مذہب، سائنس اور انسانی نفسیات


hermann hesse

انسانی تجربہ بڑا ہے جبکہ زبان چھوٹی ہے۔ بعض اوقات کچھ تجربات کا اظہار خاموشی بہتر کرتی ہے۔ آپ کسی کو گلے لگاتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے۔ یا آپ کا آنسو ٹپکتا ہے، وہ گلے لگانا یا ایک آنسو دو صفحے کے مضمون سے بہتر ہوتا ہے۔ یہ راز ہیں۔ ابراہم ماسلو نے ان تجربات کا نفسیاتی تجزیہ کیا اور اپنی کتابوں میں بیان کیا۔ ان کے تجزیے سے مذہبی اور غیر مذہبی دونوں انسان استفادہ کر سکتے ہیں۔

ایک انسانی تجربے کی کئی تعبیریں کئی تفسیریں ہو سکتی ہیں۔ میں چونکہ سیکولر آدمی ہوں تو میں یہ کہتا ہوں کہ اس تجربے کی ایک مذہبی تشریح ہے، ایک روحانی ہے، ایک سائنسی ہے، ایک سیکولر ہے۔ اس طرح کئی روایتیں ہیں اور ان کی کئی ایک تشریحات بھی ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ایک صحیح اور دوسری غلط ہے۔ میری نگاہ میں سب صحیح ہیں۔

میں نے جب پہلی بار سدھارتھ کتاب پڑھی تو نوجوان تھا، تب میں کچھ اور سمجھا۔ وہی کتاب بیس سال بعد پڑھی تو کچھ اور سمجھا۔ میں نے کہا ہرمن ہیسے نے کمال کر دیا ہے۔ انہیں نوبل پرائز بھی ملا۔ مگر آپ حیران ہوں گے۔ انہوں نے آدھی کتاب لکھی۔ جب سدھارتھ چلا جاتا ہے جنگل میں، اس کو نروان حاصل ہو جاتا ہے۔ ہرمن ہیس نے آدھی کتاب لکھی تھی اب انہوں نے سدھارتھ کو واپس دنیا میں لانا تھا۔ ہرمن ہیس وہ نہیں کر سکے ان کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس گئے، اس نے علاج کیا۔ پھر اس نے کہا کہ آپ تو بہت قابل ہیں میں آپ کا علاج نہیں کر سکتا تو آپ میرے استاد کے پاس جائیں۔ وہ استاد کارل یونگ تھے۔ یونگ روحانیت میں بھی اور تخلیقی صلاحیتوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اس لیے انہوں نے نفسیاتی علاج سے انہیں بہتر کیا۔ اس کے بعد ہرمن ہیس نے اور کتابیں لکھیں۔

روحانیت، پاگل پن اور تخلیق۔ CREATIVITY۔ INSANITY۔ SPIRITUALITYمیں سمجھتا ہوں کہ ان تینوں کا دائیں دماغ یعنی لاشعور سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہم تخلیق کو روحانیت کے بغیر، روحانیت کو پاگل پن کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ میرے والد صاحب کو جو تجربہ ہوا، وہی امام غزالی کو بھی ہوا، کارل یونگ کو بھی ہوا، لیو ٹالسٹائی کو بھی ہوا۔ وہ سب زندگی میں ایک بہت اعلیٰ مقام پر تھے پھر ان کا بریک ڈاؤن ہوا۔

پھر ان کا ایک میٹا مارفیسس (کایا کلپ) ہوا اور پھر وہ روحانی روایت سے جڑے۔ میں اپنے الفاظ میں کہتا ہوں کہ پہلے بریک ڈاؤن ہوتا ہے پھر بریک تھرو ہوتا ہے۔ یہ جو بریک ڈاؤن سے بریک تھرو کا سفر ہے یہ بہت یہ پیچیدہ اور گنجلک ہے۔ FROM BREAKDOWN TO BREAKTHROUGH اس کو میں بھی ابھی تک پوری طرح سے سمجھ نہیں پایا۔ اسی لیے میں ماہر نفسیات بھی بن گیاکہ میرے والد صاحب جو پہلے بیمار ہوئے اور پھر ٹھیک ہوئے اور اس کے بعد وہ ساری عمر ٹھیک رہے، اس کے بعد ان کو کبھی نروس بریک ڈاؤن نہیں ہوا۔ میرے لیے یہ ایک مسٹری تھی۔ میں آج بھی اس معاملے پر غور کرتا رہتا ہوں۔ باقی جو بزرگ ہیں۔ میں ان کی سوانح عمریاں پڑھتا ہوں تا کہ میں اس کو سمجھوں۔ میں تو طالب علم ہوں تھوڑا بہت جانتا ہوں۔ یہ تو بہت بڑا سمندر ہے۔

توہی ناداں چند کلیوں پرقناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا

یہ تو سمندر ہے اور ہمارے پاس کچھ قطرے ہیں لیکن یہ قطرے بھی غنیمت ہیں۔ یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے کہ کچھ کتابیں ہیں اور ہم ان سے سیکھ رہے ہیں۔

سہیل تاج: شاید یہ مسئلہ کینیڈا میں نہ ہو مگر ہمارے یہاں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ لوگ جنس سے متعلقہ احساسات کو سمجھ نہیں پاتے۔ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں لگتا ہے یہ گناہ ہے۔ اس گتھی کو سلجھانے میں لوگ وہ وقت ضائع کر دیتے ہیں جب انہیں اپنی تخلیقی صلاحیت کو سمجھنا اور بروئے کار لانا تھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل: میں سمجھتا ہوں کہ ایک بچے کا نوجوان ہونا۔ جب وہ چودہ سے سولہ سال کا ہوتا ہے تو اس کے جسم میں کچھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ بچیوں کو حیض آ گیا اور پستان بڑھنے لگے۔ مرد جو ہیں ان کی داڑھی آ گئی، ان کو احتلام ہو گیا، یہ ایک قدرتی تبدیلی ہے۔ بدقسمتی سے یہ صرف پاکستان کی بات نہیں ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آج سے سو سال پہلے مغرب میں بھی جو کیتھولک چرچ تھی، اس نے بھی جنس کو گناہ کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔

اگر آپ کو جنسی یا شہوانی جذبات ہیں یا خیالات آتے ہیں تو بے چارہ بچہ جو ہے اب وہ احساس گناہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے کہ اب میں ناپاک ہو گیا ہوں۔ اب مجھے نہانا ہے۔ اگر میں نہاؤں گا تو میں کسی سے بات کر سکوں گا۔ میں نے کئی بچیوں کو دیکھا کہ وہ اتنی پریشان رہتی ہیں۔ وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتیں کیوں کہ ان کو کہا جاتا ہے کہ آپ اب ناپاک ہو گئی ہیں۔

ایک فطری جو چیز ہے، فطری جذبات، فطری خیالات، فطری تبدیلیوں کو جب ہم نے گناہ و ثواب کے ساتھ جوڑ دیا تو ایک بچہ فطری تبدیلیوں کو قبول نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے آپ سے لڑتا ہے۔ جب یہ تضاد پیدا ہوتا ہے تو آپ ایک گھٹن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آج سے سو سال پہلے یورپ کے شہر ویانا میں بھی یہی حال تھا جو آج ہمارے ترقی پذیر ممالک میں ہے۔ یورپ بھی اسی عمل سے گزرا ہے۔ فرائیڈ نے ہمیں یہ بتایا کہ جو نفسیاتی مسائل ہیں یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب آپ شہوانی جذبات کو قبول نہیں کرتے۔ آپ اس کو تسلیم نہیں کرتے اور دباتے چلے جاتے ہیں۔ اس دور میں یہ نفسیاتی مسائل ہسٹیریا کی صورت اختیار کر لیا کرتے تھے اب تو یہ مسئلہ اتنا عام نہیں ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاہیے۔ بچوں کو بتانا چاہیے کہ یہ فطری چیزیں ہیں۔ آپ انہیں تسلیم کریں۔ یہ آپ کا ذاتی فعل ہے۔ آپ زندگی کے فیصلے کرتے ہیں۔ آپ شادی کرتے ہیں، آپ اس کا کسی اور طرح اظہار کرتے ہیں، یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ اسی طرح ہم مشت زنی پر بات نہیں کرتے۔ اگر آپ کو ایسے مواقع حاصل نہیں کہ کوئی جنسی ساتھی آپ کے ساتھ ہو یا آپ کا شوہر یا بیوی آپ کے پاس ہو تو آپ کیسے اپنے جنسی جذبات کا اظہار کریں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری ماں باپ پر بھی ہے، اساتذہ پر بھی ہے، بزرگوں پر بھی ہے۔ ہمیں کچھ کتابیں لکھنی ہیں، بچوں کو ان کی زبان میں بتانا ہے۔ ہم کب تک بہشتی زیور پر انحصار کریں گے۔ میں جب ٹین ایجر تھا تو کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ بہشتی زیور پڑھیں۔ ٹھیک ہے، بہشتی زیور اپنے دور کی کتاب ہو گی، وہ اس دور کے بزرگوں نے مرتب کی ہو گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں ہمیں بہشتی زیور سے تھوڑا آگے جانا ہے اور جدید علوم سے بچوں اور بچیوں کو روشناس کرنا ہے۔

ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا بھی بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ حقیقی مسائل ہیں۔ یہ بات ہم کھل کر نہیں کہتے مگر یہ درست ہے کہ بچوں اور بزرگوں میں تناؤ ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو سیکس کے بارے میں بات چیت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ ہم نے جنس اور رومانس کے فطری مسئلے کو پورنوگرافی اور فحاشی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو جنسی بیماریوں کا شکار ہیں، منشیات کے عادی ہیں۔ ہم نفسیاتی طور پر ان کا علاج کرتے ہیں۔

لیکن ہمیں فطری شہوانی جذبات کو غیر فطری سے جدا کرنا ہے۔ یہ بہت اہم نقطہ ہے اور ہمارے بزرگ یا اساتذہ یا لکھاریوں کو اس مسئلے پر سوچنا ہو گا کیوں کہ ہمارے پاس اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں گالی میں اور نارمل سیکس میں کوئی فرق نہیں رہا۔ ہم جب جنس کی بات کرتے ہیں تو اس میں بے حیائی اور بے غیرتی آ جاتی ہے۔ ہم با عزت طریقے سے جنسی جذبات، جنسی تعلقات پر ابھی تک گفتگو نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے خود بھی کچھ الفاظ مرتب کیے ہیں اور چنے ہیں تاکہ ہم اس پر بات چیت کر سکیں۔ مجھے بعض رائٹرز سے بھی شکایت ہے کہ ہمیں مشکل الفاظ کی ضرورت نہیں ہے، وہ دانشوری جھاڑتے ہیں۔ یہاں پر ہمیں زندگی کے مسائل کو سمجھنا ہے۔ میں ”ہم سب“ پر جو لکھتا ہوں، وہ عام فہم زبان ہوتی ہے تا کہ آٹھویں یا دسویں جماعت کا طالب علم بھی اسے سمجھ سکے۔ یہ میرا درویشانہ اور طالب علمانہ نقطہ نظر ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail