دو کھڑکیوں والا نیشنل کا اصلی ٹیپ ریکارڈر


جانی نے بات کرتے ہوئے جلدی جلدی کاونٹر سے خاری شاہ کا کیسٹ اٹھایا، دراز سے ایک سگریٹ نکال کر باقر کو دیا اور اپنی ریکارڈنگ مشین کی طرف بڑھ گیا۔ سائیڈ بی پر جہاں سے قمبرقمی شروع ہو رہا تھا، وہ مقام ڈھونڈا اور اسی کے اوپر موچھ والا بٹھا دیا۔ بینچ پر بیٹھے خاری شاہ نے موچھ والے کی پرتاثیر آواز کو مہمیز لگانے کے لئے سگریٹ سلگا لی۔ دکان میں سگریٹ کا دھواں ’اداسی اور ریاض حسین شاہ موچھ والے کی آواز پھیل گئی

صغری ٰ تیڈے سجناں دی اج شام تیاری ہیے

ناراض نہ تھیویں توں ’بابے دی لاچاری ہیے

مجبو ر ہاں ایں گالہوں گھن نال میں آواں ہا

تو شکل میڈی ماں دی ’ماحول بازاری ہیے

موچھ والے کی درد بھری آوازنے نہ صرف خاری شاہ بلکہ جانی کی آنکھوں سے بھی آنسو نکال دیے۔ اچانک اس کی آنسو بہاتی آنکھیں بے ارادہ اٹھیں اور اس نے دیکھا کہ شیرو بھی دکان سے باہر شیلف سے ٹیک لگائے بیٹھا رو رہا ہے۔ شیرو کو روتے دیکھ کر جانی سوچ میں پڑگیا کہ خاری شاہ امام پاک اور اس کی شہزادی کی مظلومی پر آنسو بہا رہا ہے اور میں توہین کے الزام سے جان بچ جانے کی خوشی میں رو رہا ہوں یہ بدبخت شیرو نہ شیعہ ہے نہ سنی نہ مسلمان نہ کافر پھر کیوں نہ صرف رو رہا ہے بلکہ سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ مار کر ماتم بھی کر رہا ہے؟ شیرو کو دیکھتے دیکھتے اگلے چودہ منٹ گزر گئے۔

یہ لو شاہ جی۔ ہو گیا تیار۔ جانی نے کیسٹ ڈبی میں ڈالتے ہوئے شاہ جی کی طرف بڑھایا

خاری شاہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے کیسٹ ایک جیب میں ڈالا اور دوسری سے دس کا نوٹ نکال کے کاونٹر پر رکھتے ہوئے بولا

یارمیری کوئی بات تیرے دل کو بری لگی ہو تو سید سمجھ کے معاف کر دینا۔ تمہارے بابے ابن زیاد نے تو معاف نہیں کیا تھا تم کر دینا۔

سید بادشاہ جانی کا شجرہ ابن زیاد سے ملا کے دکان سے اتر گیا۔ جانی نے اس کے جانے پر خدا کا شکر ادا کیا اور دکان سے باہر بیٹھے شیرو کو آواز دی۔

باہر کیوں بیٹھا ہے۔ ادھر آ

جانی کی طرف سے اذن باریابی پا کر شیرو دکان میں داخل ہوا اور سلام دعا کے بعد اپنے جھولے میں ہاتھ ڈالا تہہ شدہ لال مخمل جانی کے سامنے رکھ کر جھجکتے ہوئے بولا

جانی لالہ یہ۔ چولی بنائی ہے

اوئے خدا کا خوف کر، میں کیا کروں گا اس چولی کا؟ ہیجڑوں کے ساتھ رہا ضرور ہوں لیکن ہیجڑہ نہیں ہوں۔ پورا مرد ہوں، تین بچے ہیں میرے۔ تو یہ چولی پہنا کے مجھے موت کے کنویں اور لکی رانی کے پھٹوں پر نچاناچاہتا ہے کیا؟ جانی نے شیرو کو آنکھیں دکھائیں

نہیں لالہ نہیں تمہارے لئے نہیں ہے، ٹیپ کی چولی ہے۔ شیر و نے ایک سانس میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے جلدی جلدی تہہ شدہ مخمل کھول دیا

اوئے پتہ ہے، پتہ ہے۔ مذاق کر رہا تھا۔ تو تو خوامخواہ ڈر گیا۔ جانی قہقہہ لگانے اور شیرو کے ڈرنے کا مزہ لینے کے بعد اس چولی کی خوبصورتی میں کھو گیا۔ وہ حیران ہو رہا تھا کہ شیرو نے کتنی نفاست سے رنگ رنگ کے موتی پرو کے کیسے کیسے چاند تارے اوربیل بوٹے کاڑھ رکھے تھے مخمل پر۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے چاند تاروں کے پیوند لگا کے مخمل کے اس بے جان ٹکرے میں میں روح پھونک دی ہو۔

تم تو کاریگر نکلے شیرو۔ لعنت بھیجو گدائی پر۔ میں تمہیں حنیف ٹیلر کے پاس بٹھوا دیتا ہوں۔ وہی اپنی کاریگری دکھاؤ اور نوٹوں میں نہاؤ زنانیاں عاشق ہوجائیں گی تمہارے کام پر۔ جانی نے اسے دولت اور عورت کا خواب ایک ساتھ دکھایا

نہیں جانی لالہ۔ گدائی میرے خون میں ہے۔ میراکیا لینا دینا ٹیلری سے۔ اپنے شوق سے بنائی ہے ڈبل کھڑکی کے لئے

میں نے سوچا اگر تمہاری اجازت ہو گی تو اسے پہنا کے دیکھ لیتا ہوں۔ تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو ٹھیک کر دوں۔ اندازے پر بنائی ہے ناں

شیرو نے لجاجت سے اپنی خواہش بیان کی

ایک شرط پر۔ جانی کی بات پر شیرو نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کے کہا

حکم کرو۔

حکم نہیں سوال ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ تو نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ نہ ابن زیاد کی نسل سے ہے اور نہ حسین پاک سے تیرا کوئی لینا دینا پھر کیوں رو رہا تھا نوحہ سن کر؟ جانی نے سرگوشی کی

حسین پاک کو نہیں، اپنی اماں کو رو رہا تھا۔ جانی نے آہستگی سے سیدھا اور سچا جواب دیا

جب ذاکرنے پڑھا ”تو شکل میڈی ماں دی ماحول بازاری ہیے“ تو اماں یاد آگئی۔ بالکل ڈبل کھڑکی ٹیپ کی طرح شکل تھی اس کی۔ وہ بھی کالی تھی یہ بھی کالا ہے۔ اس کو دیکھ کر بھی سکون ملتا تھا اسے دیکھ کر بھی دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ وہ لوریاں سناتی تھی یہ گانے سناتا ہے۔ کوئی فرق نہیں دونوں میں۔

جانی اس کا بے تکا جواب سن کر شیلف کی طرف بڑھ گیا اور ڈبے سے ٹیپ نکال کے کاونٹر پر رکھا۔ جانی نے بڑے چاؤ سے ٹیپ پر چولی چڑھائی۔ ایک ایک کر کے آگے پیچھے کے سارے ٹچ بٹن بندکیے ۔ اور پھر وہاں سے ہٹ کے دکان کے دروازے تک آیا اور دور سے اپنی محنت کو ناقدانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ جانی کو یوں لگا جیسے کاونٹر پر ٹیپ ریکارڈر نہیں رکھا بلکہ اپنے لباس عروسی میں ملبوس کوئی دلہن بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ حیران ہو رہا تھا کہ کس طرح شیرو نے اندازے کی پیمائشوں سے اتنا مکمل لباس تیار کیا ہے۔ مجال ہے جو ایک ستر کی کمی بیشی ہوئی ہو بٹنوں اور دو کھڑکیوں کے علاوہ سارا ٹیپ ریکارڈرمخمل میں چھپ گیا تھا۔

چولی تو بالکل فٹ بیٹھ گئی جانی لالہ۔ ہے ناں۔ شیرو نے خوش ہوکر جانی کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا

ہاں بالکل فٹ بیٹھی ہے۔ میری مان تو بھی بیٹھ جا حنیف ٹیلر کی دکان پر۔ نوٹ چھاپے گا نوٹ۔ جانی نے ایک بار پھر اسے مشورہ دیا

شیرو اس کے مشورے پر ہلکا سا مسکرایا اور چولی اتارنے کے لئے ٹیپ کی طرف بڑھ گیا۔ ابھی اس نے چولی کے ایک دو ٹچ بٹن ہی چٹخائے تھے کہ اس کے کانوں میں جانی کی آواز آئی

رک۔ مت اتار۔ اٹھا۔ لے جا اسے اپنے ساتھ

شیرو حیران ہو کر جانی کو دیکھے جا رہا تھا۔ جانی کے چہرے پر نہ سمجھ آنے والے تاثرات تھے۔ شیرو سمجھاکہ جانی ایک بار پھر اس سے مذاق کر رہا ہے۔ اس سے پہلے شیرو کچھ کہتا جانی سپاٹ لہجے میں بولا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi