سلطان پورہ کے دوہرے قتل کا اصل قصہ کیا تھا؟


کالونی بنانے کے لئے جگہ کی تلاش شروع ہو گئی۔ دفتر میں اس کام کے لئے مخصوص لوگ نئی نئی جگہیں تلاش کر کے رپورٹ کرنے لگے۔ مگر احمد حسن کو ان میں سے کوئی جگہ پسند نہیں آ رہی تھی۔ دراصل وہ ایسی جگہ کی تلاش میں تھا جہاں بننے والی کالونی کے گندے پانی کا نکاس مناسب طریقے سے ہو سکے۔ بورڈ کے باقی ممبران کو اس کی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، مگر وہ اس کی رائے سے اختلاف کی ہمت بھی نہیں رکھتے تھے۔

بالآخر اس بڑے شہر سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر انہیں ایسی چار مربع اراضی کی آفر ہوئی جو لب سڑک بھی تھی اور اگر وہاں کالونی بنائی جاتی تو گندے پانی کے نکاس کا معقول بندوبست بھی ہو سکتا تھا۔ دراصل اس اراضی سے متصل ایک دریا کی پرانی گزر گاہ تھی۔ دریا تو اپنا راستہ بدل کر کافی دور جا چکا تھا مگر اس کی یہ پرانی گزرگاہ ابھی باقی تھی۔ احمد حسن نے سائٹ کا معائنہ کیا تو اسے یہ جگہ آئیڈیل لگی۔ دریا کے اس پرانے راستے کے آس پاس اور بہت دور تک سارا علاقہ ویران تھا۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں فصلیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔

چونکہ یہ جگہ سرکاری ملکیت تھی اس لئے احمد حسن نے متعلقہ محکمہ سے رابطہ کر کے اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔ افسر انچارج نے احمد حسن سے وعدہ کر لیا کہ اگر اس کی کمپنی یہ رہائشی سکیم بنائے گی تو اسے گندے پانی کے نکاس کے لئے یہ راستہ دے دیا جائے گا۔

سو، فرینڈز کنسٹرکشن کمپنی نے یہ چار مربع اراضی خرید لی تو انہیں متعلقہ محکمہ کی طرف سے مطلوبہ اجازت نامہ جاری کر دیا گیا۔ احمد حسن کی تجویز پر اس کالونی کا نام سلطان پور رکھا گیا۔ اس کا استدلال تھا کہ کالونی کا نام ایسا ہونا چاہیے کہ مزدور، ہنرمند اور کاریگر لوگ بھی وہاں رہتے ہوئے فخر محسوس کریں۔

ابتداء میں دو مربع اراضی پر کالونی بنانا طے پایا اور باقی دو مربع اراضی پر ڈیری فارم، لائیو سٹاک فارم اور پولٹری فارم کی بنیاد رکھ دی گئی۔ کمپنی کے پاس نہ تو پیسے کی کمی تھی نہ دیگر ذرائع کی، کام تیزی سے انجام پانے لگے۔ کنسٹرکشن کا کام کرنے والوں کے لئے عارضی رہائش کا بندوبست کر کے سب سے پہلے ایک معقول سی مسجد تعمیر کی گئی۔ پھر لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے پرائمری سے لے کر ہائی سکول کی کلاسوں تک، سکولوں کی عمارتیں اور بعد ازاں ایک ڈسپنسری کی عمارت تعمیر کی گئی۔ پھر بچوں کے کھیلنے کے لئے ایک پارک بھی۔ یہ سب کام ایک سال کے اندر اندر انجام پا گیا تو اس کالونی کی شہرت بھی آس پاس کے تمام علاقوں تک پھیل گئی۔

پھر سلطان پور میں تین مرلہ سے لے کر پانچ مرلہ تک کے گھر بننے لگے اور اخباروں میں آسان قسطوں پر فروخت کے اشتہار بھی شائع ہونا شروع ہو گئے۔ کئی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھ کر ادھر کے روٹ پر مٹ لے لئے۔ چھ مہینے کے اندر اندر تمام مکانات بک چکے تھے اور لوگ آہستہ آہستہ ان کا قبضہ بھی لینے لگے تھے۔

اب مختصر سی بات احمد حسن کی پرائیویٹ زندگی کی۔

بے شک شادی سے پہلے ہی اس نے اپنی بیوی کو اپنی آئندہ کی زندگی اور مصروفیات کے بارے آگاہ کر دیا تھا مگر پھر بھی ہفتہ اور اتوار وہ بیوی اور خاندان کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔ باقی دنوں میں بھی انتہائی مصروفیت کے باوجود وہ کبھی کبھار ہی رات باہر رہتا تھا۔ اس لئے ابھی تک اس کی بیوی کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی۔ اور خاندان کے باقی افراد بھی خوش تھے۔

واپس سلطان پور کی طرف۔

جب پانچ چھ سو خاندان سلطان پور میں آ چکے تو احمد حسن کو یہاں کے انتظامات کی فکر ہوئی۔ پروگرام بے شک پہلے سے طے تھا لیکن اب عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔ ”سلطان پور کواپریٹو سوسائٹی“ کے نام سے سوسائٹی رجسٹر کرائی گئی، جس کی انتظامیہ فی الحال فرینڈز کنسٹرکشن کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران پر ہی مشتمل تھی مگر آگے چل کر سلطان پور سے نمائندے لینے کا پروگرام بھی شامل تھا۔ فروخت کیے جا چکے مکانات کے علاوہ باقی ہر چیز ابھی بھی فرینڈز کنسٹرکشن کمپنی کی ملکیت تھی، اس لئے حتمی اختیارات بھی ابھی تک اسی کے پاس تھے۔

احمد حسن کا ایک دفتر سلطان پور میں پہلے سے موجود تھا اور سوسائٹی کے لئے سکیم میں موجود دفتر بھی اب تعمیر ہو گیا تھا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے علاوہ سوسائٹی کی انتظامیہ کا، سیکورٹی سمیت تمام عملہ ملازم رکھا گیا تھا۔ جس کے تمام اخراجات فی الحال فرینڈز کنسٹرکشن کمپنی ہی ادا کر رہی تھی۔ مکانات کی فروخت کے وقت احمد حسن نے اپنے طور پر پوری کوشش کی تھی کہ صرف جائز ضرورت مند ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ دکانوں کے خریداروں کی بھی اس نے جس حد تک ہو سکا پڑتال کی تھی کہ مناسب لوگ ہوں۔

اس لئے آغاز میں کالونی کا ماحول بھی پرامن تھا۔ مزدور، ہنر مند اور کاریگر لوگ جن کی اکثریت پہلے اسی شہر میں کرائے کے مکانوں میں رہتی تھی، سب سادہ لوح لوگ تھے۔ تقریباً سب ہی صبح کے وقت اپنی سائیکلوں، موٹر بائک وغیرہ یا بسوں پر سوار کام کے لئے نکل جاتے اور شام کو ہی واپس آتے تھے۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ تو یوں بھی ابھی کنوارے ہی تھے اور باقیوں میں سے بھی ابھی سب بیوی بچوں کو یہاں نہیں لائے تھے۔ ایک اچھی کالونی کے طور پر سلطان پور کی شہرت پورے علاقے میں پھیل گئی تو فرینڈز کنسٹرکشن کمپنی نے ڈیری فارم کے علاوہ دوسرے فارمز بھی مزید زمین حاصل کر کے کچھ دور منتقل کر دیے اور باقی دو مربع اراضی پر بھی سلطان پور کی طرز کے مکانات اور دکانیں تعمیر کر دیں اور اسے بھی سلطان پور میں شامل کر دیا۔

یہ دکانیں اور مکانات بھی جلد ہی فروخت ہو گئے۔ چار مربع اراضی پر پھیلی ہوئی سلطان پور نام کی یہ کالونی تین سال کے اندر پوری آباد ہو گئی۔ آبادی بڑھی تو چھوٹے موٹے مسائل بھی پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلا مسئلہ مسجد کے بارے آیا۔ اب تک تو نماز کے وقت جو بھی معقول آدمی وہاں موجود ہوتا وہ امامت کا فرض نبھا دیتا لیکن اب باقاعدہ امام مسجد کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی، جو مطالبے کی شکل اختیار کر گئی۔ احمد حسن نے پہلے اس بارے سوچا ہی نہیں تھا اور یہ بقول اس کے، اس کی بہت بڑی غلطی تھی۔

اب بات شروع ہوئی تو کئی نام سوسائٹی انتظامیہ کے پاس آئے مگر جب ان کے بارے غور کیا گیا تو سب معمولی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ نماز اور دیگر مذہبی رسوم کی ادائیگی سے تو واقف تھے لیکن خود مذہب کے بارے بھی ان کا علم بہت محدود تھا۔ دوسرے علوم کی تو ان کو خبر ہی نہیں تھی۔ احمد حسن کی خواہش تھی کہ امام مسجد کے لئے کسی عالم دین کا انتخاب کیا جائے۔ مگر کالونی کے لوگ اب اور انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یوں قرعہ فال مولوی کفایت اللہ کے نام نکل آیا۔

(کہانی سناتے ہوئے اس مقام پر احمد حسن نے کہا ”بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ایک کم علم امام مسجد، مذہب اور سوسائٹی دونوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے“ )

مولوی کفایت اللہ کے مسجد سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ہی سوسائٹی کی انتظامیہ میں سلطان پور کی طرف سے دو نمائندوں کا اضافہ ہو گیا۔ یوں اس انتظامیہ کے ممبران کی تعداد سات ہو گئی۔ کسی بھی طرح کے انتظامی فیصلوں کے لئے ہر ممبر کو برابر کا اختیار حاصل تھا۔ لیکن آخری فیصلے کا حق یا کسی بھی فیصلے کو رد کرنے کی طاقت صرف احمد حسن کے پاس تھی۔

احمد حسن خود بھی گھوم پھر کر کالونی کے حالات کی خبر لیتا رہتا تھا۔ پاکستان میں اس طرح کے کام کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا اس لئے اس نے ایک غیر محسوس طریقے سے وہاں کئی لوگوں کو اپنی مدد کے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔ جو اسے ہر طرح کے مسائل سے با خبر رکھتے تھے۔ یوں بھی وقتاً فوقتاً اسے چند دن کے لئے اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے دفتر بھی جانا پڑتا تھا۔

سلطان پور کی کامیابی نے دوسرے سرمایہ کاروں کو ترغیب دی اور سلطان پور کے آس پاس نئی نئی کالونیاں بننے لگیں۔ علاقے کی زمینوں کی قیمتیں غیر معمولی طور پر بڑھ گئیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ کی زمینوں والے لوگ اپنی زمینیں بیچ کر یا تو دور دراز جانے لگے یا انہوں نے شہر میں جا کر کاروبار شروع کر لئے۔ اور وہ شہر جو سلطان پور سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اب جیسے اس کے قریب قریب آنے لگا۔ مگر یہ بعد کی بات ہے۔

اس سے پہلے جب ابھی سلطان پور کی عمر پورے چار سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ احمد حسن کے کسی معاون نے اسے خبر دی کہ کچھ دیر سے کالونی میں ایک زچہ بچہ سنٹر کھلا ہے۔ جہاں دراصل جسم فروشی کا دھندا ہوتا ہے۔

احمد حسن کی زندگی کا اہم حصہ تو انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں گزرا تھا جو ہر طرح کے حالات سے گزر کر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس کاروبار کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ جو بھی ہو وہ قانون کی نگرانی میں ہو۔ مذہب تو ان کا بھی اس کام کی اجازت نہیں دیتا تھا مگر انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا۔ احمد حسن کا بھی یہی خیال تھا جسم فروشی اگر کہیں ہو بھی تو غیر قانونی طریقوں سے نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ غیر قانونی طریقے اور بہت سی خرابیوں کو بنیاد فراہم کر دیتے ہیں۔ اس نے اپنے اسی معاون کے ذریعے جس نے اسے یہ خبر دی تھی، اس سنٹر کی کرتا دھرتا میڈم عارفہ حیات کو ملاقات کے لئے بلایا کہ حالات سے مکمل آگاہی حاصل کر سکے۔

میڈم عارفہ حیات جو خود بھی ایک بارعب شخصیت کی مالک تھی، اپنے جیسے ڈیل ڈول کی دو اور خواتین کے ہمراہ احمد حسن کے دفتر میں پہنچی۔ وہاں انہیں بہت عزت سے بٹھایا گیا اور چائے وغیرہ سے مدارات بھی کی گئی۔ چائے ختم ہونے پر احمد حسن بولا

”میڈم مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے“

”آپ ان کے سامنے کوئی بھی بات کر سکتے ہیں۔ یہ میری معاونین ہیں۔ میرا ان سے کوئی پردہ نہیں ہے“ اس نے جواب دیا۔

”آپ بعد میں چاہے ساری دنیا کو بھی بتا دیں، لیکن میری گفتگو ایک بار آپ کے ساتھ اکیلے میں ہی ہو گی۔ اگر آپ مجھے اس قابل سمجھیں تو“ احمد حسن نے جیسے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ”کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ جیسا آپ پسند کریں“ پھر دونوں خواتین سے مخاطب ہوئی ”تم دونوں ذرا باہر بیٹھو، میں صاحب کی بات سن لوں“

دونوں خواتین اٹھیں تو احمد حسن کے معاون نے انہیں لے جا کر دوسرے کمرے میں بٹھا دیا۔ بعد میں میڈم نے احمد حسن کو دیکھا ”لیجیے اب تو میں بالکل اکیلی ہوں“

”میڈم! میں آپ سے جو بھی بات کرنے جا رہا ہوں یہ صرف میرے اور آپ کے درمیان ہے اور جب تک آپ چاہیں گی ہمارے درمیان ہی رہے گی۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ موضوع کیسا بھی ہو اور گفتگو کسی سے بھی ہو رہی ہو، میں تمیز کے دائرے میں رہوں۔ میں آپ سے بھی یہی امید رکھتا ہوں“ احمد حسن نے تمہید ضروری سمجھی۔

”میں آپ کی توقع پر پورا اترنے کی کوشش کروں گی“ میڈم بہت اطمینان سے بیٹھی تھی۔ احمد حسن نے کہا ”مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کے زچہ بچہ مرکز میں کچھ غیر قانونی کام بھی ہو رہے ہیں“

”جی نہیں ہمارے مرکز میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا“ میڈم نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments