مذہب، سائنس اور انسانی نفسیات


عارف عبدالمتین

باباجی نے جواب دیا کہ بیٹا! کافی عرصے سے بارش نہیں ہو رہی۔ بہت دھوپ ہے اور لوگ دھوپ سے بہت پریشان ہیں تو انہوں نے کوئی مشکل سا لفظ استعمال کیا۔ میرا خیال ہے نماز استسقاء کہا، کہ یہ خاص نماز ہے۔ یہ لوگ دعا مانگیں گے اور بارش ہو گی۔ زندگی میں پہلی بار بابا جی کی بات میرے دل کو نہیں لگی۔ مجھے لگا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگلے دن میں اپنے سائنس کے ٹیچر کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اس طرح کل واقعہ ہوا ہے کہ کئی سو لوگوں نے خاص نماز پڑھ کر بارش کے لیے دعا مانگی ہے اور بابا جی نے کہا ہے کہ دعا سے بارش ہو گی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ سچی بات ہے کہ ان کے لہجے میں تھوڑا تمسخر اور مذاق سا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بابا جی نے تمہیں کیا عجیب بات بتائی ہے! یہ سب دعاؤں سے نہیں ہوتا۔ پھر انہوں نے مجھے سمجھایا کہ قوانین فطرت ہیں اور انہی قوانین فطرت سے بارش ہوتی ہے، دھوپ آتی ہے، طوفان آتے ہیں۔

اس وقت میرے پاس دو موقف تھے، ایک میرے ٹیچر کا اور دوسرا میرے بابا جی کا۔ اس وقت میری عمر کوئی گیارہ بارہ برس تھی۔ میں بارش کا انتظار کرتا رہا۔ ایک دن۔ دو دن۔ چار دن۔ بیس دن۔ گزر گئے لیکن بارش نہیں ہوئی۔ مجھے پھر بابا جی نظر آ گئے۔ میں بابا جی کے پاس گیا اور کہا کہ بارش تو نہیں ہوئی۔ تو انہوں نے خاص انداز سے سر ہلایا اور کہا کہ جو لوگ نماز میں شریک تھے وہ کوئی اچھے مسلمان نہیں تھے۔ جو لوگ نیک مسلمان ہیں ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ پھر میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ اگر اللہ میاں مہربان ہے، ستر ماؤں کی طرح ہے تو اسے فکر نہیں کرنی چاہیے کہ بچے نیک ہیں یا گنہگار، اچھے ہیں یا برے اس کو تو بارش کرنی چاہیے۔

یہ ایک بچے کا دماغ میں آپ سے شیئر کر رہا ہوں جس میں ایک طرف دعاؤں ’معجزوں اور کرامات کا تصور تھا اور دوسری طرف قوانین فطرت اور سائنس تھی۔ یہ آغاز تھا۔ سائنس اور مذہب کے حوالے سے میری سوچ کا۔ یہ بچگانہ باتیں ہیں مگر آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں کیوں کہ آپ میرے بچپن کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہاں سے میرے اندر سچ کو معلوم کرنے کا تجسس پیدا ہوا۔ میں نے جاننا چاہا کہ حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک موضوعی معاملہ ہے یا معروضی؟

IS REALITY A SUBJECTIVE THING OR OBJECTIVE؟ زندگی کے اس دور میں اس طرح کی سوچ میرے ذہن میں پیدا ہوئی۔

سہیل تاج: مشاہدے میں آتا ہے کہ آپ سچ بولتے ہیں اور جو سوچتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں۔ ایسے خیالات کو اگر پاکستان میں کھل کر پیش کیا جائے تو لوگ آپ کو گمراہ تصور کرتے ہیں۔ کیا آپ کو ان خیالات کے اظہار میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا؟

ڈاکٹر خالد سہیل: اس حوالے سے دو شخصیات ہیں جنہوں نے مجھے نوجوانی میں انسپائر کیا۔ سعادت حسن منٹو اور عارف عبدالمتین۔ سعادت حسن منٹو کو میں نے ہائی سکول کے دوران پڑھنا شروع کیا اور ان کے افسانے میری نظر سے گزرے۔ ان کے افسانے تو اپنی جگہ مگر ان کا جو مزاج اور شخصیت تھی اس نے بھی مجھے متاثر کیا۔ مجھے یہ لگا کہ سعادت حسن منٹو نے ایک منافق ماحول کو چیلنج کیا ہے۔ میں نے پڑھا، منٹو لکھتے ہیں کہ۔ اگر میں شراب پیتا ہوں تو منہ میں الائچی نہیں ڈالتا کہ لوگوں کو شراب کی بو نہ جائے اور اگر میں ویشیا کے پاس ریڈ لائٹ ایریا میں جاتا ہوں تو میں مفلر لپیٹ کر نہیں جاتا کہ لوگوں سے چھپ کر جانا مجھے پسند نہیں۔

میرے والد اور چچا سعادت حسن منٹو کا اس لیے ذکر کرتے تھے کہ وہ امرتسر میں اسی گلی میں رہتے تھے۔ میں نے یہ بھی سنا کہ ایک زمانے میں منٹو اپنے علاقے کے بدمعاش بھی مشہور تھے۔ مطلب کہ وہ ایک دبنگ قسم کی چیز تھے۔

دوسری شخصیت میرے چچا جان کی تھی جو لاہور میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ جب میرے چچا جان، عارف عبدالمتین ہمیں لاہور سے پشاور ملنے آئے۔ تو انہیں میری والدہ نے کہا کہ یہ جو آپ کا بھتیجا ہے، یہ آپ کی شاعری پڑھتا ہے اور افسانے اور مضامین لکھتا ہے۔ میرے چچا کی شخصیت میں بڑی شفقت تھی۔ پشاور صدر میں ایک گرینز ہوٹل ہے، مجھے وہ وہاں لے گئے۔ اکیلے۔ میں ٹین ایجر تھا اور میڈیکل سکول میں تھا۔

مجھ سے انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی سوچ اپنی فکر اور اپنے فلسفے کے بارے میں بتاؤ۔ میں نے کہا کہ مذہب میں مجھے بہت دلچسپی تھی اور میں عربی کا ایک قرآن لے آیا تھا۔ عربی مجھے آتی نہیں تھی تو پھر میں تراجم کی کتابیں لے آیا۔ میں نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، غلام احمد پرویز، مرزا غلام احمد، ابوالکلام آزاد اور علامہ اقبال کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ میں کئی سالوں تک مسلسل قرآن کے تراجم و تفاسیر پڑھتا رہا۔ میں نے اپنے چچا جان سے کہا۔ وہ پہلے شخص تھے جن سے میں نے کہا کہ میں نے یہ سب پڑھا ہے اور دیگر مذاہب کی روایات کو بھی پڑھا ہے۔ اب اپنے مطالعے اور تجزیے کے بعد میں مذہب سے دور ہٹ گیا ہوں اور میں نے خدا کو خدا حافظ کہہ دیا ہے۔

میرا خیال تھا وہ کہیں گے بیٹا یہ دور ایسا ہے، سب اس سے گزرتے ہیں، تم واپس اسلام کی طرف آ جاؤ گے، تمہیں مذہب کے حق ہونے کا پتہ چل جائے گا، یہ تو نوجوانی کا ایک باغی دور ہے۔ لیکن انہوں نے مجھے یہ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا۔ بیٹا۔ میں تمہارا چچا ہوں۔ اور میرے ایک چچا ہیں۔ وہ کہنے لگے تمہارے دادا کے جو بھائی تھے وہ ساٹھ سال کی عمر میں دہریہ ہوئے تھے۔ میں چالیس سال کی عمر میں دہریہ ہوا تھا۔ تم نے بیس سال کی عمر میں ہی یہ راستہ اختیار کر لیا ہے۔ میں بڑا حیران ہوا۔ پھر انہوں نے مجھے جو ایک نئی سوچ دی ایک نیا تصور دیا جس پر بعد میں نے ایک کتاب بھی لکھی۔

وہ کہنے لگے ہر قوم و سماج میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔

پہلا گروہ۔ روایتی اکثریت کا ہے۔ یہ لوگ روایت کی شاہراہ پر چلتے رہتے ہیں۔ اس راہ پر ہی ان کو سکون ملتا ہے۔

دوسرا گروہ۔ تخلیقی اقلیت کا ہے۔ یہ لوگ روایت کی شاہراہ چھوڑ کر اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں۔ سہیل بیٹا! تم من کی پگڈنڈی پر چلنے والے ہو لیکن میں تمہیں ایک مشورہ دیتا ہوں اور وہ یہ ہے۔ کہ یہ پشاور ہے، یہاں پٹھان، پختون بستے ہیں اور یہاں کا سماج بہت روایتی ہے۔ اس لیے تم یہاں خاموش رہو۔ ابھی یہ باتیں مجھ سے کر لی ہیں لیکن اور کسی سے مت کہو۔ جب میڈیکل کالج کی تعلیم مکمل کر لو، تو پھر کسی مغربی سیکولر ملک چلے جانا۔ ناروے، ڈنمارک، آسٹریلیا یا کینیڈا۔ وہاں جاؤ گے تو ان خیالات کا کھل کر اظہار کر سکو گے۔ یہاں تم جیل چلے جاؤ گے یا مار دیے جاؤ گے۔ یا کوئی فتویٰ دے دے گا۔ میں نے ان کی رائے یا مشورے پر عمل کیا اور میں پاکستان میں خاموش رہا۔ میرے دو چار دوست تھے اور ایک کی تو میں تلاش کر رہا ہوں۔ ان کا نام ڈاکٹر افتخار بنگش تھا۔ وہ مجھے غلام احمد پرویز کی کتابیں دیا کرتے تھے۔ ان ہی دنوں میں نے ان کی کتابیں۔ معراج انسانیت۔ طاہرہ کے نام خطوط۔ اور سلیم کے نام خطوط۔ پڑھیں لیکن میں نے اپنے خیالات اور نظریات کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔

جب میں پاکستان سے نکل آیا اور ایران سے ہوتے ہوئے کینیڈا پہنچ گیا، تب میں نے اپنے نظریات کا برملا اظہار کیا۔ اس وقت میں چوبیس، پچیس سال کا تھا۔

سہیل تاج: آپ نے تصوف کو بھی سمجھا اور اس موضوع پر کتاب بھی لکھی۔ آپ نے تصوف کو کیسا پایا اور اس کا مذہب سے کیسے موازنہ کیا؟

ڈاکٹر خالد سہیل:آپ جانتے ہیں کہ میں عالمی ادب نفسیات اور فلسفے کا طالب علم ہوں۔ پچھلے تین ہزار سال میں جو روایات انسانوں میں مقبول ہوئیں انہیں میں چار حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail