دو کھڑکیوں والا نیشنل کا اصلی ٹیپ ریکارڈر


جب تک کشتی کنارے نہیں لگ گئی، رانجھن کی زبان چلتی رہی۔ اس نے تعلیم کے اتنے نقصانات گنوائے کہ میں بھی شک میں پڑ گیا کہ چار کتابیں پڑھ کر کہیں اپنی زندگی ضائع تو نہیں کر بیٹھا۔ کشتی سے اترتے ہی میں نے جیب سے دو روپے نکال کے رانجھن کی طرف بڑھائے

چھوڑو چھوڑو۔ رکھو کرایہ۔ تم استاد ہو۔ اس نے ”تم استاد ہو“ کچھ اس انداز سے کہا جیسے کہہ رہا ہوتم شودر ہو، تم سے کرایہ کیا لینا۔

میں نے بھی اصرار نہیں کیا اوردونوں روپے جیب میں واپس رکھ کر سکول کی جانب چل پڑا۔ کیہلوں کے جھونپڑوں سے کافی دورالگ تھلگ کھڑا لال اینٹوں والا سرکاری کمرہ مجھے کنارے لگنے سے پہلے ہی نظر آ گیا تھا۔ میں جھونپڑوں کے درمیان سے گزر کر جانے کی بجائے ایک لمبا چکر کاٹ کے اس کمرے تک پہنچا۔ قاعدے کے مطابق میرا سب سے پہلا کام اس کمرے کو سکول کی باقاعدہ شکل دینا تھا۔ لہذا دروازے کے درمیان پیتل کا گھنٹہ اور دیواروں پر چارٹ لٹکائے۔ ایک چارٹ پر پاکستان بنانے والے رہنماؤں کی شکلیں، دوسرے پر جنگلی جانوروں کی تصویریں اور تیسرے پر چھ کلمے مع ترجمہ لکھے تھے۔ تین چارٹوں میں سمٹی پاکستان کی چالیس سالہ تاریخ دیوار پر لٹکانے کے بعد باہر نکلا موسم اچھا تھا اس لئے ٹاٹ اندر کی بجائے باہر ریت پر بچھا دیے۔ کمرے میں پہلے سے موجود کرسی اور تختہ سیاہ بھی باہر جما دیا۔ مجھے اطمینان ہو گیا کہ دکان سج گئی ہے اور اب گھنٹہ بجانے کا وقت ہے۔ پتھر کی ضربیں پڑتے ہی گھنٹے کی آواز کچے کے سارے علاقے میں پھیل کر اعلان کر گئی کہ سکول کا باضابطہ آغاز ہو گیا ہے اس لئے سارے کیہل اپنے بچوں کو پہلی فرصت میں سکول داخل کرا کے ذمے دار والدین ہونے کا ثبوت دیں۔ میرا خیال تھا کہ گھنٹے کی آواز سنتے ہی جھونپڑوں کے آس پاس سائیکل کے ٹائر چلاتے سارے بچے دوڑے دوڑے آئیں گے لیکن کوئی بھی نہیں آیا۔ جو آیا تو آوارہ کتوں کا ایک غول وہ بھی ایک بلی کے تعاقب میں جو ان سے جان بچانے کے لئے سکول کی چھت پر جا بیٹھی تھی۔

کتوں کے تیور دیکھ کر میں بھی جلدی سے کمرے گھس گیا۔ کافی دیر سارے کتے کمرے کے چاروں طرف بھاگ بھاگ کے باجماعت بھونکتے رہے۔ ان کی بھونکیں کم ہوئیں تو میں نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے دروازے کی جھری سے باہر جھانکا۔ تین کتے ٹاٹوں پر لوٹ رہے تھے اور چوتھا تختہ سیاہ کی ٹانگوں میں اپنی ایک ٹانگ اٹھائے دھار مار رہا تھا اور باقی کے دو اس دروازے کو گھور رہے تھے جس کے پیچھے حکومت پاکستان کا نمائندہ اور نئی روشنی کا سفیر اندھیرے میں چھپا کھڑا تھا۔ کئی گھنٹوں بعد خدا خدا کر کے ان کو کوئی دوسری بلی نظر آئی اورسارے اس کے پیچھے دوڑ پڑے میں جلدی سے باہر نکلا۔ گھڑی پر آنکھ گئی تو پتہ چلا کہ سکول بند ہونے کا وقت ہو گیا ہے۔ میں نے جلدی جلدی سارا سامان اندر رکھا کمرے کو تالا لگایا اور پتن پر کھڑی کشتیوں کی طرف دوڑ لگا دی

ڈبل کیسٹ ٹیپ کی قیمت جاننے کے بعد شیرو عشق کے اس بنیادی نکتے کو پا گیا تھا کہ معشوق کو حاصل کرنے کے لئے عاشق کا جدوجہد کرنا بہت ضروری ہے لہذا اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور گرجے کی دیوار سے ٹیک لگا کے پڑے رہنے کی بجائے شہر میں گھوم پھر کے مانگنے کا بھاری پتھر اٹھا لیا۔ اب وہ سارا دن شہر کے مصروف چوکوں میں گدائی کرتا اور شام کو چار آنے آٹھ آنے کے سارے سکوں کو یوسف کریانہ والے سے ایک ایک روپے کے کاغذی نوٹوں میں تبدیل کرا کے جانی میوزک ہاوس پہنچ جاتا۔ اور اس دن کی ساری گدائی ڈبل کھڑکی ٹیپ فنڈ میں جمع ہو جاتی۔ جانی نے اپنے روزنامچے میں ڈبل کھڑکی کے نام سے ایک صفحہ بنا رکھا تھا جس میں شیرو کی روز کی کمائی درج ہو رہی تھی۔ وہ ہر شام وہاں آتا اور خاموشی سے ایک روپے والے سارے نوٹ جانی کے سامنے رکھ کر چلا جاتا۔ پہلے مہینے کے اختتام پر جانی نے اسے روک کر جمع شدہ رقم کے بارے میں بتانا چاہا تو شیرو نے جواب دیا

مجھے یہ نہ بتاؤ کہ کتنے پیسے جمع ہو گئے ہیں یہ بتاؤ کتنے رہ گئے ہیں؟ بلکہ وہ بھی نہ بتاؤ۔ جب رقم پوری ہو جائے تو اٹھا کے دے دینا۔ شیرو نے نظریں شیلف پر جماتے ہوئے جواب دیا

ابھی تو بہت رہتے ہیں۔ سن لے سارا حساب۔ جانی نے ایک دراز سے روزنامچہ نکال کے اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا

چھوڑ جانی لالہ۔ کرنے عشق تے رکھنے حساب۔ شیرو نے روز نامچے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اطمینان سے ایک ہی جملے میں عشق کا سارا فلسفہ بیان کر نے کے بعد دل کی بات کہی

بس تم مجھے یہ بتاؤ کہ کیا اتنے ہو گئے ہیں کہ تم ڈبے سے نکال کے ایک بار دیدار کرا سکتے ہو اس کا؟

جانی کو اس کی اس معصوم خواہش پر کوئی اعتراض نہ ہوا اور وہ کچھ کہے بغیر شیرو کے محبوب کوشیلف سے اٹھا لایا اور ڈبہ کھولنا شروع کیا۔ شیرو بجلی کی تیزی سے دکان سے باہر بھاگا

کیا ہوا گیا اوئے؟ جانی نے حیران ہو کے بھاگتے شیرو کو آواز دی

شیرو کے جواب کی بجائے گرجے کی دیوار سے لگے نلکے کی ہتھی چلنے کی آواز آئی اور جانی نے دیکھا کہ شیرو اپنے دونوں ہاتھ رگڑ رگڑ کے دھو رہا ہے۔ وہ ہاتھ دھو کے اندر آیا تب تک اس کا محبوب پوری طرح کھل کے سامنے آچکا تھا۔ اس پر پہلی نظر پڑتے ہی شیرو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں وہ چمک آئی کہ جانی کو اپنے مرحوم دادا حاجی اللہ بخش خاکسار کی یاد آگئی

 ”اؤ ئے اس حاجی کے دل کی کیفیت یا تو اللہ جانتا ہے یا وہ حاجی جس کی پہلی بار خانہ کعبہ پر نظر پڑتی ہے۔ مت پوچھو کیا رنگ ہوتا ہے۔ اللہ گواہ ہے نہ ماں یاد رہتی ہے نہ باپ نہ بیوی نہ بچے۔ میں تو جا کے لپٹ گیا اللہ کے گھر سے آنکھ سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی اور میں نے کہا اسی حالت میں موت دے دے میرے مالک۔ بلا لے اس گناہ گار اللہ بخش خاکسار کو اپنی بارگاہ میں ’‘

پڑوسی کی دکان کا شٹر گرنے کی آواز جانی کو دادے کی یادوں سے نکال کے اپنی دکان میں لے آئی جہاں شیرو اپنے محبوب کو ہاتھوں سے نہیں آنکھوں سے چھو رہا تھا۔ کسی فوٹو گرافر کی طرح کبھی دائیں طرف گردن گھما کے نیشنل کے ٹیپ ریکارڈرکو دیکھتا کبھی بائیں طرف سے کبھی اس کا سر ٹیپ کے پیچھے جا رہا تھا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi