دو کھڑکیوں والا نیشنل کا اصلی ٹیپ ریکارڈر


دریاؤں کے کنارے تہذیبوں کے پالن ہار ہوتے ہیں ان کی فطرت میں دین ہے، لین کا کوئی تصور نہیں۔ شیرو اپنی یہی دریائی فطرت لے کر روزانہ گدائی کے لئے شہر آتا تھا۔ اس نے گلی گلی مانگنے کی بجائے اپنا ایک ہی ٹھکانہ بنا رکھا تھا۔ پرانے کیتھولک چرچ کے پچھواڑے میں جانی میوزک ہاؤس۔ وہ جاوید جانی کا یہ ہاؤس کھلنے سے پہلے ہی خدا کے گھر کی دیوار سے پشت لگا کے بیٹھ جاتا۔ جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا، کے سنہری اصول سے بندھے شیرو کو گدائی ملنے سے زیادہ جانی میوزک ہاوس کے کھلنے کا انتظار رہتا تھا۔ جونہی جاوید جانی کی ویسپا سکوٹر کے انجن کی باریک آواز اس کے کانوں میں پڑتی شیروکا چہرہ انتظار کے بوجھ میں دبی اس دلہن کی طرح کھل اٹھتا جسے بارات آگئی بارات آگئی کا ہوکا پہلی بار سنائی دیتا ہے۔ شیرو پر وہ لمحے بہت بھاری گزرتے تھے جن میں جاوید جانی اپنی ویسپا کو برگد کے سائے میں کھڑا کر کے اس پر ترپال ڈالتا پھر آس پاس کے دکانداروں سے دعا سلام کرتا یا طارق پنواڑی کے کھوکھے پر سگریٹ کے کش لگاتا۔ ان بھاری لمحات میں شیرو کا جی کرتا تھا وہ کش لگاتے جانی کو اپنے ٹھکانے پر بیٹھے بیٹھے آواز لگائے ”دکان کھول لنگڑے۔ کھولتا ہے یا بلاؤں پٹھانوں کو ’‘

جانی بے چارہ پیدائشی لنگڑا نہیں تھا۔ اس کی یہ ٹانگ پٹھانوں کے ساتھ ایک معرکے میں ایسی ٹوٹی کہ دوبارہ نہیں جڑی۔ میوزک ہاوس کی بنیاد ڈالنے سے بہت پہلے غم روزگار کے ستائے جانی کو الہام ہو گیا تھا کہ وہ ایک چھپا ہوا خزانہ ہے اگر اس نے اپنی آواز کو ظاہر نہ کیا تو اپنے رب کی عطا کی ہوئی نعمت کا کفران کرے گا۔ اس الہام کے ہوتے ہی اس نے ایک ڈھولک بردار اور ایک بانسری نواز کے اشتراک سے اپنا تین رکنی گروپ بنا یا اورمین بازار میں ایک بالا خانہ کرائے پر لے کر اس کے ماتھے پر ”دل دا جانی میوزیکل ’‘ کا بور ڈ لٹکا دیا۔ اس گروپ کا کام تیرے میرے کی شادیوں پر فلمی گیت گا کے محفل کو گرمانا اور اپنا چولہا جلانا تھا۔ نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ جانی کی نیت کی صفائی میں بھی خدا نے برکت ڈالی۔ شادیوں پر ناچنے والے کچھ خواجہ سراؤں سے سلام دعا بڑھی اور وسیع ترتجارتی مفادات کے پیش نظر دل دا جانی میوزیکل اور خواجہ سرا گروپ ایک ہو گئے تاکہ رقص اور موسیقی کے دلدادہ عوام کو ان کی بنیادی سہولتیں ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہوں۔

کچھ عرصے بعد رشید ٹھرا بھی اس بالاخانے کی سیڑھیاں چڑھ آیا۔ اب رشید کے تعارف کے تکلف میں پڑیں گے تواصل بات رہ جائے گی اس کے لئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ پورے علاقے میں کچی شراب بنانے میں رشید ٹھرے کا وہی مقام تھا جو کیمیا گری میں جابر بن حیان کا۔ ٹھرے کے آنے کے بعد یہ بالا خانہ اپنے زمانے کا ون بیلٹ اکنامک کوریڈور ہو گیا جہاں ضرورت کی ہر چیز با آسانی مل جاتی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں یہ عالم ہو گیا کہ شادیوں کے موسم میں اس گروپ کی کوئی رات خالی نہ جاتی تھی۔ بلکہ تین تین مہینے کی پیشگی بکنگ چلتی تھی۔ جاوید جانی گاتا تھا خواجہ سرا ناچتے تھے اوردولہے کے دوست احباب رشیدکا ٹھرا پی کے ہلڑ بازی کرتے۔ اب اسے قسمت کی خرابی کہیں یا کچھ اور کہ اس گروپ نے پٹھانوں کی شادی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی حامی بھر لی۔ ابھی محفل کو عروج پر آئے تھوڑی ہی دیر ہی گزری تھی کہ دلہن کا باریش باپ اور جہاد افغانستان سے تازہ تازہ لوٹے اس کے بیٹے بندوقیں لے کر وہاں آپہنچے۔

 ”بند کرو یہ کنجر خانہ“ عزت خان اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے چلایا۔ لیکن اس کی آواز امداد حسین کی ڈھولک کے ٹھیکوں میں دب کے رہ گئی۔ اپنی آواز کو اس طرح دبتے دیکھ کر عزت خان کی غیرت کو مزید جوش آگیا اور وہ لمحوں میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ڈھولک ہی اس کی آواز کو دبا رہی ہے لہذا اس نے وہیں کھڑے کھڑے ڈھولکی پر نشانہ باندھ کے فائر کھول دیا۔ گولی ڈھولک کی کھال چیرتی جاوید جانی کے گھٹنے میں جا بیٹھی۔ موسیقی پر بندوق غالب آئی اور آن کی آن میں سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ بجانے والے قناتوں کے پیچھے چھپ گئے۔ ناچنے والے بھاگتے بھاگتے فالسے کے باغ میں گھس گئے۔ تالیاں بجانے والوں کے ہاتھ دعاوں کے لئے اٹھ گئے۔ دلہن کے باپ نے وہیں کھڑے کھڑے ایسے گھر میں بیٹی دینے سے انکار کر دیا جس میں شادیوں پر ہیجڑوں کا ناچ گانا ہو۔ اس رات جہاں عزت خان کی بیٹی سے رحیم گل کا رشتہ ٹوٹا وہیں جاوید جانی کا گھٹنا بھی ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا۔ اس بے چارے نے کئی آپریشن اور علاج کرائے لیکن چال میں وہ سبکی نہ آئی جو اس حادثے سے پہلے تھی۔ اس حادثے کو قدرت کی طرف سے وارننگ سمجھتے ہوئے اس نے گانا اور بالا خانہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جانی میوزک ہاوس کی بنیاد رکھی، تاکہ نہ موسیقی سے رشتہ ٹوٹے نہ دوسری ٹانگ۔

جانی میوزک ہاوس پر اس زمانے میں جاپان سے آنے والے ہر قسم کے ٹیپ ریکارڈردستیاب تھے۔ سنگل کیسٹ ’ڈبل کیسٹ‘ سٹیریو ’مونو‘

لیکن شیرو کی آنکھوں میں تو صرف نیشنل کا ڈبل کیسٹ ٹیپ بس گیا تھا۔ وہ سارا دن گرجے کی دیوار سے لگا جانی کی دکان کے شیلف میں رکھے اس ٹیپ کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کرتا رہتا۔ جون کی ایک دوپہر میں جب جانی اپنی دکان پر اکیلا بیٹھا کسی گاہک کے لئے عالم لوہار کے گیتوں کا فرمائشی کیسٹ تیار کر رہا تھا تو شیرو ہمت کر کے دکان میں داخل ہوا

جانی لالہ ٹیپوں کی قیمت پوچھنی تھی۔ شیرو نے جانی سے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔

سارے لینے ہیں؟ جانی نے اس کی غربت پر اپنے طنز کا درہ مارا تو نہ صرف شیرو کی آنکھیں جھک گئیں بلکہ دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے بندھنے چلے گئے

نہیں لالہ جی اتنی اوقات کہاں؟ شیرو کی کمر کے پیچھے ہاتھوں کی حرکت کرتی بے چین انگلیاں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں

کتنی ہے؟ جانی اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مختصر بات کرنا چاہ رہا تھا

قیمت پتہ چل جائے تو کوئی فیصلہ کروں گا۔ شیرو نے گردن کھجائی

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi