سلطان پورہ کے دوہرے قتل کا اصل قصہ کیا تھا؟


”میری معلومات کہتی ہیں کہ پاکستان کے قانون کے مطابق جسم فروشی غیر قانونی ہے“

”لیکن اسی قانون کے مطابق آپ کسی کے گھر اور خاص طور پر اس کے بیڈروم میں نہیں گھس سکتے۔ جبکہ جسم فروشی جو کہ زنا کے ضمن میں آتی ہے کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لئے کم از کم چار بالغ باہوش اور چشم دید گواہوں کی ضرورت پڑتی ہے“

”آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ کام تو ہو رہا ہے لیکن اگر کوئی الزام لگائے تو ثابت نہیں کر سکے گا“

”جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، پولیس اور قانون کے دیگر اداروں سے میری آنکھ مچولی چل رہی ہے۔ اکثر جو افسر حضرات مجھے پکڑنے آتے ہیں وہ بعد میں میرے دوست بن جاتے ہیں“

”میڈم! میں نے قانون کی بات آپ کو ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ آپ کی مدد طلب کرنے کے لئے کی ہے، میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جسم فروشی کا بزنس کبھی مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں بھی اس کا اعتراف کرتی ہیں۔ اسی لئے وہ چاہتی ہیں کہ جو کچھ بھی ہو قانون کی نگرانی میں ہو۔ تاکہ دیگر جرائم جو اس کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں ان سے بچا جا سکے“

”پہلے تو آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس طرح آپ کو اس کالونی کے گندے پانی کے نکاس کی فکر تھی، اسی طرح ہر معاشرے کو بھی اپنی گندگی کے نکاس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہم لوگ یہی کام کرتے ہیں۔ اگر ہم نہیں ہوں گے تو یہاں کے وہ مرد جو بیویوں کے بغیر رہ رہے ہیں وہ دوسرے گھروں میں عورتوں کو جھانکیں گے۔ پھر کئی گھروں میں لڑائی جھگڑے ہوں گے اور کئی عورتیں خوار ہوں گی۔ سو ایک طرح سے میں تو آپ کی مدد ہی کر رہی ہوں۔ لیکن اگر آپ کو پھر بھی میری طرف سے کسی اور تعاون کی ضرورت ہے تو میں حاضر ہوں“ میڈم کے لہجے میں فخر کا عنصر نمایاں تھا ”بتائیے میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں؟“

”آپ مجھ پر اور اس کالونی پر مہربانی فرماتے ہوئے، جسم فروشی کے اس بزنس کو زچہ بچہ کے اس مرکز سے علیحدہ کر دیں“ احمد حسن کا انداز درخواست کرنے والے جیسا تھا۔

”یہاں سے نکال کر میں اسے کہاں لے جاؤں اور کیوں؟“

”دیکھئے محترمہ! اگر آپ کا یہ کام یہاں چلتا رہا تو جلد ہی اس بزنس کے اور لوگ بھی یہاں آ جائیں گے۔ پھر یہاں منشیات بھی آئیں گی اور دوسرے جرائم بھی۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ پوری کالونی جرائم کا گڑھ بن جائے گی۔ اور یہی میں چاہتا ہوں کہ نہ ہو۔ اب اگر آپ میری مدد نہیں کرنا چاہتیں تو مجھے بتا دیجئے“

”آپ کی بات تو میری سمجھ میں آتی ہے اور میں بھی نہیں چاہتی کہ ایسا ہو، مگر میں اپنا بزنس کہاں لے جاؤں؟ مجھے بھی تو کوئی راستہ بتائیے؟“

”سلطان پور بالکل نئی کالونی ہے۔ لیکن یہاں کے سارے شہر تو نئے نہیں ہیں۔ ان کے آس پاس پرانی کالونیاں بھی ہیں۔ وہاں بھی تو آپ کے بزنس کے لوگ کام کرتے ہوں گے۔ وہ کیسے کرتے ہیں آخر؟“

”شہروں میں تو لوگوں کے پاس سو طرح کے شیلٹر ہیں“
”مثلاً؟“

”بھئی میوزک پروگرام آرگنائزر کے دفاتر ہیں۔ ڈانس اکیڈمی ہے، میوزک اکیڈمی ہے جہاں لڑکیاں لڑکے ڈانس اور میوزک سیکھنے بھی آتے ہیں۔ اور دوسرے کام بھی چلتے رہتے ہیں۔ کئی لڑکیاں لڑکے وہاں سے سیکھ کر بڑے فنکار بھی بن جاتے ہیں“

”تو ٹھیک ہے میں آپ کو ایک میوزک اکیڈمی بنا دیتا ہوں“

”ایک اکیڈمی سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا صاحب! یہ تو ایک جگہ کم ازکم پانچ چھ معاملے ہوں گے، کسی مارکیٹ کی طرح، تبھی آپ کا مقصد حاصل ہو سکے گا“ ۔

”کوئی بات نہیں، پہلے جو ڈیری فارم کے لئے راستہ بنایا ہوا تھا وہاں ہمارے پاس پوری دو کنال جگہ خالی پڑی ہے۔ میں وہاں آپ کو یہ سب بنا دیتا ہوں۔ لیکن اس کی ایک شرط ہو گی“

”جی بولیے!“

”میں آپ کو گارنٹی دوں گا کہ وہاں پولیس آپ کو تنگ نہیں کرے گی اور آپ مجھے ضمانت دیں گی کہ وہاں کسی بھی قسم کی منشیات داخل نہیں ہونے دیں گی“

”لوگ تو گھر سے بھی نشہ کر کے آ جاتے ہیں“

”وہ الگ بات ہے۔ مگر کسی بھی اکیڈمی یا دفتر میں کوئی نشہ آور چیز لے کر نہیں آئے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو اسے اس دفتر یا اکیڈمی سے نکال دیا جائے گا۔ اور جو اسے نہیں نکالا جائے گا تو میں سب کچھ بند کرا دوں گا“

”مجھے منظور ہے“
”میں آپ کو زیادہ سے زیادہ تین مہینے میں یہ سب تیار کردوں گا“
”بہت اچھی بات ہے“

”لیکن ابھی آپ کسی سے اس ضمن میں کوئی بات نہیں کریں گی۔ وقت آنے پر میرا معاون خود آپ سے رابطہ کرے گا“

”جی ٹھیک ہے۔ تو اب مجھے اجازت دیجئے۔ باہر بیٹھی ہوئی خواتین پریشان ہو رہی ہوں گی“
”جیسا آپ مناسب سمجھیں“
اور میڈم عارفہ اجازت لے کر چلی گئی۔

احمد حسن نے جیسے کیسے ہو سکا تین ماہ میں سلطان پور کے ایک کونے پر جو سڑک سے بھی متصل تھا اور باقی آبادی سے بھی ذرا ہٹ کے، وہاں ”آرٹس کارنر“ کے نام سے ایک بڑی عمارت تعمیر کرا دی۔ جس میں کئی چھوٹی چھوٹی اکیڈمیوں اور دفاتر بنانے کی گنجائش تھی۔ اس کی ڈیزائننگ سے پہلے میڈم عارفہ سے مشورہ کیا گیا تھا تا کہ اسے ان لوگوں کی ضرورتوں کے مطابق بنایا جائے۔ کرائے داروں کا انتظام بھی درپردہ میڈم عارفہ کے ذریعے ہی ہوا۔

بسوں والوں نے بھی آرٹس کارنر کے لئے علیحدہ سٹاپ بنا لیا۔ زیادہ تر لوگ باہر سے ہی آتے، اس کارنر پر اترتے اور وہیں سے واپس بھی چلے جاتے۔ سلطان پور سے بھی جو لوگ وہاں جاتے، وہ بھی باہر والا راستہ ہی استعمال کرتے۔ چونکہ میڈم عارفہ نے اپنے تمام لوگوں کو احمد حسن کی شرائط سے آگاہ کر دیا تھا اس لئے وہاں کسی بھی قسم کی منشیات یا شراب وغیرہ کا کاروبار نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی کسی کو اپنے ساتھ لے کر آنے کی اجازت تھی۔ احمد حسن اپنے طور پر خوش تھا کہ اس نے ایک مصیبت کو سلطان پور میں آنے سے پہلے ہی روک دیا ہے ”۔

مگر حقیقت میں یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ اس پر امن کالونی کے دشمن پہلے سے اپنی چال چل چکے تھے۔ یہ اور بات کہ انہیں کوئی جلدی نہیں تھی۔ یوں بھی ان کا ہدف تو پورے سلطان پور پر قبضہ کرنے کا تھا اور اس کی ابتداء ہو چکی تھی۔

چودھری کرم الٰہی نام کا ایک تیس سالہ بندہ جو خود کو الیکٹریشن بتاتا تھا اور ظاہر کرتا تھا کہ وہ نئے گھروں میں بجلی کے کام کے ٹھیکے لیتا ہے سلطان پور میں آ چکا تھا۔ اس نے پانچ پانچ مرلے پر بنے ہوئے دو مکانوں کے مالکان کو اچھی بڑی قیمت دے کر ان کے مکان خرید لئے تھے، اور ان کے درمیان کی دیواروں کو گرا کر انہیں اکٹھا کر لیا تھا۔ اب اس کی نظر مزید دو ایسے گھروں پر تھی جو اس کے مکانوں سے جڑے ہوئے تھے۔

اونچا لمبا قد کاٹھ، چوڑا چکلا سینہ، ورزشی بدن، وہ ایک بارعب شخصیت کا مالک تھا۔ فجر، مغرب اور عشاء کی نمازیں وہ مولوی کفایت اللہ کی امامت میں ادا کرتا تھا۔ اور اگر ممکن ہو تو عشاء کی نماز کے بعد مولوی کفایت اللہ کے ساتھ دیر تک مسجد میں بیٹھا رہتا۔ جمعہ کی نماز کے لئے وہ خاص اہتمام سے آتا۔ مسجد کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر چندہ دیتا اور اکثر مولوی کفایت اللہ کو بھی قیمتی تحفے تحائف سے نوازتا رہتا۔ دوسرے لوگوں کو بھی وہ بہت ادب آداب اور انکساری سے ملتا۔

اس لئے جلد ہی وہ سلطان پور میں اچھا خاصا مقبول ہو گیا۔ آئے دن اپنی ٹھیکیداری میں کامیابی کے بہانے صدقہ خیرات کرتا رہتا۔ اگر کوئی ضرورت مند براہ راست یا مولوی کفایت اللہ کے ذریعے اس تک پہنچتا تو وہ اس کی مدد کرنے میں کبھی دیر نہ لگاتا۔ مولوی کفایت اللہ کہ اب تک سیدھے سادھے کپڑے پہنتا تھا رنگ برنگی عبائیں قبائیں پہننے لگا۔ اب اس کا عمامہ بھی بھاری ہونے لگا، جسے وہ خاص طور پر جمعہ کے خطبہ میں سر کی زینت بناتا۔

چوہدری کرم الٰہی کی مقبولیت کے کچھ ہی عرصہ بعد سلطان پور کے رہائشیوں کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ اب سوسائٹی کی انتظامی کمیٹی میں سلطان پور کے دو مزید نمائندوں کا اضافہ کیا جائے۔ سب کا خیال تھا کہ چوہدری خود بھی اس نمائندگی کا امیدوار ہے۔ مگر وقت آنے پر اس نے مولوی کفایت اللہ اور ایک مزدور آدمی کے نام انتظامیہ کو پیش کیے۔ مولوی کفایت اللہ کو تو خیر سبھی جانتے تھے لیکن وہ مزدور آدمی بھی یہاں کا پرانا رہائشی اور ایک سیدھا سادہ انسان تھا۔

کسی نے بھی مخالفت نہ کی۔ یوں یہ دونوں حضرات بھی سوسائٹی کی انتظامی کمیٹی کے ممبر منتخب ہو گئے۔ اس کے بعد کرم الٰہی جسے اب لوگ زیادہ تر چودھری صاحب کہہ کر بلاتے تھے، ہر ہفتے مولوی کفایت اللہ کو شہر کی سیر کے لئے بھی لے جانے لگا۔ وہ اب اسے مولوی کی بجائے حضرت یا مولانا کہہ کر مخاطب کرتا۔ اور اس نے بہت جلد مولوی کو یہ باور کرا دیا کہ وہ تو ایک عالم دین ہے اور اس کا اصل مقام سلطان پور کی انتظامیہ کا ممبر بننے سے کہیں بلند ہے۔

اسے خود کو آنے والے لیڈر کے طور پر سوچنا چاہیے۔ اور خود اکثر اسے اپنا لیڈر کہہ کر عزت دیتا۔ پھر تین چار مہینے بعد اسے ایک کار بھی خرید دی۔ گاہے گاہے مولوی کی بیوی اور بچے بھی اس کار کی سیر کرتے نظر آتے۔ مولوی کفایت اللہ تو آسمان پر اڑنے لگا۔ کرم الٰہی اسے جو بھی پٹی پڑھاتا وہ اسے جمعہ کی وعظ کا حصہ بنا لیتا۔ یوں اگر انہوں نے کوئی مسئلہ سلطان پور کواپریٹو سوسائٹی کی انتظامی کمیٹی میں پیش کرنا ہوتا تو پہلے جمعہ کی وعظ میں شامل کر کے اس کا خوب پراپیگنڈہ کیا جاتا اور بعد میں اسے انتظامی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کر دیا جاتا۔

عام اوقات میں بھی جو لوگ نماز سے پہلے یا بعد میں مولوی کے پاس مسجد میں بیٹھتے تھے، وہ اس کے پراپیگنڈہ کا آسانی سے شکار ہو جاتے تھے۔ یوں ایک سال کے اندر ہی وہ سلطان پور کے ہر کام پر اثر انداز ہونے لگے۔ انتظامی کمیٹی میں مولوی سمیت چار ارکان تو تھے ہی سلطان پور کی طرف سے، جو عام طور پر بہت سا اختلاف کرنے کے باوجود ووٹنگ کے وقت ایک طرف ہو جاتے تھے۔ فرینڈز کنسٹرکشن کمپنی نے احمد حسن کو ملا کر جو پانچ ممبر اپنی طرف سے دے رکھے تھے، ان میں سے بھی اکثر ایک یا دو ان کی رائے سے اتفاق کر جاتے اور ہر اہم فیصلے کے موقع پر احمد حسن کو اپنا حتمی اختیار استعمال کر کے معاملے کو بچانا پڑتا۔

ان حالات میں احمد حسن نے فیصلہ کیا کہ مولوی کفایت اللہ کی جگہ امام مسجد کا عہدہ کسی عالم دین اور پڑھے لکھے شخص کو دیا جائے۔ مگر جب اس نے اپنے اس خیال کا اظہار انتظامی کمیٹی کے ایک اجلاس میں کیا تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سلطان پور کے مکینوں نے الگ غصے کا اظہار کیا۔ ابھی احمد حسن اس دھچکے سے سنبھلا بھی نہیں تھا کہ کفایت اللہ نے مسجد کا لاؤڈ سپیکر استعمال کرتے ہوئے ایک نیا حملہ کر دیا۔ اس کی تقریریں تو جیسے کوئی اسے باقاعدہ لکھ کر دیتا تھا۔

اس کا استدلال تھا کہ سلطان پور کے کرتا دھرتا یورپی ممالک کا مشن لے کر یہاں آئے ہیں اور اب سلطان پور کو فحاشی کا اڈا بنانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ یہاں کامیاب ہو گئے تو پھر یہ سارے شہر کو اور بعد میں سارے ملک کو اپنے مذموم مقاصد کی نذر کر دیں گے۔ آرٹس کارنر دراصل ان کا پہلا اڈا ہے، یہاں دن رات فسق و فجور کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اس کا مطالبہ تھا کہ آرٹس کارنر نام کی اس عمارت کو معاشرے کے ان دشمنوں سے خالی کرایا جائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments