“اکیسویں صدی اردو میں فکشن کی صدی ہوگی” گوپی چند نارنگ


سہیل : نوجوانی کا دور تو ہوتا ہی تجربے کرنے کا ہے۔ نارنگ صاحب! یہ بتائیں کہ آپ نے شادی کا فیصلہ زندگی کے کس موڑ پر اور کن حالات میں کیا؟

نارنگ : حالات کا کیا پوچھتے ہیں حالات تو ہمیشہ خراب ہی رہے۔ نہ تو میری پہلی شادی ARRANGED MARRIGEتھی نہ ہی دوسری۔ پہلی شادی کا فیصلہ بھی خود میں نے کیا تھا۔ اور اس شادی کے ٹوٹنے کی ذمہ داری بھی خود مجھ پر ہے۔ وہ لڑکی بھی بہت اچھی تھی۔ میرے بیٹے ارون جو کینیڈا میں مقیم ہیں، اسی شادی سے ہیں۔ پہلی شادی کی طلاق 1970 ء کے فوراً بعد ہوئی۔ وسکانسن (امریکہ) سے لوٹنے کے بعد ہمارے ذہنی فاصلے بڑھتے گئے۔ میرے خیال میں طلاق کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آپ کی زندگی کی بنیادی قدر کیا ہے؟ اقتصادی یا کوئی اور، باقی چیزیں فروعی ہیں۔ انسانی رشتوں میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو منطقی طور پر حل نہیں کی جا سکتیں۔ فیصلہ میرا ہی تھا اور دونوں کی رضا مندی سے طلاق ہو گئی۔

اس کے سال بھر کے بعد میں نے دوسری شادی کی۔ ان سے پہلے سے کچھ تعلق خاطر تھا۔ جو بعد میں رشتے کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ میرے ہر ادبی غیر ادبی ہر کام میں میرے شریک رہیں۔ ادبی کام کو میں ایثار سمجھتا ہوں۔ بغیر COMMITMENT کے آپ ادبی کام نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے سب کو ایثار کرنا پڑتا ہے۔ گھر والوں کو بھی۔

دوسری شادی سے بھی ایک بیٹا ہے جس کا نام ترون ہے۔ وہ بھی میرے ساتھ ٹورنٹو آیا ہوا تھا۔ دونوں بھائیوں میں بہت محبت ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ داستان ہے۔ دوسری شادی کا یہ فائدہ ہوا کہ خاندان اور سماجی ذمہ داریوں سے فراغت مل گئی۔ اگر میں پڑھنے لکھنے کے کام میں مشغول مصروف ہوں تو ہفتوں اپنے آپ سے بھی غائب ہو جاتا ہوں۔ مجھے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے جو مجھے گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد کر دے۔

سہیل :والد کی حیثیت سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟ ہندوستان پاکستان میں بچوں کی پرورش اکثر اوقات ماں کرتی ہے اور باپ بچوں کے ساتھ اس طرح INVOLVE نہیں ہوتا۔ لیکن بعض باپ بچوں کی تربیت میں عملی طور پر شامل ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ بہت سا وقت گزارتے ہیں۔ بچوں کو صرف ایک ذمہ داری نہیں ہی سمجھتے بلکہ انجوائے بھی کرتے ہیں۔ آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

نارنگ : بچہ جب بولنا شروع کرتا ہے تو میرے لیے اس میں بہت ہی دلچسپی کا سامان ہوتا ہے۔ غوں غاں سے آوازیں کس طرح پیدا ہوتی ہیں۔ ان آوازوں میں سے کچھ آوازیں آگے چل کر کیسے صاف ہو جاتی ہیں۔ اور ان آوازوں سے بچہ کس طرح چیزوں کی پہچان کرتا ہے۔ جب ارون چھوٹا تھا تو میں نے ان منزلوں کو۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا یا سمجھیں کہ تضیع اوقات ہے۔ ٹیپ کیا ہوا ہے اور آج تک محفوظ کر رکھا ہے۔ بچے کی نشوونما میں، بچہ ہاتھ پیر کیسے چلاتا ہے، کھڑا کس طرح ہوتا ہے۔

ان تمام باتوں سے ہمیشہ سے دلچسپی رہی ہے۔ جب ارون تھوڑا تھوڑا چلنے لگا تو میں اسے پریم میں ڈال کر گھر کے پاس پارک میں لے جاتا۔ صبح کو موقع نہ ملتا تو شام کو لے جاتا۔ تاکہ وہ پیڑ، پودوں، پھولوں، پرندوں کو دیکھ سکے۔ مجھے سبزے کو دیکھ کر اور پیڑوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ پرندوں کی آوازیں سن کر خوشی ہوتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ پیڑ پودوں سے باتیں کی جائیں۔ میرے خیال میں ان باتوں سے بچوں میں یگانگت اور چاہت پیدا ہوتی ہے۔

ترون کے ساتھ میں نے ایک اور تجربہ کیا۔ مجتبٰی حسین نے جو خاکہ لکھا ہے اس میں ترون کا خاص ذکر ہے۔ کہ وہ مقالے جن سے بڑے بڑے لوگ اکتا جاتے تھے ان کو ترون گھنٹوں سنتا تھا۔ کوئی ایسی ادبی محفل نہیں تھی جس میں چار سال کی عمر سے لے کر بارہ سال کی عمر تک اس نے شرکت نہ کی ہو۔ اس کے بعد تو سوال پسند نا پسند کا ہوتا ہے۔ وہ ہر جلسے، سیمینار اور سمپوزیم میں میرے ساتھ جاتا تھا۔ تقریبات میں بیوی بھی آتی تھیں ترون بھی آتے تھے۔

ہم سوچتے تھے ان محفلوں سے کچھ سیکھے گا ہی۔ وہ گھنٹوں اردو والوں کی محفل میں اردو والوں کو جھیلتا رہا ہے۔ یہ بھی ایک تجربہ تھا۔ جب ترون ساڑھے چار سال کا تھا تو میں نے استاد عبدالوحید خان صاحب سے درخواست کی کہ وہ ترون کو ہار مونیم سکھائیں تاکہ اس کو سر آ جائیں اور اس کے دماغ میں بیٹھ جائیں۔ مجھے موسیقی سے لگاؤ رہا ہے اور میں اسے سکھانا چاہتا تھا۔ جب بھی مجھے وقت ملا میں نے ارون اور ترون دونوں کو اردو سکھائی۔

ترون نے ہارمونیم سیکھا تو پھر اس نے راگ بھی سیکھا اور غزلیں بھی۔ ترون اب نہ صرف ہارمونیم بجا لیتا ہے بلکہ مؔیر غالؔب اور فیؔض کا کلام بھی گاتا ہے۔ اور بعض کلاسیکی راگ راگنیوں پر بھی اس کی دسترس ہے۔ میں جب جب سفر پر نکلا ہوں تو ارون یا ترون میرے ساتھ ہوتے تھے۔ لندن، روم، امریکہ، کینیڈا میں ترون بار ہا میرے ساتھ رہا ہے۔ دو سال پیشتر میں اسے اٹلی لے گیا تھا۔ میرے خیال میں سفر سے تربیت ہوتی ہے۔ ذہن کھلتا ہے۔ دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کو دیکھنے سے زندگی کا نیا زاویہ نگاہ بنتا ہے۔ اگر لڑکپن میں یہ تجربہ ہو جائے تو بعد میں بہت کام آتا ہے۔

سہیل : نارنگ صاحب! اب میں آپ سے چند سوال ادبی حوالے سے کروں گا۔ آپ کے سامنے اردو ادب کا پچاس سال کا سفر ہے۔ آپ جب آج کے اردو ادب کا، چاہے وہ شاعری فکشن ہو یا تنقید، اس اردو ادب سے جو 1930 ء اور 1940 ء کی دہائیوں میں تخلیق ہو رہا تھا، مقابلہ کرتے ہیں تو آپ کو بنیادی طور پر کیا فرق محسوس ہوتا ہے؟

نارنگ : میں کچھ شاعری کچھ فکشن اور کچھ تھیوری کے حوالے سے عرض کروں گا۔ تھیوری کی سطح پر ہم دو بڑی تحریکوں سے گزرے ہیں : ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کی تحریک۔ جس زمانے کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ترقی پسند تحریک کے شباب کا دور تھا اور تقسیم کا عمل وجود میں آنے والا تھا۔ آزادی کے بعد اس تحریک کا زوال شروع ہوا۔ زوال تو دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ہم برطانوی سامراج کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔

جب روس اور اتحادیوں میں گٹھ جوڑ ہوا تو وہی جنگ جو سامراجی طاقتوں کی جنگ تھی دیکھتے ہی دیکھتے PEOPLES WAR میں تبدیل ہو گئی۔ یوں یہ بات بے نقاب ہو گئی کہ ترقی پسند تحریک کی بنیادیں نہ صرف ادبی نہیں تھیں، یہ ملکی یا قومی بھی نہیں تھیں۔ بلکہ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی۔ ترجیحات پارٹی لائن سے طے ہو رہی تھیں اور یہ پارٹی لائن کہیں اور سے تھی۔

البتہ ترقی پسند تحریک نے ہمیشہ عوامی تقاضوں کا ساتھ دیا۔ نچلے طبقے کا ساتھ دیا۔ آزادی اور حریت کا ساتھ دیا۔ اس سے نیا جوش و خروش پیدا ہوا۔ آزادی کی لہر پیدا ہوئی۔ مساوات کا نعرہ بلند ہوا۔ طبقاتی تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ سامراج کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ سرمایہ داری اور انسانی استحصال کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ ان سب چیزوں کی وجہ سے ادب میں وسعت آئی۔ ذہنی بیداری آئی۔ اور بلا شبہ ادب کو فائدہ پہنچا۔ لیکن ادبی تھیوری کی بنیادیں کمزور رہیں۔ ادب جو اخبار اور ابلاغ عامہ سے الگ ہے۔ اس کی وضاحت یا قدر کا تعین کبھی نہیں کیا جا سکا۔ جس کے باعث ادب اور پروپیگنڈے میں برابر خلط مبحث ہوتا رہا۔

مارکسزم تو جدلیت پر مبنی ایک فلسفہ ہے جو ہر طرح کے تغیر کو انگیز کر سکتا ہے۔ ہر نئے مسئلے کا جواب اس میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ لیکن جب فیصلے کوئی اور کر رہا ہو ترجیحات آپ کی اپنی نہ ہوں۔ ادبی بھی نہ ہوں بلکہ کسی دوسرے ملک کی سیاسی ہوں تو اس سے جو جھگڑا پیدا ہوا، وہ بہت ہی عبرت انگیز تھا۔ چنانچہ ہمارے بیشتر ترقی پسند ادیبوں کا جو حشر ہوا اس کی وجہ یہی تھی۔ ان میں سے جو نعرے بازی کے اثرات سے بچ سکے وہ، وہ لوگ تھے جنھوں نے ہوش گوش سے کام لیا اور جمالیاتی توازن کو مجروح نہیں ہونے دیا۔

ادب کو نعرے بازی میں تبدیل نہیں کیا بلکہ ادب کے ادبی تقاضوں کو بھی فوقیت دی اور نظریاتی تقاضوں کو بھی سامنے رکھا اور ان سے عہدہ برا ہوئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فیض احمد فؔیض کی شاعری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیض احمد فؔیض پوری ترقی پسند تحریک کا REDEEMING FEATURE ہیں۔ تحریک کے نمائندوں میں مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری اور احمد فراز بھی شامل ہیں۔ ان سب کے موضوعات بڑی حد تک ایک جیسے ہیں۔

مثلاً عوام سے ہمدردی، مساوات، حب الوطنی اور مغرب کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ جو اہمیت فیض کی شاعری کو حاصل ہے وہ مجاؔز یا جذؔبی یا جان نثار اخؔتر کی شاعری کو نہیں۔ اگرچہ یہ نام بھی دوسرے بہت سے ناموں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ آپ کو جمالیاتی قدر میں تلاش کرنی پڑے گی۔ ورنہ IDEALOGYتو سب کی ایک ہے۔ IDEALOGY جب ادب میں آتی ہے تو وہ ادب بن کر آتی ہے۔ نظم ہو یا غزل، شاعری کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو قائم کرے اور بعد میں کسی دوسری چیز کو۔ جو بات فیض کے یہاں ہے وہ دوسروں کے ہاں کیوں نہیں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس کے ہاں شعری یا ادبی قدر جس قدر مضبوط ہوگی اس قدر وہ ترقی پسند بھی ہو سکے گا۔ لیکن جس کے ہاں ادب پروپیگنڈے، نعرے بازی یا سستی اشتہاریت کا بدل ہو گا اتنی ہی ترقی پسندی بھی سطحی ہوگی۔

تھیوری کی سطح پر جدیدیت کا حال بھی پتلا ہے۔ ہمارے ہاں جدیدیت ترقی پسندی کی ضد میں ابھری۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوا۔ اب میں جتنا اس موضوع پر غور کرتا ہوں اتنا زیادہ تعجب ہوتا ہے۔ جدیدیت کا اختلاف پروپیگنڈے، نعرے بازی اور دی ہوئی پارٹی لائن کے جوہر سے نہیں تھا لیکن اردو میں ترقی پسندی کی ضد میں جدیدیت نے اختلاف کیا۔ ہر قسم کی سیاسی سوچ سے، ہر قسم کی آئیڈیالوجی سے اور ہر طرح کی سماجی وابستگی سے۔

یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ یہاں تک کہا گیا کہ ادب سماجی دستاویز ہی نہیں ہوتا۔ اس سے بڑھ کر غیر ذمہ دارانہ بات کیا ہو سکتی ہے کہ ادب کا سماجیت سے اور تاریخیت سے کوئی تعلق نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جدیدیت کی تحریک نے پارٹی لائن کے ردعمل میں ذہنی آزادی کی فضا تو پیدا کی اور ادبی قدروں پر زور بھی دیا، لیکن ادب کو سماجیت اور تاریخیت سے کاٹ کر ادب کے وسیع تقاضوں سے رو گردانی بھی کی۔ شاعری اور افسانے کا کچھ نقصان بھی ہوا۔

شاعری میں بعض مثالیں ایسی بھی ہیں کہ شاعری ابہام اور اشکال کا شکار ہو گئی۔ اور افسانہ گنجلک، ژولیدہ اور اپنا منہ چڑانے والی تحریر بن گیا۔ جس کا رشتہ اپنے قاری سے کٹ گیا۔ ادب میں بنیادی چیز ابلاغ ہے۔ یہاں ابلاغ ہی سے منہ موڑا گیا۔ یہ کہتے ہوئے میں جدیدیت کی دین سے اس کی خدمات سے اور خوبیوں سے چشم پوشی نہیں کر رہا۔ وہ سب اپنی جگہ پر ہے۔ جدیدیت کی ایک مثال اخترالایمان ہیں۔ وہ جگہ جگہ اشتراکیت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جدیدیت سو فیصد غیر سیاسی نہیں تھی۔ جدیدیت میں بھی وہ شخصیات باقی رہ گئیں۔ جنھوں نے ادبی اور جمالیاتی تقاضوں کو بھی پورا کیا۔ اور جدیدیت کے تناظر میں سماجیت اور تاریخیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ اخترالایمان کے علاوہ مجید امجد، ناصر کاظمی، منیر نیازی، شہر یار کئی دوسرے اس کی مثال ہیں۔

فکشن میں اس کی بڑی مثالیں قرۃالعین حیدر، انتظار حسین، عبداللہ حسین اور سریندر پرکاش ہیں۔ یہ لوگ جدیدیت کے دور میں اپنے فن کی بلندیوں تک پہنچے۔ ان کے یہاں آزاد ذہنی فضا ہے جو جدیدیت نے ہموار کی۔ لیکن اعلٰی لکھنے والوں نے ہمیشہ جدیدیت کی کمزوریوں سے یعنی سماج بعد ، تاریخیت سے، بے تعلقی سے ہمیشہ دامن بچائے رکھا۔ بلکہ ان کے یہاں اساطیر، دیو مالا، ثقافت، تہذیب اور تاریخیت سے بہت گہرے طور سے جلوہ افروز رہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments