مذہب، سائنس اور انسانی نفسیات


MURRAY BOWEN

مغرب میں ایک روایت تھی کہ جو مسیحی تھے وہ چرچ سروس کے بعد اتوار کے دن ایک کھانا ایک ساتھ کھاتے تھے۔ یہ لوگ نانی کے گھر ایک ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی خاندان کا مل کر ہفتے میں ایک بار کھانا کھانا اور آدھا گھنٹہ گفتگو کرنا، بچوں سے پوچھنا، بچوں سے دوستی کرنا اور بچوں کے مسائل کو سننا۔ بچوں کے مسائل سنجیدہ نوعیت کے ہیں، جنہیں سننا بہت ضروری ہے۔

مجھے معلوم نہیں کہ اب کیا حالات ہیں مگر جن دنوں میں پشاور میں تھا ان دنوں جوان بچیوں کو حیض آنا شروع ہوتا تھا تو انہیں کوئی نہیں بتاتا تھا کہ حیض آنا کیا ہے۔ تم اب بالغ ہو گئی ہو۔ نوجوان بچوں کو احتلام کا مسئلہ ہو رہا ہے اور ان کو کوئی یہ سمجھانے والا نہیں کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو دوست بنا کر ان کی تربیت کرنا ہو گی۔ بچوں کو یہ کہنا کہ تم گستاخ ہو، بے ادب ہو یا تم ہماری روایت کا احترام نہیں کرتے درست نہیں۔ جب تک ہم اپنے بچوں کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے وہ ہمارا احترام کرنا نہیں کریں گے۔

میں آپ سے ممتاز مفتی کی بات کر رہا تھا۔ انہوں نے بھی مجھ سے یہی کہا کہ بزرگوں اور بچوں کے درمیان عقیدت رکھنے کی بجائے محبت اور دوستی کرنا بہتر ہے۔

سہیل تاج صاحب۔ ان سوالوں کا مختصر جواب دینا مشکل ہے۔ میرا مشورہ کہ آپ کے دوست فیس بک پر GREEN ZONE COMMUNITY کے ممبر بن جائیں اور ہمارے گرین زون سیمینار میں شریک ہوں اور انسانی نفسیات کے راز جانیں۔ شکریہ

سہیل تاج: ہمارے یہاں اکثر سوال وجود کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ ہمیں کس نے بنایا اور ارتقا کیسے ممکن ہوا؟ کیا آپ کو کبھی تخلیق کار کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے؟

ڈاکٹر خالد سہیل:یہ جو سوچ ہے کہ جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اس کا کوئی خالق ہونا چاہیے۔ یہ مادی چیزوں کا تصور ہے۔ مثال کے طور پر ہم کمپیوٹر دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں یہ کس نے بنایا ہوگا۔ گھڑی دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کسی نے بنائی ہو گی۔ لوگوں کے ذہن میں یہ تصور موجود ہے کہ جو چیز موجود ہے وہ کسی کی بنائی ہوئی ہے۔ اب جب آپ فلسفے سے اس سوال کا جواب لیتے ہیں تو برٹرینڈ رسل نے اس بات کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کو خدا نے بنایا تو پھر خدا کو کس نے بنایا؟ اب یہ سوال آگے بڑھتا ہے۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ خدا کو کسی نے نہیں بنایا۔ خدا خود ہی آ گیا بلکہ خدا کا مطلب ہی یہ ہے۔ خود آ۔ وہ خود ہی آ گیا۔ وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر خدا خود آ سکتا ہے تو یہ کائنات کیوں خود نہیں آ سکتی؟

اگر ہم سٹیفن ہاکنگ کو پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب دی گرینڈ ڈیزائن THE GRAND DESIGNمیں کہا ہے کہ ہم uni۔ verse میں نہیں multi۔ verse میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں لاکھوں کائناتیں ہیں۔

اب بیسویں صدی میں ہمیں پتہ چلا کہ ہماری کائنات پھیل رہی ہے۔ اگر یہ پھیل رہی ہے تو ایک مخصوص رفتار سے پھیل رہی ہے۔ یہ ہمیں اس وقت تک پتہ نہیں چلا تھا جب تک HUBBLE کی بہت بڑی ٹیلی سکوپ وجود میں نہیں آئی تھی۔ ٹیکی سکوپ سے ہمیں پتہ چلا کہ یہاں اور بھی کائناتیں ہیں۔ ہماری جو گلیکسی ہے وہ دوسری کہکشاؤں سے جنہیں ہم NEBULAE سمجھتے تھے دور ہٹ رہی ہے کیوں کہ کائنات پھیل رہی ہے۔

ہمیں جب ٹیلی سکوپ سے اس بات کا علم ہوا کہ کائنات پھیل رہی ہے تو سائنسدان اس رفتار کو دیکھتے ہوئے پیچھے کی طرف گئے اور اندازہ لگایا یہ کائنات کب شروع ہوئی ہو گی۔ سائنس دانوں کو اندازہ ہوا کہ تیرہ اعشاریہ سات بلین سال پہلے اس کائنات کا وجود عمل میں آیا۔

ماہر فلکیات سٹیون ہاکنگ نے ہمیں سمجھایا کہ کائناتیں ایک حد تک پھیلتی ہیں پھر وہ سکڑنا شروع ہوتی ہیں۔ اس عمل میں ہو سکتا ہے کئی ہزار لاکھ سال لگ جائیں۔ اسی طرح بلیک ہول کا تصور پیش کیا گیا کہ پھر وہ پوری کائنات بلیک ہول میں جذب ہو جاتی ہے اور غائب ہو جاتی ہے۔ پھر اس بلیک ہول سے ایک نئی کائنات پیدا ہوتی ہے۔ یہ مشکل تصور ہے اور اسے سمجھانا مشکل ہے میں کوشش کر رہا ہوں کہ اسے آسان فہم زبان میں سمجھاؤں۔

لاکھوں کائناتیں ہیں جو بیک وقت پھیل رہی ہیں۔ سکڑ رہی ہیں۔ بلیک ہول میں جا کر ختم ہو رہی ہیں۔ پھر نئی کائناتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ جیسے ہماری زندگی ہے کہ ہم جوان ہوتے ہیں، پھر ہمارے بچے ہوتے ہیں، پھر وہ جوان ہوتے ہیں، پھر ان کے بچے ہوتے ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ خالد سہیل یا سہیل تاج کو کس نے پیدا کیا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری ماں ہے اور یہ ہمارا باپ ہے۔ لیکن اگر ہم سوچیں کہ انسان کو کس نے پیدا کیا تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان نسل در نسل پیدا ہو رہے ہیں۔ انسانوں کی طرح کائناتوں کی بھی پیدائش بھی ہو رہی ہے اور خاتمہ بھی ہو رہا ہے۔ کچھ کائناتیں چھوٹی ہوتی ہیں اور وہ جلدی مر جاتی ہیں۔

پہلے پہل انسانوں کا یہ تصور تھا کہ ایک ہی کائنات ہے اور اس کا ایک ہی خالق ہے اور اس کے ختم ہونے کا بھی ایک معینہ وقت ہے۔ اب سائنس اسے یوں نہیں دیکھتی۔ وہ کہتی ہے کہ یہ کائناتیں نجانے کب سے ہیں اور کب تک رہیں گی۔ عارف عبدالمتین کا شعر ہے

 وقت اک بحر بے پایاں ہے کیسا ازل اور کیسا ابد
وقت کے ناقص پیمانے ہیں ماضی مستقبل اور حال

دوسری جو ارتقا کی بات آپ نے کی۔ اس حوالے سے مجھے ایک معقول جواب یوول ہراری کی کتابوں SAPIENS AND HOMO DEUS میں ملا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پچھلی بیسویں صدی میں سٹیفن ہاکنگ کی سائنسی اور یوول ہراری کی سماجی نفسیات اور ارتقا کی کتابیں علم کو آگے بڑھانے اور نئے خطوط پر سوچنے کی تحریک دیتی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم جتنا جانتے ہیں اس سے زیادہ نہیں جانتے۔ ہم زندگی کے صرف پانچ فیصد راز جانتے ہیں۔ ابھی پچانوے فیصد راز ہم پر منکشف نہیں ہوئے۔ وہ نفسیاتی بھی ہیں، روحانی بھی ہیں، وہ سائنسی بھی ہیں، وہ رشتوں کے بھی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہم ان رازوں کو جاننے کے لیے ایک کشادہ ذہن رکھیں۔ کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ

Human minds are like parachutes, they work only when they are open

ہم اگر اپنے ذہن اور دل کو کھلا رکھیں اور نئی چیزوں کو سیکھنے کے آمادہ رہیں تو ہم سیکھتے جائیں گے۔ مذہبی روایت کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ مذہبی لوگ ماضی کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کے مسائل کا حل ماضی میں کسی بزرگ، کسی فلاسفر، کسی اوتار نے دیا ہے۔ اور وہ جو بھی بزرگ ہیں میں ان کا ہمیشہ احترام سے نام لیتا ہوں۔ ہمارا جو علم ہے وہ اجتماعی ورثہ ہے۔ ہم سب روایتوں کے وارث ہیں۔ بطور انسان کے میں افریقہ کی، یورپ کی، ایشیا کی، مسلمانوں کی سب روایات کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے ڈاکٹر بلند اقبال کے ساتھ مل کر کینیڈا ون پر In search of wisdom کے پینتیس پروگرام پیش کیے جو اب یوٹیوب پر موجود ہیں۔ ان میں ہم نے کنفیوشس سے لے کر سٹیفن ہاکنگ تک تمام روایتوں کی دانائی کی باتیں جمع کی ہیں۔

میں واپس روحانی روایت کی طرف آتا ہوں۔ سائنسدانوں کی تحقیق سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ انسان کے دماغ کے دو حصے ہیں۔ یہ بات ایک زمانے میں ہم نہیں جانتے تھے۔ ماہر نفسیات، نیورالوجسٹ بھی نہیں جانتے تھے کہ ہمارا ایک دماغ نہیں ہے، دو دماغ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ رائٹ برین اور لفٹ برین کو جاننا ایک بہت بڑا راز تھا۔ لفٹ برین عقل اور منطق سے کام لیتا ہے جبکہ CREATIVITY، SPIRITUALITY AND INSANITY روحانیت، فنون لطیفہ اور پاگل پن کا دائیں دماغ سے تعلق ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail