“اکیسویں صدی اردو میں فکشن کی صدی ہوگی” گوپی چند نارنگ


تقریری مقابلوں کے ساتھ ساتھ میں پینٹنگ بھی کرتا تھا۔ اور بوائے سکاؤٹس میں بھی حصہ لیتا تھا۔ ویسے درسی پڑھائی میں چھٹی ساتویں تک میں متوسط درجے کا طالب علم تھا۔ جب والد صاحب نہ ہوتے تو بڑے بھائی صاحب میری سرپرستی کرتے تھے۔ ان کا بھی مجھ پر بہت احسان ہے۔ وہ نہ چاہتے تو میں پڑھائی جاری نہ رکھ سکتا۔ بہرحال آٹھویں درجے میں ذمہ داری کا احساس بڑھا۔ میں درسی کتابیں ہی پڑھنے لگا اور کلاس میں اول آنے لگا۔

1946 ء میں میٹرک کے بعد تعلیم کا مسئلہ پیدا ہوا۔ کیونکہ کوئٹہ میں جو کالج تھا وہ فقط ’ایف۔ اے‘ تک تھا۔ والد صاحب کے مشورے سے میں لائلپور سے ہوتا ہوا رشتے داروں کے پاس دہلی چلا آیا۔ دہلی کالج کا نام میں نے سن رکھا تھا۔ سوچا کہ اب میں آزاد ہوں اپنے فیصلے خود کر سکتا ہوں۔ دہلی کالج سے بی۔ اے کروں گا اور اردو کا شوق بھی پورا ہو گا مگر اگلے سال تقسیم ہو گئی۔

سہیل :اس وقت آپ کی عمر کیا تھی؟
نارنگ : سولہ سال۔
سہیل :پھر کیا ہوا؟

نارنگ :والد صاحب تو پاکستان میں ہی رہ گئے۔ لیکن والدہ بہن بھائیوں کو لے کر دہلی چلی آئیں۔ پورے خاندان کا بوجھ میرے کندھوں پر آ پڑا۔ مجبوراً میں نے ملازمت شروع کر دی اور رک رک کر مختلف منزلوں میں بی۔ اے تک کے امتحان پاس کیے۔ مگر میرے خوابوں کی تکمیل کئی برس بعد اس وقت ہوئی جب 1952 ء میں، میں نے دہلی کالج میں ایم۔ اے اردو میں باقاعدہ داخلہ لیا۔

سہیل :نارنگ صاحب! یہ بتائیں کہ آپ جذباتی طور پر والدین میں سے کس کے زیادہ قریب تھے؟ اور آپ کے والدین کی شخصیتیں کیسی تھیں؟

نارنگ : میرے لیے یہ بتانا مشکل ہے۔ والد کی شخصیت زیادہ OVERPOWERING ہوتی ہے۔ جیسے زمین پر خدا ہو۔ لیکن والدہ سے جو لاڈ پیار، محبت اور شفقت ملتی ہے۔ اس کا بدل کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے بہت سے مسائل اور بحرانوں میں پہلی مدد والدہ کی طرف سے آئی۔ ہم چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ دس بچوں میں، اگرچہ ماں کے لیے سب بچے برابر ہوتے ہیں، مجھے ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ والدہ سب سے زیادہ مجھے چاہتی ہیں۔

ہو سکتا ہے یہ میری خوش فہمی ہو یا حماقت ہو۔ لیکن حماقتیں بھی بڑا سہارا بن جاتی ہیں۔ ماں کی حوصلہ افزائی نے، درد مندانہ طبیعت نے اور شفقت نے مجھے بہت کچھ دیا۔ ان سے میں نے نرمی، گداز، دلسوزی، ایثار اور خدمت کو عملاً پایا۔ مجھے نہیں یاد کہ ان میں کبھی خود غرضی دیکھی ہو۔ کسی کو برائی کرتے دیکھتیں تو ٹوک دیا کرتی تھیں۔ ہم جھولیوں میں سب ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کے احترام کی وجہ سے ہمیں بھی خاص پیار ملتا تھا۔

والدہ اور والد صاحب میں ایک عجیب و غریب ہم آہنگی تھی۔ جو آج کل بہت کم نظر آتی ہے۔ بالا دستی تو والد صاحب ہی کو حاصل تھی۔ فیصلے بھی والد صاحب ہی کرتے تھے۔ لیکن چونکہ خاندان دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ والد صاحب پاکستان رہ گئے تھے اور والدہ اور بچے ہندوستان آ گئے تھے۔ اس لیے گھر پورے کا پورا والدہ چلاتی تھیں۔ ان کی شخصیت سے ہمیں بہت کچھ ملا۔

ہماری والدہ ’LIBERALبھی کافی تھیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہندو گھروں میں خواتین گوشت کو ہاتھ نہ لگاتی تھیں۔ قدامت پسندی تھی۔ عورتیں پڑھی لکھی تو ہوتی نہ تھیں۔ ہماری والدہ بھی حرف شناسی کی حد تک پڑھی لکھی تھیں۔ جب گوشت پکایا جاتا تھا تو دیگ مرد خود چڑھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں، جو بہت سے حصوں میں بٹا ہوا تھا جب دیگیں پکتی تھیں، خواہ چچا یا دادا کی طرف پکتی تھیں یا اپنی طرف، والد صاحب پیش پیش ہوتے تھے۔

کیونکہ بلوچستان میں جہاں ان کی رہائش تھی وہاں سبزی ترکاری تو ملتی نہ تھی اور گوشت بھی کئی مہینوں کا سوکھا ہوا ملتا تھا۔ جسے پہاڑی نمک لگا کر محفوظ کیا ہوتا تھاSMOKED MEAT ’‘ کی طرح۔ جس کا سالن پکایا جاتا تھا یا کچی پکی بوٹی بھی کھائی جاتی تھی۔ جس دن گوشت کی دعوت ہوتی تھی عورتیں ناک پر کپڑا رکھ لیتی تھیں۔ لیکن روٹی بڑے دل سے پکاتی تھیں۔ مردوں کو سب آزادی تھی۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ عورتیں پردہ تو نہیں کرتی تھیں لیکن لحاظ اور احترام بہت ہوتا تھا۔ مرد گھر میں آتے تھے تو سامنے سے ہٹ جاتی تھیں یا گھونگھٹ نکال لیتی تھیں۔ سر پر دوپٹہ ہمیشہ رکھتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب مرد باہر کہیں مل کر گپ شپ کرتے تھے تو عورتیں گھر میں مل کر حقہ پیتی تھیں۔ اور حقے کا کش باری باری سب خواتین لگاتی تھیں۔ کیا نوجوان کیا ادھیڑ اور کیا عمر رسیدہ۔ لیکن جیسے ہی کسی مرد کے آنے کی آہٹ ہوتی تو حقہ چھپا لیا جاتا تھا۔

رہی والد صاحب کی شخصیت کی بات تو کچھ اشارے تو میں کر چکا ہوں۔ مذاہب کا احترام کرنا میں نے والد صاحب سے سیکھا۔ وہ جتنا ہندو مذہب کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اتنی ہی اسلام کے بارے میں بھی کرتے تھے۔ ان کے دوستوں کا بڑا حلقہ مسلمانوں کا تھا جو پٹھان تھے۔ ان سے وہ برابر کا برتاؤ کرتے تھے۔ میں نے ان میں کبھی غیریت یا عصبیت یا کسی قسم کی علیحٰدگی کا جذبہ نہیں دیکھا۔ وہ نیکی شرافت اور رواداری کی قدروں کا مجموعہ تھے۔

یہ قدریں نہ تو ہمیں اسکول میں پڑھائی گئیں۔ نہ ہم نے اس طرح کتابوں میں پڑھیں جیسے آج کل پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ سب قدریں ہم نے والد صاحب کی زندگی کی کتاب سے سیکھیں۔ جب 1956 ء میں وہ ریٹائر ہو کر ہندوستان آئے تو میری عمر ایسی تھی کہ میں انھیں قریب سے دیکھ اور سمجھ سکتا تھا۔ آخری عمر میں وہ تقریباً تقریباً ہر چیز سے بے نیاز ہو گئے تھے۔ سوامی رام تیرتھ کی کتابوں کا مطالعہ اردو میں کرتے تھے۔

سہیل : والد صاحب تو آپ کے وسیع النظر انسان تھے۔ لیکن جس ماحول میں آپ نے پرورش پائی وہاں تو اکثریت مسلمانوں کی تھی اور آپ کا گھرانا ہندو تھا۔ آپ کو معاشرتی طور پر کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور میل جول میں لوگ آپ سے کیسا سلوک کرتے تھے؟

نارنگ :خالد سہیل صاحب! آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ بچپن اور لڑکپن میں ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم ہندو ہیں یا مسلمان۔ نہ پرائمری اسکول میں نہ ہائی اسکول میں کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں جس میں ہم سے کسی طرح کی تمیز کی گئی ہو یا کسی طرح کا کسی بھی سماجی سطح پر تصادم ہوا ہو۔ ہماری زندگی بہت گھلی ملی اور مربوط تھی۔ لیکن پھر 1947 ء میں ایک CRISIS پیدا ہوا۔ تاریخ نے ایک موڑ لیا۔ نیا جغرافیہ وجود میں آیا۔

نئی تاریخ وجود میں آئی۔ انتظار حسین کا یہ خیال غلط نہیں کہ تاریخ نے ایک ہزار سال سے جو سمت اختیار کر رکھی تھی۔ یہ سخت مصنوعی طور پر یک لخت بدل دی گئی۔ یعنی تاریخ میں کچھ گھپلا ہو گیا۔ اور اب ہم اس مسئلے سے نبرد آزما ہیں کہ ہمارا تشخص کیا ہے؟ تقسیم کا شعلہ اس دور کی سیاسی زندگی میں تو پیدا ہو گیا تھا، سماجی زندگی میں موجود نہیں تھا۔ میری یاداشت میں کوئی ایسا حادثہ یا واقعہ نہیں کہ میں نے یا میرے ساتھیوں، دوستوں یا ہمجولیوں نے کہیں بھی اپنے ساتھ امتیازی سلوک محسوس کیا ہو۔ ہمارے گھر میں اکثر و بیشتر مسلمان آتے جاتے تھے۔ اور ہم جن گھروں میں جا کر کھیلتے تھے وہ زیادہ تر مسلمانوں کے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ پیشے اور بعض کارو بار مثلاً دستکاری، مینا کاری، ہاتھی دانت کا کام کھیس بننے کا کام وغیرہ دونوں مذہبوں کی مختلف ذاتوں اور قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تفریق میں کوئی تصادم نہیں تھا۔ کم از کم میری یاداشت میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر کہوں کہ اس تہذیب میں کوئی کشاکش، تناؤ یا گھاؤ تھا۔ یا کسی قسم کی کمی تھی جس کو سیاسی حکمت عملی نے پورا کرنے کی کوشش کی۔

سہیل :کیا آپ نوجوانی کی ایسی دلچسپیوں اور مشاغل کے بارے میں بتائیں گے جن سے آپ کی اس دور کی شخصیت کے بارے میں اندازہ ہو سکے۔

نارنگ :وہ دور میری زندگی کا مشکل دور تھا۔ مجھے زندگی کے مختلف محاذوں پر بیک وقت لڑنا پڑا۔ گھر کے محاذ پر بہت سی ذمے داریاں میرے کندھوں پر آ پڑیں۔ چونکہ کمانے والا اور ذہنی طور پر سب سے زیادہ فعال میں ہی تھا۔ اس لیے فیصلوں کی ذمہ داری مجھ پر پڑتی تھی۔ لیکن اس سے اعتماد ہمت اور ذہنی توانائی میں اضافہ ہوا۔ تجربہ بھی بڑھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب طرح کی آزادی کا احساس ہوا جو عموماً سولہ سترہ برس کی عمر میں نصیب نہیں ہوتا۔ اگر میں والد صاحب کے ساتھ رہ رہا ہوتا یا تیسرا یا چوتھا بیٹا ہوتا تو شاید ایسی آزادی نصیب نہ ہوتی۔ یہ عجیب و غریب تجربہ تھا۔

اس دور میں کچھ حرکتیں ایسی سر زد ہوئیں جن کا قلق بعد میں بھی رہا۔ لیکن یہ بھی کہوں گا کہ یہ بھی زندگی کے تجربے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ ہم اسکول کی ٹیم کا سالانہ میچ دیکھنے کسی دوسرے شہر گئے۔ وہاں ہمارے دور کے ایک رشتہ دار تھے۔ جن کے گھر ہم ٹھہرے۔ اب کسی کے گھر ٹھہرنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ اس گھر کی بیٹی سے معاشقہ شروع کر دیں۔ لیکن صبح صبح جو لڑکی چائے لے کر آئی اس کی ایک جھلک نگاہ میں جم کر رہ گئی۔ اس کی صورت نگاہوں میں پھرنے لگی۔ آج ان چیزوں کی یاد آتی ہے تو ہنسی آتی ہے۔ وہ لڑکی شاید بے خبر ہوگی کہ ہم اس کے عشق میں گرفتار ہیں۔ ہم اس کا ذکر بھی کسی سے نہیں کر سکتے تھے۔ والدین کو تو بتانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔

جب کئی مہینوں تک اس کا تصور ذہن سے نہ نکلا۔ تو مجبوراً ہم نے اسے خط لکھا۔ وہ خط بھی کیا ہو گا نامۂ شوق۔ اور اس کے اسکول کے پتے پر بھیج دیا۔ اب آپ تصور کریں کہ اس زمانے میں کسی لڑکی کے نام اسکول کے پتے پر خط آنے سے کیا ہنگامہ برپا نہیں ہوا ہو گا۔ وہ روتی ہوئی گھر آئی۔ زندگی بھر اس کے والدین نے مجھے معاف نہیں کیا۔

خط کا جواب نہیں آیا تو مزید حماقت یہ کی کہ دو تین اور خط لکھ ڈالے۔ یہ سوچے بغیر کہ اس لڑکی کا کوئی رسپانس ہے بھی یا نہیں۔ دوستوں کے ذریعے بھجوائے۔ ہمیں یقین تھا کہ وہ بھی ہمارے عشق میں گرفتار ہو گی۔ ورنہ چائے پلانے ہی کیوں آتی۔ اس کی گھنی پلکیں، اس کی آنکھیں، کنول سا ترو تازہ چہرہ، اس کی انگلیاں اس کے بال، اس کی ساری فگر ہمارے ذہن میں ہر وقت رہتی تھی۔ مدتوں بہ اضطراب رہے۔

تقسیم کے بعد وہ سارے خط اس کے والد صاحب نے میرے بڑے بھائی کو شملہ میں دیے اور پورے خاندان کو لتاڑا۔ بڑے بھائی صاحب نے ندامت کا اظہار کیا۔ لیکن ان سے میری ’انڈرسٹینڈنگ‘ تھی۔ مارا پیٹا تو کیا، سرزنش بھی نہیں کی۔

اس دور میں ایک اور بے وقوفی بھی کی۔ وہ بھی اسی نوعیت کی تھی۔ ہماری بہن کی ایک سہیلی تھیں جن کا کسی سے اسکول میں جھگڑا ہو گیا۔ میری بہن مجھے لے گئیں کہ اسکول کے پرنسپل سے بات کروں کیونکہ گھر میں بڑا میں ہی تھا۔ میں نے بات تو کی مگر سہیلی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو گیا۔ اب میں اٹھارہ انیس برس کا تھا۔ یہ عشق بہت رنگ لایا اور بہت رسوائی ہوئی۔ اس دوران میری سگائی کہیں اور ہو چکی تھی۔ جب اس کے بھائیوں تک یہ خبر پہنچی کہ ہمارے درمیان ایک تعلق ہے تو انھوں نے اسے اپنی عزت پر ایک حملہ سمجھا اور اپنی بہن کا رشتہ کہیں اور طے کر دیا۔

بعد میں یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہو گیا۔ مختصر یہ ہے کہ میں نے جتن کر کے سگائی توڑ دی۔ اور جو رشتہ اس کے بھائیوں نے کہیں طے کیا تھا وہ اس نے توڑ دیا۔ اور اس طرح وہ میری LIABILITY بن گئی۔ اسی دوران ایک تعلق اور بھی پیدا ہو گیا۔ اب میں اسے قبول نہ کر سکتا تھا۔ نتیجاً وہ گھاؤ دل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ بیچ بیچ میں ہرا بھی ہوتا رہا۔ بہر حال یہ لمبے قصے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ نے اس دور کی بات کی تو میں نے مختصراً عرض کر دیا۔ ان واقعات سے تجربوں میں اضافہ ہوا۔ ورنہ حماقت تو انسان کرتا ہی ہے۔ حماقت کرنے ہی کے لیے ہوتی ہے۔ اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments