دو کھڑکیوں والا نیشنل کا اصلی ٹیپ ریکارڈر


کون سا؟ جانی نے عالم لوہار کی داستان سیف الملوک کا کیسٹ کاپی مشین کے جبڑوں میں دے کر ریکارڈنگ کا سرخ بٹن دبا دیا

 ”سیف ملوک دی تے بدیع الجمال پر ی دی ملاقات وچ باغ دے کس طرح ہوندی اے۔ دس محمد عالم لوہارا کس طرح ہوندی اے ’‘

عالم لوہار کی آواز کے ساتھ ہی شیرو کی آنکھیں شیلف میں پڑے نیشنل کے ڈبل کیسٹ ٹیپ ریکارڈر کی طرف اٹھ گئی۔ جانی اس کی ایک ہی

جگہ پر ٹکی نظریں دیکھ کر سمجھ گیا کہ اسے کیا چاہیے۔ جانی نے ٹیپ کی قیمت بتا کے شیرو کے اوسان اتنے ہی خطا کر دیے جتنے شہزادہ سیف المکوک کے بدیع الجمال پری کو دیکھ کے خطا ہوئے تھے۔ شیرو کا اترا چہرہ دیکھ کر جانی کے دل میں نجانے کیا بات آئی کہ اس نے ڈبے میں بند ٹیپ شیلف سے اٹھایا اور اسے شیرو کے سامنے رکھ دیا۔ شیرو کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اور دکان میں عالم لوہار کی آواز پھیل گئی

گھنڈ اتار د یدار وکھاویں عشق نہ پچھدا ذاتاں

روبر سجن دے ہو کے کر لئی اے دو باتاں

لیکن جانی نے شیرو کو اس کے سجن کے دیدار سے محروم رکھا اور ٹیپ کو ڈبے سے نکالے بغیراسے اٹھا کر دوبارہ شیلف میں رکھتے ہوئے شیرو کو صلاح دی کہ سنگل کیسٹ مشین لے لو سستی بھی ہے اور پائیدار بھی۔ نیشنل کا ڈبل کیسٹ خریدنا تمہارے بس کی بات نہیں۔

 ”جانی لالہ۔ خریدوں گا تو یہی نیشنل کا ڈبل کھڑکی۔ اللہ کے حکم سے“۔ شیرو اپنا فیصلہ سنا کے دکان سے باہر نکلا اور اس دن جمع ہونے والی گدائی سے ڈیڑھ گز لال مخمل کا کپڑا خرید کردریا پار اتر گیا۔

شیرو دریا کے پار رہنے والے اس کیہل قبیلے کا فرد تھا جو نہ مسلمانوں میں شمار ہوتا ہے نہ کافروں میں۔ کیہل نہ نماز پڑھتے ہیں نہ بتوں کو پوجتے ہیں۔ جب بھی کسی مسلمان کا کوئی حلال جانور حرام ہو جاتا تو اسے ٹھکانے لگانے کے لئے اس قبیلے کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ اس دن دریا کے اس پار بڑی عید کا سماں ہوتا اورسب جھونپڑوں میں حرام گوشت پکتا تھا۔ قبیلے کے نکھٹو مرد مانگ تانگ کے گزارہ کرتے ہیں اور ذرا کم نکھٹو اپنی عورتوں کی ہاتھ سے بنی دریائی گھاس کی ٹوکریاں ٹوکرے اور بچوں کی کھلونا گاڑیاں شہر میں بیچ کے اپنی زندگی کی گاڑی صدیوں سے دھکیل رہے ہیں۔ کچھ کیہلوں کے پاس اپنی کشتیاں ہیں جن پر وہ کچے کے ملکوں کی بھینسوں کا دودھ شہر میں پہنچاتے ہیں۔ جس کیہل کے پاس اپنی کشتی ہو اسے قبیلے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

میرا جب ان لوگوں سے واسطہ پڑا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی آبادیاں بجلی، سکول، ہسپتال کے ساتھ ساتھ عزت اور غیرت جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ صدیوں سے اس قبیلے میں غیرت کے نام پر کوئی قتل ہی نہیں ہوا۔ جب جو نیجو حکومت نے نئی روشنی سکیم کے تحت گھر گھر علم کی روشنی پہنچانے کا فیصلہ کیا تو مجھ جیسے کئی پی ٹی سی ٹیچروں کی لاٹری نکل آئی۔ ایک ایک کمرے کے نئے سکول بنے نئی اسامیاں نکلیں اور استاد بھرتی ہوئے۔ محکمہ تعلیم نے دریا کے پار بھی ایسا ہی ایک سکول بنا کے تعیناتی کا پروانہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ اگلے دن میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس سے سکول حاضری کا رجسٹر ’چاکوں کا ڈبہ‘ دو ٹاٹ ’پیتل کا گھنٹہ‘ کچی پکی کے قاعدوں کے دو سیٹ اور تین چارٹ لے کر رانجھن کیہل کی کشتی میں بیٹھ گیا۔ کشتی میں موجود ایک گدھے اور دو بکریوں کی ہمراہی میں علم کا سفیر نئی روشنی کا چراغ تھامے دریائے سندھ کے پانیوں پر محو سفر تھا

پار کیوں جا رہے ہو خان جی؟ رانجھن نے بانس سے کشتی آگے دھکیلتے ہوئے سوال داغا

سکول میں پڑھانے۔ سرکاری استاد ہوں۔ حکومت پاکستان کا نمائندہ ہوں۔ میں نے گدھے کے پچھواڑے سے برستی لید سے خود کو اورسرکاری سامان کو بچاتے ہوئے اپنی نمائندگی کا اعلان کیا تاکہ کیہل اور گدھا دونوں رعب میں آجائیں

ماشٹر تم تو استاد ہو لیکن اس پار شاگرد کوئی نہیں ہے خیر سے۔

رانجھن نے خان جی سے ماشٹر کا سفر ایک لمحے میں طے کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی

کوئی لکھائی پڑھائی کا شوقین نہیں ہے۔ تمہاری حکومت کے پاس اتنے فالتو پیسے ہیں تو ہم گریبوں کو دے دے۔ سکول کیوں بنارہی ہے؟ کیا رکھا ہے تعلیموں میں؟ کتنی پگارہے تمہاری؟ رانجھن نے وہ سوال پوچھا جس کا جواب دے کر مجھے اپنی سبکی نہیں کرانی تھی۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس نے دوبارہ وہی تکلیف دہ سوال پوچھا

شرماؤ مت ماشٹر۔ بتاؤ کتنی ہے؟

پانچ ہزار دو سو۔ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے دگنی تنخواہ بتائی لیکن رانجھن نے اس بار بھی رعب میں آنے کی بجائے اپنا پورا دہانہ لھول لر اتنا گہرا قہقہہ لگایا کہ مجھے اس کے پیلے دانتوں کے بہت پیچھے تالو میں پھڑپھڑاتا گوشت کا لوتھڑا تک نظر آگیا

ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جس میں پورا مہینہ ٹکے ٹکے کے شاگردوں کے ساتھ سر کھپانے کے بعد پانچ ہزار دو سو پگار ملے۔ تم سے تو ہم جاہل ان پڑھ اچھے ہیں۔ اپنی کشتی ہے اپنا کاروبار ہے۔ تمہارے باپ نے تمہیں پڑھا کر اچھا نہیں کیا۔ ایک کشتی لے دیتا تو آج تم ماشٹر نہ ہوتے بلکہ تمہاری کشتی میں ماشٹر بیٹھے ہوتے ماشٹر۔

میں نے شکر ادا کیا کہ اسے اپنی اصل تنخواہ نہیں بتائی ورنہ اس نے تو میری اوقات جان کے دریا میں ہی دھکا دے دینا تھا

میں تنخواہ کے لئے نہیں، علم پھیلانے کے لئے استاد بنا ہوں۔ میرے لئے علم ہی اصل دولت ہے۔ میرے گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے میں نے تو حکومت کی نئی روشنی سکیم میں خود اپنا نام رضاکارانہ طور پر دیا ہے تاکہ ہماری نئی نسل جاہل نہ رہ جائے

میں نے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے خود کوعلم کا مسیحا بنا کر پیش کرتے ہوئے جواب دیا

لکھ لو کیہلوں کی نسل سے تو کوئی شاگرد نہیں ملے گا تمہیں۔ ہمارے بچوں کو پڑھ کے غلامی والی نوکریاں نہیں کرنی۔ یہ حکومت ایک دن میرے ہاتھ میں آ جائے تو نئی روشنی کی جگہ نئی کشتی سکیم نکالوں گا اور نئی گدھی سکیم بھی دوں گا۔ ایک مہینے کے اندر اندر ہر گھر میں دانے نہ آجائیں تو آکے میری قبر پر لعنت کا پنجہ دے جانا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi