سلطان پورہ کے دوہرے قتل کا اصل قصہ کیا تھا؟


دوسرا کام ہم یہ کر رہے ہیں کہ ہماری کمپنی کی طرف سے کئی دینی مدارس کی مالی امداد ہو رہی ہے اور اسی بنیاد پر وہ اپنے طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین بھی پڑھا پا رہے ہیں۔ فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ان طلبہ کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی معقول حد تک علم حاصل کریں۔ ہمارا خیال ہے کہ اصلاحات کا کام گلی محلے کی مسجد سے شروع ہونا چاہیے جس کے لئے ہر مسجد میں ایسے پیش امام کی ضرورت ہے جو پڑھا لکھا ہو، ہر طرح کا علم رکھتا ہو اور اسے اپنے عہدے کی اہمیت کا درست طور پر احساس بھی ہو تاکہ وہ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے پرہیز کرے۔ اس کے علاوہ ہمارے ڈیری فارمز اور لائیو سٹاک فارمز بھی اپنا کام نہایت ذمہ داری سے انجام دے رہے ہیں۔ ہم سو فیصد خالص مال دوسروں سے سستے داموں فروخت کر کے بھی نفع کما رہے ہیں ”۔

خالد عثمانی نے اس کے جذبے کو سراہا اور یوں دونوں کی ملاقات انجام پذیر ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس کہانی میں احمد حسن کا کردار بھی ختم ہو گیا۔

اب آئیے واپس سلطان پور کی طرف، جو ہر جگہ اب سلطان پورہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن دوہرے قتل کی اس واردات سے پہلے اور احمد حسن کے وہاں سے نکل جانے کے بعد سلطان پورہ پر کیا گزری؟

احمد حسن سے زمینیں خرید کر ایک دوسرا گروہ بھی یہاں آباد ہو گیا۔ بچوں کی پارک کی جگہ پر ایک بڑا پلازہ بن گیا۔ جس کے نچلے حصے میں دکانیں تھیں اور اوپر بہت سے فلیٹ۔ اس پلازہ سمیت جب اس گروہ نے اپنے دوسرے مکانات وغیرہ بھی بنا لئے تو انہوں نے خوب شور مچایا اور انتظامی کمیٹی میں تین افراد کی ممبری حاصل کر لی۔ پھر ایک اور گروپ نے اپنے دو ممبر اس میں شامل کرا لئے اور یوں یہ انتظامی کمیٹی نو ممبران تک پھیل گئی۔

ممبران کی تعداد تو بڑھ گئی لیکن اس کوآپریٹو سوسائٹی کا اکاؤنٹ خالی ہونے لگا اور اس کے ساتھ ہی انتظامیہ کے ملازمین میں کمی ہونے لگی۔ سب سے پہلے سیکورٹی کا شعبہ بند کرنا پڑا اور پھر کچھ دوسرے ڈیپارٹمنٹ۔ یہاں تک کہ تنگ آ کر انتظامی کمیٹی نے کالونی کے تمام انتظام انصرام بلدیہ کے حوالے کر دیے۔ اب سلطان پورہ منشیات اور غیر قانونی اسلحہ کی خریدو فروخت کا گڑھ بن گیا۔

دوسرے علاقوں کے لوگ بھی ایسی ہر خریداری کے لئے یہاں آنے لگے۔ آرٹس کارنر کا بزنس بھی خوب پھولنے پھلنے لگا۔ اب وہاں شراب سمیت ہر قسم کی منشیات آسانی سے حاصل ہو جاتی تھیں۔ شریف لوگ اس کالونی کو چھوڑ کر جانے لگے۔ آئے دن یہاں گولیاں چلنے لگیں اور پولیس کی آمد آمد بھی۔ کچھ تو پولیس کے ہاتھ شواہد ہی کم آتے تھے کہ کبھی کوئی فرد ٹھوس گواہی کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ ذاتی دشمنیوں کے فیصلے بھی وہ خود ہی کرنا چاہتے تھے۔

لیکن اگر کوئی پولیس کو گواہی دے بھی دیتا تو وہ یا تو عدالت تک پہنچ ہی نہ پاتا یا پھر وہاں جا کر اپنی گواہی سے مکر جاتا۔ پولیس میں جو رشوت خور لوگ تھے ان کی موج لگی ہوئی تھی۔ خاص طور پر جب وہاں کوئی قتل ہو جاتا (جو کہ ہوتا ہی رہتا تھا) تو کئی کئی ہفتے تک پولیس پارٹی وہاں ڈیرے جمائے رکھتی۔ اور خود کو چودھری ثابت کرنے کی کوشش میں کئی لوگ صبح شام ان کی خدمت پر مامور رہتے۔

یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا کہ مولوی کفایت اللہ اور زاہدہ ثنا کا قتل ہو گیا۔ پولیس کی جس ٹیم کو اس دوہرے قتل کی تفتیش کی ذمہ داری سونپی گئی اس کا سربراہ رانا حیدر سلیم نام کا ایک فل انسپکٹر تھا۔ رانا حیدر سلیم، بی۔ اے۔ کرنے کے بعد ڈائریکٹ اے ایس آئی بھرتی ہوا تھا۔ محکمہ میں اسے ایک سر پھرا افسر سمجھا جاتا تھا۔ ایک تعلیم یافتہ پولیس افسر ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں پرانے خاندانی روسا والی کئی خوبیاں خامیاں بھی تھیں۔

وہ ایماندار تھا، پر جوش تھا، رشوت نہیں لیتا تھا مگر اسے غصہ بھی بہت آتا تھا۔ اسی غصے میں وہ کبھی کبھی اپنے سینیئر افسروں سے بھی جھگڑ بیٹھتا تھا، اور اس کے عہدے کی تنزلی ہو جاتی تھی۔ یہ اور بات کہ وہ پھر کوئی بہادری، فہم و فراست اور جرات کا مظاہرہ کرتا اور پھر سے اس کی ترقی ہو جاتی۔ وہ اب تک کم ازکم تین بار انسپکٹر سے تنزلی کا شکار ہوتے ہوئے اے ایس آئی کے عہدے پر پہنچ چکا تھا مگر پھر ترقی کرتے کرتے فل انسپکٹر ہو گیا تھا۔ جب اس نے اس دوہرے قتل کی تفتیش کا آغاز کیا تو چند ہی دنوں میں اسے اصل قاتل کا سراغ مل گیا تھا۔ اصل قاتل وحید اللہ کی داستان کچھ یوں تھی۔

وہ ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ میٹرک کے بعد اس نے ایک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے پہلے الیکٹریشن کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ پھر اس نے فریج، واشنگ مشین اور ائرکنڈیشنر کی مرمت سیکھی۔ کچھ دیر ایسی ایک فرم میں ملازمت کی اور پھر اپنا ذاتی کاروبار شروع کر لیا۔ اب وہ اچھا خاصا کما لیتا تھا سو وہ سلطان پورہ میں پانچ مرلے کا ایک مکان خرید کر وہاں رہنے لگا۔ سرکاری طور پر بے شک یہ کالونی اب بلدیہ کا حصہ تھی لیکن غیر سرکاری انداز میں یہاں مولوی کفایت اللہ، چوہدری کرم الٰہی اور اسی قبیل کے کئی دوسرے جرائم پیشہ لوگوں کا راج تھا۔ شہر میں ایک دلال کے ذریعے وحید کی ملاقات زاہدہ ثنا سے ہوئی۔ دو چار بار تو وہ اسے شہر کے کسی ہوٹل میں لے گیا۔ پھر کئی بار دن میں دونوں شاپنگ کرتے اور ریسٹورانٹ وغیرہ میں بھی بیٹھتے رہے۔ زاہدہ اس دھندے سے نکلنا چاہتی تھی اور وحید کو وہ پسند آ گئی تھی۔ یوں ایک دن جب وہ شاپنگ کے بہانے وحید سے ملی تو جیسا کہ پہلے سے پروگرام بنا رکھا تھا، انہوں نے ایک مسجد میں جا کر نکاح کر لیا۔ نکاح کے بعد وہ وحید کے ساتھ سلطان پورہ میں رہنے لگی۔ زاہدہ کے ماں باپ نے ہر طور طریقہ استعمال کر کے اسے واپس لانے کی کوشش کی، کہ وہ ان کی کمائی کا واحد ذریعہ تھی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔

وحید نے نکاح رجسٹر کرا کے، ایک کاپی علاقائی تھانے اور سلطان پورہ کے دفتر میں بھی جمع کرا دی تھی۔ زاہدہ بائیس سال کی بالغ لڑکی تھی، سو اس کے ماں باپ کا کوئی بس نہ چلا۔ پھر کسی نے ان کی ملاقات کرم الٰہی سے کرا دی۔ کرم الٰہی نے کفایت اللہ کے ساتھ مل کر کہ اب جو سلطان پورہ کا غیرعلانیہ لیڈر سمجھا جاتا تھا، وحید اور زاہدہ کو اتنا مجبور کر دیا کہ وہ دونوں علیحدہ ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ زاہدہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی اور انہوں نے اسے پھر سے دھندے پر لگا دیا۔

کفایت اللہ کو وہ مفت میں حاصل ہونے لگی۔ وحید کو جلد ہی خبر ہو گئی اور وہ مولوی کفایت اللہ سے انتقام لینے کے منصوبے بنانے لگا۔ پھر اس رات جب وہ مسجد کے حجرے میں اپنا جسم مولوی کے حوالے کیے ہوئے تھی، وحید نے پے در پے گولیوں سے دونوں کا کام تمام کر دیا۔ واردات کے بعد ملک سے فرار ہونے کی تیاریاں اس نے پہلے سے مکمل کر چھوڑی تھیں۔ سو اس کے بعد اس نے ملک چھوڑ دیا۔ اپنے گاؤں میں گھر والوں کو اس نے پہلے سے اتنے پیسے دے رکھے تھے کہ وہ اپنی ضرورت کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ وکیل کر سکیں۔ سو ان پر غیر قانونی طریقے سے دباؤ ڈالنے کے لئے بھی تمام راستے بند تھے۔

انسپکٹر رانا حیدر سلیم کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ وہ اب اصلی مجرم کو گرفتار نہیں کر سکے گا، مگر وہ سلطان پور کے حالات سے بھی آگاہ تھا۔ وہ اس دوہرے قتل کی تفتیش کا سہارا لے کر دوسرے مجرموں کا قلع قمع کرنے کے درپئے تھا۔ وہ کبھی آدھی رات کو کبھی صبح چار پانچ بجے کے قریب چھاپہ مار کر منشیات اور ناجائز اسلحہ برآمد کرتا چلا جا رہا تھا۔ چودھری کرم الٰہی سمیت کئی گرفتار ملزم اپنے جرائم کا اقرار کر چکے تھے اور کئی وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے آدھا سلطان پورہ اس کے زیر عتاب آ چکا تھا۔

اسی دور ان میں آئی جی پولیس نے اس کے تھانے کا ہنگامی دورہ کیا۔ اس کے کام کو سراہا، اسے تعریفی اسناد دیں اور اس کو ترقی دے کر ڈی ایس پی بنا دیا گیا۔ اسے حکم دیا گیا تھا کہ وہ دوسرے دن ہی ہیڈ کوارٹر میں رپورٹ کرے، تاکہ ڈی ایس پی کے طور پر تعیناتی سے پہلے وہ ضروری تربیت حاصل کر سکے۔

رانا حیدر سلیم کے ترقی پا کر اس تھانے سے جانے کے چند دن بعد ہی سلطان پورہ سے گرفتار کیے گئے ملزمان کی باری باری ضمانتیں منظور ہونے لگیں۔ قتل کے موقع واردات پر پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی کسی نے جو تصاویر بنا لی تھیں وہ بھی اخباروں وغیرہ کو موصول ہو گئیں اور انہوں نے جس حد تک ممکن تھیں، شائع بھی کر دیں۔ یہ اور بات کہ دوہرے قتل کا یہ مقدمہ بھی بالآخر داخل دفتر کر دیا گیا۔

اب سلطان پورہ کا پھر وہی حال ہے۔ یہاں منشیات اور اسلحہ سمیت ہر قسم کا غیر قانونی کاروبار ہوتا ہے، اس لئے لڑائی جھگڑے یہاں کی زندگی کا معمول ہیں۔ یہاں مقیم جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان اکثر پستول بندوق یا کلاشنکوف کی گولیوں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی بے گناہ بھی ان کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ تین مہینے میں ایک آدھ قتل تو جیسے یہاں کی زندگی کا حصہ ہے۔ اور اگر ان گروہوں کے درمیان لمبی جنگ چھڑ جائے تو لاشوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ پولیس کا آنا جانا تو خیر لگا ہی رہتا ہے۔ البتہ ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے انہیں پھر سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں کی مسجد کا پیش امام اب مولوی کفایت اللہ کا بیٹا مولوی برکت اللہ ہے۔ جو تعلیم میں تو باپ سے بھی کچھ پیچھے ہی ہے لیکن کارناموں میں باپ سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments