میں تے منو بھائی


کچھ لوگ جو ہمیں زندگی کی پُر آشوب راہ میں ملے تو سائبان تھے۔ جب جیون کی کھٹنائیاں پاؤں کا ببول تھیں۔ اپنی کم مائیگی کا احساس جب سپنے سینچنے والی مٹی کو گوندھنے کے لئے حوصلوں کے پانی کی چند بوندیں بھی مہیا نہ کر پاتا تو ایسے میں باران تھے لوگ۔ جب گھر کے آنگن میں “ڈیگر”اتر تی تو ہانڈی میں پکانے کے لئے صرف مستقبل کے سہانے سپنوں میں لپٹی، ایک غیر مرئی تیقّن کے دھاگے سے بندھی آرزؤں کی کچھ نیم مردہ بیلیں تھیں جن پر سبزی نہیں اگتی تھی۔ ایسے میں ان کی فکر کی جوت جگائے اُن کے آدرش کی دھونی رمائے، ہم خاک نشینوں اور زمین زادوں کے لئے زیست کا سامان تھے وہ لوگ۔

جب خواہشوں اور حوصلوں کے بیچ گھمسان کا رَن پڑتا، جب چھت ٹپکتی، جب خود کو باعزت سمجھ بیٹھنے کا وہم حقیقی دنیا کے معروضی پیمانوں کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوتا ،جب اپنے ہونے کا یقین اپنی افتادگی کے بوجھ سے چٹخنے لگتا ایسے میں جیت کا امکا ن تھے وہ لوگ۔

اسی قبیلے کے ایک سرخیل مُنو بھائی تھے۔ مُنوبھائی سے قلبی تعلق اُس وقت جڑا جب “جنگل اداس ہے”میں چھپے کالم پڑھے۔ یہ مُنو بھائی کی زمین سے جڑی، پر سوز اور سچل تحریریں تھیںجن کا چانن میری شعوری ہستی کے اولین روزن سے اندر اترا اور میرے من کے استھان کو مقدس روشنی سے منور کرنے لگا۔ میں اس وقت ہائی سکول کا طالب علم تھا چناب کنارے آباد ایک گاو ¿ں جس سے چھ کلومیڑ دور شہر کا ہائی سکول تھا۔ مُنو بھائی اس وقت جنگ اخبار میں “گریبان”کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے۔ میں پنڈی بھٹیاں شہر کے دُلا بھٹی چوک سے مُتصل پتن روڈپر ملازم قریشی کے حمام پر جا کراخبار پڑھا کر تا تھا۔ اس وقت اپنا اخبار خریدنا کسی ممنو عہ جزیرے پر اترنے کے مترادف تھا۔

یہ 1992ءسے 1994ء کا سمے ہو گا۔ اس کے بعد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لاہور چلا آیا۔ وُہی خوابوں کی پوٹلی، وہی خالی جیب، وہی سکے کو چیزوں کے معیارمعّین کرنے کا واحد وسیلہ ماننے والے سماج سے رومانوی اور انقلابی گریز۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاہور شہر کے شب و روز مجھ کچی گلیوں میں گیلی مٹی کے ساتھ کھیل کر بڑا ہونے والے ایک دور افتادہ دیہاتی لڑکے کے لئے نت نئی طلسماتی دُنیا کے دروا کرتے۔ صرف داستانوں میں موجود کرداروں کو زمین پر چلتے پھرتے ننگی آنکھوں دیکھنے سے کئی شامیں حیرت اور خود سپردگی کے پتن پرذات کی شکستہ کشتی کے پتوار جوڑتے گزریں۔

لاہور شہر میں جس جگہ ہمیں چھت میسر آئی وہ منو بھائی کے ریواز گارڈن سے زیادہ دور نہ تھی۔ ہم چوبرجی سے کچھ فاصلے پر شام نگر کی سروپ سٹریٹ کے ایک گھر میں رہتے تھے اورریواز گارڈن وہاں سے آدھ گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ یہ وہی دور تھا جب مجھے پتہ چلا کہ ریواز گارڈن میں 364 نمبر گھر منو بھائی کا مسکن ہے تو میں بالکل اسی طرح ان کے گھر کے آس پاس دیوانہ وار پھرتا رہا جیسے ن ۔م راشد کا ‘حسن کوزہ گر’۔

میرے لئے منو بھائی کے ساتھ عقیدت کی آنچ اور اپنی اولین محبت کی تپش کی تاثیر کو الگ الگ کرنا ممکن نہیں تھا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا “کہ ہر شے میں تال، لے اور سُر پنہاں ہے۔ روح کی تشکیل اور اس کی آزادی میں رقص ہے یہ سب اس کے مختلف پہلو ہیں جو ذات مطلق ہے۔ جو ازلی اور ابدی رقاص ہے”۔ پھر ایک دن اسی اُلوہی رقص کے دوران میں منو بھائی کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ منوبھائی جو لاکھوں مجھ جیسوں کے دلوں کی دھڑکن تھا جو ان گنت بار مجھ ایسے مداحوں کی وارفتگی اور عقیدت کا اظہار سن چکا ہو گا۔ میں۔ جس کا کوئی نام نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو اس نام کے ساتھ کوئی اسرار وابستہ نہ تھا۔ محض ایک قاری ۔۔۔مگر منو بھائی کے برتاؤ سے مجھے یوں لگنے لگا جیسے زندگی کا یہ تجربہ صرف میرے لئے ہی نہیں ان کے لئے بھی نیا تھا۔ یہ منوبھائی کی عارفانہ ہوند تھی جو ان کو اونچے پیڑھے پر نہیں بیٹھنے دیتی تھی وہ عمر بھر زمین پر رینگتی مخلوق کی آنکھوں کے سپنوں سے الجھے تار سنوارتے رہے یہ 1997ء سے 2000ء کا سمے تھا جب میں ایف سی کالج میں انگریزی ادب کا طالب علم تھا ہم کچھ طلبا نے مل کروہاں مجلس وارث شاہ قائم کی اور ایک بڑا مشاعرہ منعقد کروایا منو بھائی نے اس مشاعرے کی صدارت کی۔

اُن دنوں تصویریں صرف ذہن کے طاقچوں میں محفوظ کی جاتی تھی سو آج بھی آویزاں ہیں وہ پل مَن کی گیلری میں پورٹریٹ کی طرح ۔آج جب مُنو بھائی 364ریواز گارڈن سے مستقل کوچ کر گئے ہیں ان کے ساتھ بتائے پَل، ان کی روشن آنکھوں میں دکھنے والے امید کے چراغ، ان کی زبان سے سنے گئے پُر مغز لطیفے، ان کے تازہ گرتی برف جیسے پوتر قہقہے دل کے نہاں خانے کو روشن کئے ہوئے ہیں۔ مُنو بھائی آپ کے بغیر لاہور شہر کا تصور پُنوں کے بغیر کیچ مکران جیسا ہے سّسی کے بغیر بھنبھور جیسا ہے، رانجھے کے بغیر تخت ہزارے جیسا ہے، ہیر کے بغیر جھنگ سیال جیسا ہے۔

اڈیا بھور تھیاپر دیسی

اگے راہ اگم دا

کیہ بھروسا دم دا

طارق بھٹی
Latest posts by طارق بھٹی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق بھٹی

طارق بھٹی فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈپٹی کمشنر ہیں ۔انگریزی ،پنجابی ، اُردو اور فارسی ادب کے طالبعلم ہیں ۔پنجاب دھرتی کے ثقافتی ورثے اور کلاسیکی پنجابی شاعری سے عشق کرتے ہیں۔ کبھی کبھار چُپ توڑ کر لفظوں کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

tariq-bhatti has 1 posts and counting.See all posts by tariq-bhatti