مذہب، سائنس اور انسانی نفسیات


mumtaz mufti

سہیل تاج: آپ کی ممتاز مفتی سے ایک ملاقات ہوئی۔ اگر ہمارے دوستوں کو اس ملاقات کا احوال بتا سکیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل:میں اسلام آباد آیا تھا۔ مجھے انور زاہدی نے بلایا تھا۔ میں ان کے پاس رکا۔ انہوں نے منشا یاد کو فون کیا کہ ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا سے آئے ہوئے ہیں۔ منشا یاد نے بڑی محبت سے دوستوں کو بلایا۔ یہ جو دوست اور بزرگ تھے ان میں مفتی صاحب بھی تھے۔ میں ان سے پہلے نہیں ملا تھا۔ ان کا ذکر سنا تھا، ان کی کتابوں کا ذکر سنا تھا، میں دل سے ان کا احترام کرتا تھا۔ وہ نہایت شفقت سے مجھ سے ملے حالانکہ میں شرمیلا واقع ہوا ہوں۔ وہ خود بڑھ کر مجھے ملے۔ وہ مجھے جانتے تھے، میری تخلیقات انہوں نے پڑھی تھیں۔ مجھے بڑے پیار سے اپنے پاس بٹھایا، باتیں کیں، انہوں نے کہا آپ تو ماہر نفسیات ہیں۔

مجھے ان کی دو باتیں اب تک یاد ہیں۔ میں انہیں کہتا ہوں Words of wisdom ان کی باتیں دانائی کی باتیں تھیں۔ پہلی بات انہوں نے مجھ سے یہ کہی کہ آپ کہانیاں لکھتے ہیں افسانے لکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ بطور ماہر نفسیات مجھے جو تجربات ہوں میں اس علم کو اپنے تخلیق کردہ ادب اور تحریروں میں استعمال کروں۔ انہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا جو کہ ایک قیمتی مشورہ تھا۔

دوسرا انہوں نے مجھ سے کہا کہ بچے اور شاگرد بزرگوں سے عقیدت سے پیش آتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ عقیدت بھی فاصلہ پیدا کرتی ہے۔ اصل رشتہ محبت کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں زمین پر بیٹھ پر پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے ساتھ کھیلنا چاہیے تا کہ وہ ہم سے خوفزدہ نہ ہوں۔ بزرگوں سے خوفزدہ ہونا اچھی بات نہیں۔ یہ بہت دانائی کی بات تھی۔ میں نے اس کو سنا اور سمجھا بلکہ میں اس پر عمل کرتا ہوں۔ میرے بھانجے بھانجیاں میری عزت بھی کرتے ہیں لیکن ہمارا ایک دوستی کا بھی رشتہ ہے۔

میں نوجوانوں سے بڑے پیار محبت اور اپنایت سے ملتا ہوں۔ یہ بات میں نے اور لوگوں سے بھی سنی لیکن مفتی صاحب نے بھی یہ بات کی اس لیے میں انہیں ایک مرد دانا سمجھتا ہوں۔ ان سے ایک مختصر ملاقات تھی مگر وہ ایک قیمتی ملاقات تھی۔ اس لیے جب آپ نے کہا کہ اس فورم کا تعلق مفتی صاحب سے ہے تو میں نے بڑے شوق سے آپ کی دعوت قبول کی۔

سہیل تاج: آپ کے نظریات، عقائد ایک ارتقا کا حصہ ہیں۔ اسی طرح میں نے اپنا ایک نظریہ قائم کیا۔ ہو سکتا ہے ہمیں سننے والوں کی سوچ ہم سے مختلف ہو۔ آپ یہ بتائیں کہ ایک جگہ پر رہتے ہوئے ہم ان تضادات کے ساتھ ایک دوسرے کو کیسے قبول کریں؟

ڈاکٹر خالد سہیل: یہ ایک اہم بات ہے۔ کنفیوشس نے ہمیں جو سنہری اصول GOLDEN RULE دیا، وہ یہ تھا کہ دوسروں سے ویسا سلوک کرو جیسا آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ سلوک کریں۔ اگر میں آپ کی مذہبی یا روحانی رائے کا احترام کرتا ہوں یہ میں آپ پر احسان نہیں کر رہا۔ میں آپ کی رائے کا احترام اس وجہ سے کرتا ہوں کہ آپ بھی میری رائے کا احترام کریں۔ اگر میں آپ کی رائے کا احترام نہیں کروں گا تو آپ میری رائے کا احترام نہیں کریں گے۔

اگر میں آپ کو ذلیل و خوار کروں گا، آپ کو گالیاں دوں گا، آپ پر فتوے لگاؤں گا تو پھر آپ بھی مجھ پر فتوے لگائیں گے۔ میں یہ نہیں چاہوں گا کہ آپ میری رائے پر کوئی فتویٰ لگائیں یا میری تذلیل کریں۔ جب میں نہیں چاہتا کہ کوئی میری ہتک عزت کرے تو مجھے دوسروں کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ بنیادی انسانی رویہ ہے کہ ہر انسان کا اپنا تجربہ اور اپنی سوچ ہے، اپنا ضمیر ہے۔ تصوف کی تعلیم یہ بھی ہے کہ ہر انسان کا اپنا ایک سچ ہے۔ اس کا اپنا ضمیر اور اپنی سوچ ہے۔ وہ اپنے سچ پر چلنے کا حق رکھتا ہے۔ میں ایک سیکولر انسان ہوں لیکن ایسے سیکولر انسان کی عزت نہیں کرتا جو منافقت کا رویہ اپناتا ہے اور دوسروں کی عزت نہیں کرتا۔

اس کے مقابلے میں میرے مذہبی دوست ہیں، میرے روحانی دوست ہیں۔ میرا ان سے نظریاتی اختلاف ضرور ہے لیکن وہ اپنے موقف میں سچے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے موقف کے ساتھ مخلص ہیں۔ میں ان کے عقیدے سے اتفاق نہ بھی کروں مگر میں ان کے اخلاص کا احترام کرتا ہوں کہ وہ مخلص ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ باہمی احترام کسی بھی رشتے، کسی بھی خاندان، کسی بھی معاشرے کی بنیادی کڑی ہے اور اس سچ کی بنیاد انسان دوست کنفیوشس کا سنہری اصول ہے۔ اس اصول کو بعد میں مذاہب نے بھی قبول کیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ مذاہب نے بھی انسان دوستی کے اس اصول کو قبول کیا۔ اگر میں آپ کا احترام نہیں کرتا تو مجھ میں کچھ کمی ہے۔ ہم سب ادب پڑھتے ہیں۔ میں اپنے شاعر ادیب دانشور دوستوں سے کہتا ہوں۔ کہ عالمی ادب سے اگر ہم نے دوسرے انسانوں کا ادب کرنا نہیں سیکھا تو پھر کیا سیکھا۔ دوسرے انسانوں کا ادب ہی انسان دوستی کی بنیاد ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail