دو کھڑکیوں والا نیشنل کا اصلی ٹیپ ریکارڈر


اگرروز کی ساری کمائی میرے پاس جمع کرا جائے گا تو کھائے گا کیا؟ دریا کی ریت؟ جانی نے کلکولیٹر اٹھایا اور اس کے بٹنوں پر جلدی جلدی ہاتھ مارنے لگا۔ پھر اس سولہ روپے شیرو کو واپس کرتے ہوئے اسے حساب سمجھایا

کل سے تو مجھے پندرہ دن تک پندرہ روپے دے گا تو تیری مہینے کی قسط پوری ہو جائے گی۔ روز نہیں آنا تو ہر دوسرے دن پندرہ دے جایا کر اس طرح مہینہ لگے گا ایک قسط میں۔

نہیں لالہ روز والا حساب ٹھیک ہے قرضہ جتنی جلدی اتر جائے اتنا ٹھیک ہے۔ شیرو نے اپنا فیصلہ سنایا اور سلام کر کے دکان سے اترگیا

اب شیرو کا یہی معمول ہو گیا کہ وہ صبح میرے پاس اپنی امانت رکھا کے جاتا اور دوپہر کو سکول بند ہونے سے پہلے پہنچ جاتا۔ میں نے اسے کئی بار کہا کہ وہ آرام سے آیا کرے مجھے کون سا اتنی جلدی واپس جانا ہوتا ہے۔ میں تو کہیں پانچ چھ بجے واپس جاتا تھا لیکن شیرو ٹائم کا پابند آدمی تھا وہ روزانہ دو بجے اپنی امانت لینے پہنچ جاتا تھا۔ آج شیرو کے جانے کے بعد پریشانی میں ڈوبا رانجھن نمبردار سکول آیا میں نے وجہ پوچھی تو اس نے ٹھنڈی آہ بھر کی اپنی بات شروع کی

بگی کی جوانی جھونپڑے کی چھت سے لگنے لگی ہے ماشٹر۔ جلدی جلدی وہ کسی اور کی ذمے داری ہو جائے تو اچھا ہے۔ ملکوں کے لڑکوں کی نظر پڑ گئی تو کام خراب ہو جائے گا۔ اس کی شادی ہو جائے تو وہ جانے اس کا مرد اور ملکوں کے لڑکے۔ میں تو آزاد ہو جاؤں گا ناں۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ اپنا وزن سر سے اتار کے کسی اور کے سر پر رکھنا چاہتا ہو۔

تم کیوں اچانک اس کی شادی کے پیچھے پڑ گئے ہو۔ ابھی تو وہ بہت چھوٹی ہے نمبردار۔ معصوم ہے۔ تم کسی کے ساتھ اس کی منگنی کر دو شادی نہ کرو ابھی۔ میں نے اپنی رائے دی

وہ شادی مانگتی ہے۔ اس کے کرتوت یہی بتا رہے ہیں۔ پیر کھل گئے ہیں اس کے۔ تین مہینے کا پھل ہے اس کے پیٹ میں۔

اس نے اتنی آسانی سے یہ بات کہہ دی جیسے وہ اپنی بیٹی کی نہیں کسی بکری کی بات کر رہا ہو

ہو گا کسی ملک کا۔ اب ہو گیا ہے تو کیا کر سکتے ہیں۔ کسی سے اس کی شادی ہی کرنی ہو گی۔ میں اس لئے تمہارے پاس آیا ہوں

اس کی یہ بات مجھ پر بم بن کر گری اور مجھے لگا وہ ابھی مجھ سے کہے گا کہ میری بیٹی سے شادی کر لو لیکن اللہ کا شکر ہے اس کے دماغ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی

میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ شیرو کے پاس چلو۔ وہ تمہارے احسان کے نیچے ہے تمہاری بات نہیں ٹالے گا اور میں اس کا نمبردار ہوں، میری بات بھی مانے گا۔

اگلے دس منٹ میں ہم دونوں شیرو کے جھونپڑے میں تھے۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا نمبردار اسے اپنا داماد بنانا چاہتا ہے

دیکھ شیرو تو چاچے قادے کے رشتے سے میرا بھتیجا لگتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اپنی لڑکی خاندان کے باہر دوں اس لئے تیرے پاس بیٹھا ہوں۔ میرا تو خیال تھا کہ دو چار سال بعد شادی کروں گا بگی کی۔ ابھی عمر ہی کیا ہے اس کی۔ لیکن ماشٹر کہہ رہا ہے کہ نیک کام میں دیر نہ کروں۔ اسی نے مجھے تیرا نام دیا ہے کہ جب رشتہ گھر میں موجود ہے تو زیادہ سوچنا ٹھیک نہیں ہے۔ پھر وہ مجھ سے ہمکلام ہوا

دیکھ ماشٹر تمہارے مشورے سے تمہاری مان کے یہاں تک آیا ہوں تم نے ہی کہا تھا شیرو تمہارا یار ہے۔ تم ہی نے اس کا نام لیا تھا میرے سامنے۔ تمہارے کہنے پر میں نے اس کے سامنے اپنی معصوم بیٹی کا نام رکھ دیا ہے اب آگے قسمت یا نصیب۔ تمہارا یار جو عزت ذلت دے گا لے کے چلے جائیں گے۔

میں حیران تھا کہ نمبردار بھی کیا چیز ہے۔ کیسے سارا ملبہ مجھ پر ڈال کے شیرو کو اپنے دام میں پھنسا رہا ہے۔ خدا گواہ ہے اگر وہ دو جماعتیں پڑھ لیتا اور مسلمان ہوتا تو آج ملک پر جنرل ضیاء کی بجائے اس کی حکومت ہوتی۔

کیسی بات کرتے ہو چاچا تم نے مجھے جو عزت دی ہے میں تو اس کے قابل بھی نہیں۔ شیرو چھری کے نیچے آئے بکرے کی طرح منمنایا

تم دونوں میرے بڑے ہو۔ ماشٹر کا مجھ پر احسان ہے تم میرے بزرگ ہو۔ میرے لئے جو فیصلہ کرو گے مجھے منظور ہے۔

شیرو نے بات پوری کر کے تابعدار شاگرد کی طرح نظرجھکائی اور نمبردار نے وہیں سے اپنی بات اٹھائی

مجھے تجھ سے یہی امید تھی۔ شیر کا بچہ ہے تو شیر کا۔ دو دن بعد خیر سے جمعہ ہے۔ لے جا اپنی امانت۔ رانجھن نے اپنا فیصلہ سنایا

چاچا میرے پاس تو ابھی کچھ بھی نہیں ہے۔ شادی کیسے کروں گا اتنی جلدی؟ شیرو کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آرہی تھی

تیرے پاس اپنی کلکی ہے، چارپائی ہے اور کیا چاہیے تجھے شادی کے لئے۔ رانجھن نے اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے پوچھا

مجھے نہیں تمہیں چاہیے ہو گا ناں چاچا۔ رواج کی بات ہے۔ نہیں تو کل کو سارے کیہل بگی کو طعنے دیں کہ تجھ پر تو تیرے مرد نے تجھ پر ایک روپیہ بھی نہیں لگایا۔ شیرو نے شرم اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات میں اپنی بات پوری کی

کیہل قبیلے کا دستور ہے کہ لڑکی والے اپنی بیٹی کو جہیز کے نام پر ایک تنکا بھی نہیں دیتے۔ بلکہ لڑکے کو اپنے گھر کا ایک ایک تنکا لڑکی کے ماں باپ کو دینا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کے لڑکی اس کے جھونپڑے میں آتی ہے۔

بات تو تیری بات سولہ آنے ٹھیک ہے کہ رواج پورے کرنے ہوں گے۔ تاکہ نہ تجھے کوئی طعنہ دے نہ تیری بیوی کو نہ تیرے بچوں کو۔ اس لئے ماشٹر کے مشورے کے مطابق میں تجھے تیرے ٹیپ ریکارڈر کے بدلے بگی دینے کا اعلان کرتا ہوں۔

دو دن بعد بے داغ ٹیپ ریکارڈر رانجھن کے جھونپڑے میں تھا اور داغدار بگی شیرو کے جھونپڑے میں۔ نہ کسی کو حیرانی ہوئی نہ کوئی پریشانی یہاں شادیاں ایسے ہی ہوتی ہیں۔ مردوں نے ایک دوسرے سے بات کی۔ معاملات طے ہوئے اور شادی ہوگئی۔ رانجھن نے جس سکیم سے اس سارے معاملے کو قابو کیا وہ شیطان کے دماغ میں بھی نہیں ہوگی۔ چار باتوں میں ہی اس نے اپنی مٹی کو سونے کا ہار بنا کے شیرو کے گلے میں لٹکا دیا۔ شہر میں اگر ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو ابھی تک غیرت مند باپ بیٹی کو بھی قتل کر چکا ہوتا اور اس آدمی کو بھی جس کے ساتھ بیٹی نے منہ کالا کیا تھا۔ لیکن دریا کے پار ایسا نہیں ہوتا۔ میرا تو خیال ہے کہ خدا نے ان لوگوں کو مٹی سے نہیں دریائی ریت سے بنایا ہے۔ جس طرح ریت سارا پانی پی جاتی ہے یہ دریا کے بیٹے بھی بڑی سے بڑی بے غیرتی کو پی جاتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi