سلطان پورہ کے دوہرے قتل کا اصل قصہ کیا تھا؟


تین چار ہفتے خوب شور مچانے کے بعد اس نے اپنا یہ مطالبہ انتظامی کمیٹی کے ایک اجلاس میں پیش کر دیا۔ احمد حسن تو ایک سول انجینئر تھا۔ بے شک وہ انتظامی قابلیت سے بھی لیس تھا، مگر تقریر کرنے کے فن سے تو بالکل نابلد تھا۔ اس نے مولوی سے سوال کیا کہ وہ جو آرٹس کارنر کے لوگوں پر اتنے سخت الزامات لگا رہا ہے تو کیا وہ پاکستان کے قانون سے آگاہ نہیں؟ جس کی رو سے، ایسا الزام ثابت کرنے کے لئے اسے کم ازکم چار بالغ، باہوش اور چشم دید گواہ پیش کرنے پڑیں گے۔ جواب میں مولوی نے لمبی چوڑی تقریر جھاڑ دی اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گناہ تو گناہ ہے چاہے اسے ثابت کیا جا سکے یا نہ کیا جا سکے۔

گناہ کے خلاف لڑنا ایک جہاد ہے اور اپنا یہ جہاد وہ مرتے دم تک جاری رکھے گا۔ احمد حسن نے اسے اگلے اجلاس میں ثبوت فراہم کرنے کے لئے کہا، تاکہ اس کے مطالبے پر غور کیا جا سکے۔ مگر اس اجلاس میں ہی اس نے محسوس کر لیا تھا کہ کمیٹی کے کم از کم پانچ ارکان مولوی کی حمایت کے لئے تیار ہیں اور چھٹا ووٹ خود مولوی کا اپنا ہے۔ سو اگر اس فیصلے کے لئے ووٹنگ ہوئی تو مولوی صاف جیت جائے گا۔ اس لئے فی الحال اجلاس ملتوی کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ اجلاس ملتوی کرنے کے بعد وہ اپنے دفتر میں پہنچا تاکہ تنہائی میں حالات پر غور کر سکے۔

بہت سوچ بچار کے بعد، شام کو اس نے میڈم عارفہ حیات کو بلا بھیجا۔ میڈم آئی تو اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا اور بتانے کی کوشش کی کہ مولوی اور اس کے حامی اس آرٹس کارنر کے دشمن ہو گئے ہیں۔ میڈم نے اس کی بات نہایت سکون سے سنی اور نہایت اطمینان سے بولی ”یہ لوگ آرٹس کارنر کے دشمن نہیں ہیں صاحب، یہ دراصل آپ کے دشمن ہیں اور آپ کو سلطان پور کی انتظامیہ سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں ضرورت پڑی تو وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے آپ کے خاندان اور بیوی بچوں کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں رکیں گے“ ۔

”کیا؟ آپ کو کیسے معلوم؟ اور میں نے کیوں اس معاملے پر اس زاویے سے نہیں سوچا؟“

”آپ سادہ دل اور معصوم انسان ہے صاحب! اور اب جرائم پیشہ لوگوں میں گھر چکے ہیں۔ آپ نے ایک ان پڑھ اور غریب مولوی کو اتنی اہم مسجد کا امام بنانے کی جو غلطی کی تھی اب اس کا خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیے۔ میں اپنے بزنس کے علاوہ کوئی جرم نہیں کرتی لیکن بچپن سے ہی مجرموں سے میل ملاقات رکھتی ہوں۔ اس لئے ان کی چالیں بھی سمجھتی ہوں۔ سلطان پور ایک سونے کی کان ہے۔ مکانات اور دکانیں تو سب آپ بیچ چکے ہیں لیکن ابھی بھی زمین کے چھوٹے بڑے بہت سے ٹکڑے خالی پڑے ہیں جو دراصل آپ کی کنسٹرکشن کمپنی کی ملکیت ہیں۔ لیکن اگر وہ آپ کو انتظامیہ سے الگ کر کے اس پر قابض ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ان تمام ٹکڑوں پر بھی قابض ہو جائیں گے۔ او ر ان کی آنکھیں تو سکولوں اور بچوں کے پارک کی زمینوں پر بھی لگی ہوئی ہیں۔ وہ ان سب کو بھی بیچ کھائیں گے۔ اس لئے آپ ہماری نہیں، اپنی فکر کیجئے“

احمد حسن تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

”مجھے اس کی اتنی فکر نہیں ہے۔ مگر ہم نے تو یہ کالونی علاقے کے مزدوروں، ہنر مندوں اور کاریگروں کو سستی اور معقول رہائش گاہیں فراہم کرنے کے لئے بنائی تھی۔ بڑی محنت کی ہے میں نے اسے بنانے میں۔ کیا یہ اب اس طرح برباد ہو جائے گی؟“

”یہ تو آپ کو اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب آپ نے ایک ان پڑھ اور مالی طور پر کمزور مولوی کو اس مسجد کی امامت جیسا با اختیار عہدہ سونپا تھا۔ آپ کے دھیان میں کیوں نہیں آیا کہ ایسے آدمی کو آسانی سے بہکایا جا سکتا ہے، ورغلایا اور استعمال کیا جا سکتا ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے کرم الٰہی نے اسے اپنی جیب سے کار خرید کر دی ہے؟ نہیں صاحب کرم الٰہی کی اس پر تمام مہربانیوں کے پیچھے اور بہت سے جرائم پیشہ لوگوں کا ہاتھ ہے۔ اور آپ کو تو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ مولوی اب نہ صرف شراب پیتا ہے بلکہ وہ شہر میں جسم فروش لڑکیوں سے بھی استفادہ کرتا ہے۔ اب اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی کچھ مدد کر سکتی ہوں“

”آپ؟ آپ میری کیا مدد کریں گے؟“
”میں مولوی کو کچھ دیر کے لئے روک دوں گی“
”اس سے کیا فائدہ ہو گا؟“
”آپ سلطان پور سے اپنی مرضی کے طریقے سے نکل جائیں گے“
”اگر مجھے یہاں سے نکلنا ہی ہے تو ابھی کیا اور کچھ دیر بعد کیا؟ کیا فرق پڑتا ہے؟“

”بہت فرق پڑتا ہے صاحب! آپ ان کے دباؤ میں آ کر ابھی نکل جائیں گے تو ان کے ہاتھ بہت سا مال غنیمت آ جائے گا۔ لیکن اگر آپ اپنی تیاری کر کے سلطان پور کو چھوڑیں گے تو وہ جیتنے کے باوجود کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے“

”اور مجھے کیا حاصل ہو گا؟“

دیکھئے! جہاں تک میری معلومات ہیں، آپ نے اس کالونی پر جتنا بھی پیسہ خرچ کیا تھا، آپ اس سے کئی گنا زیادہ کما چکے ہیں۔ اس لئے روپے پیسے کے لحاظ سے تو آپ کو ابھی بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن اگر آپ کو کچھ وقت مل جاتا ہے تو آپ زمین کے وہ تمام ٹکڑے جو ابھی تک خالی پڑے ہیں، جو آپ نے اس کالونی کو خوبصورت بنانے کے لئے رکھ چھوڑے ہیں، ان سب کو بیچ ڈالیے۔ زمین کی قیمتیں بہت اوپر جا چکی ہیں، بہت سا روپیہ آپ کے ہاتھ آئے گا۔ جسے آپ کسی اور اچھے کام پر خرچ کر سکتے ہیں۔ آپ کی محنت کا مول تو آپ کو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ آپ، دشمنوں کو کمزور کرنے کے لئے اچھا ہے کہ یہ بچوں کی پارک بھی بیچ ڈالیے، یہ ڈسپنسری بھی اور ہو سکے تو سکولوں کو بھی ”

”سکول تو یہاں کے بچوں کے لئے بنائے گئے ہیں۔ انہیں میں کیسے بیچ سکتا ہوں؟“

”چلیں سکولوں کو رہنے دیں، انہیں وہ بعد میں بھی اتنی آسانی سے بند نہیں کر سکیں گے۔ مگر آپ باقی کام کر ڈالیے۔ اس سے پہلے کہ وہ ہوش میں آئیں“

”مطلب؟“
”جب تک وہ میرے حملے سے سنبھلیں گے“
”حملے سے آپ کی کیا مراد ہے؟“

”یہاں مولوی کفایت اللہ کے علاوہ اور مسلک کے لوگ بھی رہتے ہیں، جو اس کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتے۔ مگر وہ خاموش ہیں کیوں کہ ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ نہ ہی ان کے پاس روپیہ پیسہ ہے۔ میں ان کو نہ صرف فنانسر فراہم کردوں گی بلکہ افرادی امداد بھی۔ نتیجہ، دونوں طرف سے جھگڑا شروع ہو جائے گا، جو دوسری مسجد کے بننے سے پہلے نہیں رکے گا۔ مولوی اور اس کے سب ساتھی اس جھگڑے میں مصروف ہو جائیں گے اور آپ کو اپنا کام کرنے کا موقع مل جائے گا“

”اگر یہاں جھگڑے ہو رہے ہوں گے تو پھر ان زمینوں کو کون خریدے گا؟“

”آپ ان کی فکر نہ کریں۔ آپ کو جو خریدار ملیں گے، ان کو ان زمینوں کی بہت ضرورت ہے۔ وہ آپ کو منہ مانگی قیمت دیں گے“

”اس کا مطلب ہے، وہ بھی کوئی جرائم پیشہ لوگ ہی ہوں گے“

”لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے صاحب! مجرموں کا مقابلہ شرافت سے نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ بندوقوں کا مقابلہ تلواروں سے بھی نہیں ہو سکتا، ان کے سامنے بندوقوں جیسے ہتھیاروں سے ہی لڑا جا سکتا ہے“

”اور میں ان خریداروں کو کیسے ڈھونڈوں گا؟“

”آپ کو کہیں نہیں جانا پڑے گا صاحب! وہ خود آپ کے پاس آئیں گے۔ آپ ابھی ہاں کیجئے وہ کل سے آپ کے پاس آنا شروع ہو جائیں گے“

”میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں اور آپ کی پیش کش کے لئے آپ کا مشکور بھی ہوں۔ لیکن مجھے سوچنے کے لئے تھوڑا وقت چاہیے“

”سوچنے کا وقت نہیں ہے صاحب! آگے آپ کی مرضی“
احمد حسن نے چند لمحے غور کیا اور پھر میڈم عارفہ کو ہاں کہہ دی۔

دوسرے ہی دن سے احمد حسن اپنی کنسٹرکشن کمپنی کے دفتر میں جا بیٹھا اور گاہکوں نے اس سے رابطہ کر کے اسے وہاں ملنا شروع کر دیا۔

میڈم عارفہ کی طرف سے ہری جھنڈی کا اشارہ پا کر کرم الٰہی گروپ کے مخالفین میدان میں کود پڑے اور دوسری مسجد کے مطالبے پر روز ہنگامے ہونے لگے۔

احمد حسن نے دو اڑھائی مہینوں کے اندر ہی سکول محکمہ تعلیم کی ملکیت میں دے دیے۔ بچوں کی پارک سمیت جو جو ٹکڑا خالی تھا، سب اچھے داموں میں نکال دیا۔ مسجد کے ساتھ بنی ہوئی دکانیں بھی خریداروں کو بیچ دیں اور ڈسپنسری بھی ایک ڈاکٹر کے ہاتھ فروخت کر دی۔ صرف سلطان پور کوآپریٹو سوسائٹی کے پاس جو عمارت تھی اسے بیچنے کی وہ ہمت نہ کر سکا۔

اس سے پہلے کہ کرم الٰہی گروپ کو اصل حالات سے آگاہی ہوتی اس نے سلطان پور کی انتظامی کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد فرینڈز کنسٹرکشن کمپنی کی طرف سے آئے ہوئے چاروں ممبران بھی اپنے عہدوں سے دستبردار ہو گئے۔

میڈم عارفہ حیات نے دوسری مسجد کا جو شوشہ بلند کرا دیا تھا وہ بھی آخر ایک مسجد کی جگہ لے کر ہی کم ہوا۔ وہاں ان لوگوں نے اپنی مسجد بنانی شروع کر دی تھی۔ اور وہ زمینیں جو احمد حسن نے اس عرصہ میں بیچی تھیں ان کے مالکان نے بھی قبضے لینے شروع کر دیے تھے۔ سو چھوٹے موٹے جھگڑے بھی اب وہاں کا معمول بن گئے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ آرٹس کارنر کے خلاف اب کوئی بات ہی نہیں کرتا تھا۔ وہاں سارے کام پورے سکون سے ہو رہے تھے۔

احمد حسن بیرون ملک بیٹھے ہوئے اپنے پارٹنرز کو ساتھ ساتھ ہر بات کی خبر دیے جا رہا تھا اور انہیں اس سے مکمل اتفاق تھا۔ ویسے بھی سلطان پور کو چھوڑنے میں مالی طور پر تو انہیں فائدہ ہی ہوا تھا اور وہ بھی سب اندازوں سے زیادہ۔ پھر کنسٹرکشن کمپنی تو ان کے پاس ہی تھی اور پہلے سے کافی دولت مند بھی ہو چکی تھی۔ ڈیری فارم، لائیو سٹاک فارم اور دوسرے فارم اس کے علاوہ تھے۔ جو خوب پھول پھل رہے تھے۔

کہانی یہاں تک پہنچی تو خالد عثمانی کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے اسے احمد حسن جیسے لوگوں کی ناکامی قرار دیا۔ احمد حسن اس الزام کو قبول کرتے ہوئے بولا ”ہماری سب سے بڑی غلطی مولوی کفایت اللہ تھا۔ وہ ایک ان پڑھ اور مالی طور پر کمزور انسان تھا۔ اسے سلطان پور جیسی مسجد کی امامت کے اتنے با اختیار عہدے پر فائز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یوں بھی وہ صرف نماز پڑھا سکتا تھا۔ تقریر کرنا بھی اس نے اسی مسجد میں سیکھا۔ روپے پیسے کی ریل پیل نے اسے اندھا کر دیا اور وہ اپنی اوقات ہی بھول بیٹھا۔

عام لوگوں کو کیا خبر تھی کہ وہ کوئی عالم دین نہیں ہے۔ وہ کسی مسئلے کی صحیح تشریح تک نہیں کر سکتا۔ اور دیکھیے ہمارے ملک میں کم ازکم اٹھانوے فیصد نمازی صرف یہ سوچ کر نماز پڑھتے ہیں کہ یہ ایک دینی فریضہ ہے اور اس سے ثواب ملتا ہے لیکن نماز میں وہ پڑھتے کیا ہیں انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ بے شمار لوگوں کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ ہر موقع پر یہودیوں کو برا کہنے والے پانچ وقت نماز میں درود شریف پڑھتے ہوئے آل ابراہیم یعنی یہودیوں کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں۔ وہ بھلا ایک جاہل مولوی اور ایک عالم دین میں فرق کیسے کر سکتے ہیں؟ ”

”اس کا مطلب ہے، دنیا میں کامیاب ترین سمجھے جانے والے پانچ پاکستانیوں کی پاکستان سے محبت بس یہیں تک تھی“ خالد عثمانی نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ ”وہ چند جرائم پیشہ لوگوں کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئے؟ اور ہمت ہار بیٹھے؟“

احمد حسن بولا ”اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اس کے بعد کوئی کالونی نہیں بنائی، لیکن ہمارا کنسٹرکشن کا کام جاری ہے۔ اس کمپنی کے لئے اور اپنے ذرائع استعمال کر کے ہم نہایت اعلیٰ بھاری مشینری بڑے سستے داموں خرید کر حکومت کو سپلائی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہم تمام پیسہ بھی اپنی کمپنی کے اکاؤنٹ سے خرچ کرتے ہیں۔ جب کہ حکومت ہمیں مشینری ملنے کے کئی کئی مہینوں بعد ادائیگی کرتی ہے۔ بے شک یہ بہت بڑی خدمت نہیں ہے لیکن ہے یہ ملک کی خدمت ہی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments