی معنی رکھتا ہے، کئی منظر ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ آنکھ کیا دیکھ سکتی ہے؟ آنکھ کیا کیا دیکھ سکتی ہے؟ بے چینی کیا کیا دکھا سکتی ہے؟

مسافر سفر میں تھا، وہ ساکت کھڑا تھا مگر ایک سفر میں تھا۔ ایسا سفر اکیلے ہوتا ہے، چاہیں بھی تو کوئی ہمراہی نہیں ملتا۔ اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ دیوانگی اور فرزانگی کی جانب کا سفر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیوانگی اور فرزانگی کیا ایک سکے کے دو رخ ہیں، ایک دوسرے سے پیوست، گٹھ کے بغلگیر، کبھی ایک سطح دکھتی ہے کبھی دوسری سطح سامنے آجاتی ہے، یا یہ سکے کی ایک ہی سطح ہے۔ دیوانگی اور فرزانگی دونوں اپنے عکس ایک ہی سطح پر ڈالے ہیں، کبھی ایک عکس غالب آتا ہے کبھی دوسرا زور آور ہوجاتا ہے۔

مسافر کی ہم سفر نے ایک دن اسے کہا کہ وہ دیوانگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مسافر کو اس کا علم تھا مگر اسے یہ بھی یقین تھا کہ یہ تلاش کا سفر ہے، یہ زمین، آسمان اور کائنات سے نکل بھاگنے کا سفر نہیں، یہ تلاش کا سفر ہے۔ خدا پر اعتماد نہ رکھتے ہوئے بھی یہ بدست و گریباں ہونے کا منظر نہیں بلکہ صحرا میں بھٹکے مسافر کے بے یقینی کے سفر میں کہیں چھپی ایک آس تھی کہ کہیں سے سوچ کے آسمان پر وہ ستارہ چمکے گا جو منزل کی جانب رہنمائی کرے گا۔

میں نہیں مانتا، میں قصے کہانیوں کو نہیں مانتا، میں ماتھا ٹیکنے کو تیار نہیں، میں ناراض بچہ ہوں تو نے مجھے کیوں صحرا میں بھٹکا دیا۔ مجھے کیوں بھٹکایا ہے، اب میں تجھ سے راہ نہیں پوچھتا، اب تو خود بتا تو بتا، ورنہ مجھے ڈوبتا دیکھ۔

مسافر نے کچھ ماہ قبل اپنے جوان سال چھوٹے بھائی کو سپرد خاک کیا تھا۔ اس کے بعد کے منظر عجب تھے، انسانی اقدار کی بلندی اور کمینگی سب سامنے آئے۔

لاہور سے کراچی جاتی فلائیٹ میں ساتھ بیٹھے اجنبی نے اس کی آنکھوں میں چھپے آنسوؤں کو دیکھ کر پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو۔ مسافر نے کہا کہ اگلے سفر پر چلے جانے والے ایک مسافر کا سامان لینے جا رہا ہوں کہ جانے والے رہنے والوں کے لیے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ اجنبی نے مسافر کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کہنے لگا کہ بات شاید سادہ ہو، میں تمہیں اور اس جانے والے کو کیا دے سکتا ہوں بس ایک چھوٹی سے نذر ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں سے پیغمبر کی مدح میں دن رات درود پڑھتا رہا ہوں۔ آج اس جانے والے کی نذر کرتا ہوں کہ ایک شہید کو دینے کے لیے اپنے پاس کچھ اور نہیں پاتا۔ وہ اجنبی آج بھی مسافر کے لیے اجنبی ہی ہے، اس کی شکل، قد کاٹھ کچھ بھی یاد نہیں بس یاد ہے تو اس ہاتھ کا لمس اور غم میں شراکت یاد ہے۔

دوسری طرف ایک ایر مارشل اور اس کے ماتحت گروپ کیپٹن کی کمینگی بھی یاد ہے۔ ایر مارشل کا رینک بڑا تھا اور سوچ چھوٹی تھی۔ مسافر ان دنوں محکماتی مشکلات کا شکار تھا۔ وہ بیرون ملک پڑھنے گیا تھا تو وقت پر واپس نہ آیا تھا۔ وقت پر واپس اس وجہ سے نہ آیا تھا کہ تحقیق کے معاملات وقت کی قید میں آنا پسند نہیں کرتے۔ محکمے نے کچھ خرچ نہ کیا تھا۔ ملکی سطح پر مقابلے کے بعد مسافر کو سائنس کی منسٹری نے اتنا سکالرشپ دیا تھا کہ بیرون ملک صرف سانس کا معاملہ چلتا رہے۔

محکمہ نے چھٹی دی تھی، کچھ عرصہ مقامی تنخواہ دی۔ بیرون ملک پڑھائی کے ساتھ مزدوری کر کے روٹی اور رہائش کے خرچ اٹھائے تھے۔ کبھی پرنٹنگ مشین کے سامنے کھڑے آٹھ آٹھ گھنٹوں کی شفٹ میں کام کیا۔ اشتہاروں کا ڈھیر مشین کے ایک طرف سے نکلتا تھا اور ایک تعداد کے بعد ان کو اکٹھا باندھ کر ایک طرف سنبھالنا ہوتا تھا۔ وزن ہوتا مگر جوان جسم یہ وزن آسانی سے اٹھا لیتا۔ کام مشکل نہ تھا مگر گھنٹوں یہ کام کرنا دماغ اور جسم کو تھکا دیتا تھا۔

ایسا تھکا دیتا کہ اشتہار پر پرنٹ ہوتی نیم برہنہ ماڈلوں کی تصاویر بھی اچاٹ طبیعیت میں کچھ تبدیلی نہ لاتیں۔ مزدور گھڑی دیکھ کر شفٹ ختم کرنے کے انتظار میں ہوتا۔ کام قسمت والوں کو ملتا تھا اور پرنٹنگ پریس پر صبح کی شفٹ پر پہنچنے کے لیے مسافر منفی درجہ حرارت میں جب نکلتا تھا تو سورج بھی ابھی آرام کر رہا ہوتا تھا۔ یونیورسٹی شہر سے باہر تھی اور مسافر کا ہوسٹل یونیورسٹی کے پاس واقع درختوں کے ذخیرے کے ساتھ تھا۔

برف سے اٹے جنگل سے گزر کر مسافر بس سٹاپ پر پہنچتا تھا کہ دن کی پہلی بس لے کر سفر شروع کر سکے۔ بس جس کا ڈرائیور اور وہ اپنے آپ کو ایک تعلق میں محسوس کرتے تھے کہ قادر مطلق کے جہاں میں بندہ مزدور کے اوقات زمان و مکاں سے بالاتر تلخ ہیں۔ وہ سرد صبح جو اجالے میں ابھی نہ بدلی ہوتی، برف زمین کو سفیدی کی شکل میں ڈھانپتی، درختوں کے سبز پتوں پر برف روئی کے گالوں کی مانند بکھری ہوتی، اور درختوں کے درمیان بل کھاتی اندھیری سڑک برف سے سفید ہوتی۔

ساڑھے چار بجے دن کی پہلی بس جب اس پر چلے گی تو اپنے پہیوں کی سیاہی اور وزن سے سڑک پر لکیریں ڈالے گی، وہ لکیریں جو کچھ دیر میں مزید گرتی برف سے مٹ جائیں گی، مگر وقت کی لکیریں مزدوروں پر اپنے پکے نشان ڈال جائیں گی۔ سردیوں کی برفیلی صبح کا رنگ تاریکی اور سفیدی کا امتزاج رکھتا ہے جیسے مزدور کو کچھ اطمینان کہ مزدوری ہے کہ کچھ رقم پائے گا، مگر افسردگی بھی کہ کرایہ اور خرچ کے بعد رقم اتنی نہیں کہ نومولود بیٹی کے لیے سٹور سے غذائیت بھرا دودھ خرید سکے۔

مزدور کے کئی رنگ رہے، ایک زمان و مکان میں وہ فضائیہ کا افسر تھا، ایک اور زمان و مکان میں وہ بدیسی طالب علم اور مزدور تھا، وہ مزدوری کہ جو ایک سفر کا حصہ ٹھہرے گی اور اسے ایک الگ زمان و مکان میں یونیورسٹی کے پروفیسر کے عہدے پر لے جائے گی۔ مگر سیلف میڈ لوگوں کے المیے کے مطابق مزدور نے آشیاں بنانے میں، گلستان سجانے میں عمر کاٹ دی، اپنے حصے کے پھول بانٹ دیے، صبر کے سمندر میں کشتیاں چلا لیں اور محنت کا اجر بھی آخرکار مل گیا مگر آج بھی نومولود بیٹی کے لیے غذائیت بھرا دودھ نہ خرید پانے کا قلق ایک بوجھ کی مانند ساتھ جڑا ہے۔

سڑک کنارے لگے کھمبوں کی ناکافی روشنی میں صبح ساڑھے چار بجے مزدور کے ہمراہ ایک طالب علم لڑکی ہوتی۔ پھندنے والی گرم اونی ٹوپی، گرم جیکٹ، گلے پر لپٹے لمبے اونی مفلر، جینز اور نیچے لمبے جوتے پہنے اس کی سفید ناک کا سرا سرخ ہوتا۔ وہ کبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر نہ مسکرائے، صرف ملتے ہوئے ایک دوسرے کو صبح بخیر کہتے۔ منفی پانچ کی سرد صبح ابھی خیریت کی جانب جاگ رہی ہوتی، اور دو مزدور ایک الگ زمان و مکان میں جنس کی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنی زندگی کے کھیت میں ہل چلانے نکل رہے ہوتے کہ آگے فصل گل کھلے گی۔ صبح بڑی سرد تھی مگر انہیں یقین تھا کہ ان کے صحن میں بھی سورج نکلے گا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر کبھی نہیں مسکرائے، وہ آنے والی صبح کی خیریت کے طالب تھے۔

ہر صبح جب وہ لڑکی نظر آتی تو مزدور سوچتا کیا مملکت خداداد میں یہ ہو سکتا ہے کہ ایسے موسم، ایسے ویرانے، ایسی تنہائی، ایسے وقت میں کوئی لڑکی تن تنہا بس سٹاپ پر کھڑی ہو؟

مزدوری کی طلب گار بچیاں تو ہر جگہ پر ہیں کہ اپنے گھر، اپنے ماں باپ کا بازو بنیں، بوجھ اٹھا لیں مگر ان کو لوٹنے کے طالب جابجا ہیں۔ جو ذمہ دار ہیں کہ انہیں محفوظ ماحول فراہم کریں، وہ خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت ہے مگر دنیا ماؤں اور ہونے والی ماؤں کے لیے مملکت پاک میں دوزخ کی صورت ہے۔

زندگی بھر جلی جہنم میں
جس کے پاؤں کے نیچے تھی جنت

بس ریلوے اسٹیشن لے جاتی تھی، وہاں سے لوکل ٹرین لینا ہوتی تھی جو قریبی شہر لے کر جاتی تھی۔ دوسرے شہر کے ریلوے اسٹیشن سے دوبارہ بس لینا ہوتی تھی جو پرنٹنگ پریس لے کر جاتی تھی۔ مزدور زیادہ تر طالب علم لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔ انہیں میں وہ مراکشی بربر لڑکی تھی جو طالب علم مزدوروں کی منظور نظر تھی۔ اس کی رنگت صاف، قد لمبا، غلافی آنکھیں اور مزاج اکھڑ تھا کہ خود کما کر کھانے والے دوسروں کی باتیں نہیں سنتے۔ وہ بربر تھی اور مسافر نے انگریزی میں بار برزم اور اردو میں بربریت کے الفاظ سنے تھے۔

اس سے مل کر اور بات کر کے مسافر کو پتہ لگا کہ بیانیہ کیسے الفاظ کا روپ دھار لیتا ہے، بے جان لفظوں میں کیسے مرضی کی روح پھونک دی جاتی ہے۔ وہ الفاظ جن کے ورد سے پھر ایک الگ دنیا بنائی جاتی ہے۔ دنیا جس کے خواب و خیال بھی اس بیانیہ کے تابع ہوتے ہیں۔ جب خواب و خیال کسی بیانیہ کے تابع ہوجائیں تو پھر فرد بھی تابعدار ہوجاتا ہے۔ تابعدار سے کوئی بھی خدمت کروا لیں، اپنے کندھے دبوانے سے لے کر بیانیہ سے الگ سوچنے والے کی گردن اڑانے تک سب کام کروایا جاسکتا ہے۔

ایک دن مزدور پرنٹنگ پریس نہ پہنچ پایا، پہنچنا مزدور کے بس میں نہ تھا۔ وہ سفر پر دوسرے شہر گیا تھا۔ واپسی کے لیے اسٹیشن پر پہنچا تو ٹرین نکل چکی تھی۔ مزدور اس سے اگلے دن پرنٹنگ پریس پہنچا اور مشین پر کھڑا ہی ہوا تھا کہ سپروائزر عورت نے بلایا۔ اس دن تک کا حساب کیا اور کہا کہ نکلو یہاں سے، اب آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مزدور اب برطرف تھا اور اس کی ضرورتیں اسے اطراف دکھا رہی تھیں کہ اگلی مزدوری کہاں پاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں کی مجبوریوں کو نہیں دیکھتا، ان کی مجبوریوں کو سمجھتا ہے اور پھر اس سمجھ کو منافع کی مقدار بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

مزدور نے اگلی مزدوری گھوڑوں کی خوراک بنانے کے کارخانے میں کی۔ صبح چھ بجے شفٹ شروع ہوتی تھی۔ ماحول میں دھول اور بو ہوتی۔ کارخانے جا کر مزدور کپڑے بدلتے اور مشینوں پر جا کھڑے ہو جاتے۔ ایک جانب مشین میں سویا بین، کنولا، چنے، مٹر کی طرح کی اجناس ڈالی جاتیں اور دوسری جانب کیلشیم، فاسفیٹ اور دوسرے کیمیکل ڈالے جاتے۔ مشین میں مختلف درجہ حرارت کی مدد سے ان کو ملا لیا جاتا اور آخر میں سانچے کی مدد سے ہاتھ کی لمبی انگلی کے ناپ کی بھورے رنگ کی ڈلیاں ایک چوکور راہ سے دھڑا دھڑ نکلتیں۔

مزدور بوری اس راہ کے آگے لگا کر بھرتا۔ چوکنا ہونا لازمی تھا، ڈلیاں زمین پر نہیں گرنی چاہییں۔ فضا گرد سے اٹی ہوتی، بو دار گرد سے بال اور چہرہ بھی بھورے ہو جاتے۔ ہمراہی طالب علم مذاق میں مزدور کو براون صاحب کہتے۔ انہیں علم نہ تھا کہ مزدور کے دیس میں برآون صاحب مزدور نہیں ہوتے بلکہ آقا ہوتے ہیں، وہ آقا جن کی وجہ سے ہر جانب دھول بکھری ہے۔

آدھے گھنٹے کے وقفہ خوراک میں گھوڑوں کے خوراک کے کارخانے میں کام کرتے انسانی گھوڑے اپنے بیگوں سے کھانا اور جوس کا ڈبہ نکالتے۔ ٹھنڈے سینڈوچ جو اس ڈبل روٹی کے بنے ہوتے جو بڑے سٹوروں پر سستی ترین ہوتی۔ جوس کا ڈبہ جو ایکسپائر ہونے والا ہوتا کہ سٹور ایسے جوس سستے بیچتے تھے۔

شفٹ ختم ہوتی تو مزدور کو نقد رقم ادا کر دی جاتی۔ اس کے بدلے ایک کاغذ پر وصولی کے دستخط لیے جاتے۔ وہ کاغذ جس پر رقم کا اندراج نہ ہوتا تھا کہ مزدوری دینے والے اور مزدوری لینے والے کی سطح کا فرق بعد میں اس کاغذ پر درج ہو گا۔ مزدور کو علم تھا کہ بھری جانی والی رقم دی جانے والی رقم سے فرق ہوگی، مگر اسے یہ بھی علم تھا کہ اپنے حالات کا علم اسے اس علم کے بیان سے روکتا ہے۔ علم کبھی بیان چاہتا ہے کبھی خاموشی کا خواہاں ہے۔

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینئرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینئرنگ میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے۔ آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں، اس بنا پر کہانیوں کی ایک کتاب "اوراقِ منتشر" کے نام سے شائع کی ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی لیفٹیننٹ ضرار شہید کے نام پر قائم ضرار شہید ہسپتال، برکی روڈ لاہور کے ذریعے سے فلاحی کاموں سے وابستہ ہیں۔

atif-mansoor has 80 posts and counting.See all posts by atif-mansoor

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments