دید کے قابل مگر کیسے


گئے دنوں میں عورتوں کے رسالوں میں چھپی کہانیوں میں مرد و خواتین کرداروں کے سراپے ان کی لکھاریوں کی تشنہ لبی کے غماز ہوا کرتے تھے۔ مرد ہمیشہ دراز قد اور وجیہہ ہوا کرتے تھے جو پینٹ پہنے میچنگ یا کنٹراسٹ کوٹ میں ملبوس پائیں باغ میں نازک اندام لمبی زلفوں میں پھول سجانے والی انتہائی ڈرپوک چھوئی موئی مگر شام کے دھندلکے میں اپنے ہیرو سے ملنے کے لیے ہر دم تیار ہیروئن کا انتظار کرتے پائے جاتے۔

ان کے متوازی ترقی پسند لکھاریوں نے حقیقی زندگی کے لوگوں پر لکھا اور کیا خوب لکھا۔ ان کے ہیرو یا ہیروئن عام انسان ہوتے ہیں۔ وہ انسان جو خوبصورت بھی ہو سکتے ہیں یا اس کے برعکس۔ مگر آج کے ڈیجیٹل عہد نے تو صدیوں پرانے روایتی تصورات کو الٹا دیا ہے۔ اب مرد عورت یا ٹرانس جینڈر کسی پر کسی حوالے سے کوئی قدغن نہیں کہ وہ کیا پہنے۔ کیسا دکھائی دے۔ ہاں مگر پیشہ ورانہ زندگی کے کچھ تقاضے ابھی بھی برقرار ہیں خصوصاً ہمارے ریجن میں۔ اگرچہ سوشل میڈیا کا معاشرے کی ہر پرت کے رویوں پر گہرا اثر ہوا ہے۔ لیکن کچھ حوالوں سے ہمارے نوجوان دوستوں کو قدرے مختلف اور بہتر انداز میں سوچنا چاہیے۔

اس معاملے ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ ہم اپنی جسمانی صورت کو صرف ایک حد تک ہی بدل سکتے ہیں۔ تو اگر آپ مردوں کے ٹام کروز اور عورتوں میں مدھو بالا یا ایشوریا نہیں ہیں تو اس کو دل پر نہ لیں۔ جیسے ہیں جہاں ہیں کی بنیاد پر خود کو بہتر دکھائی دینے پر سوچیے پھر عمل کیجئے۔ اس حوالے سے ایک آزمودہ طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی غذا کو سادہ رکھیے۔ سبزیاں پھل خشک میوے سب ہماری جلد پر بہت گہرائی سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب آج کی ڈاٹ کام جنریشن سے یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ وہ جنک فوڈ سے رک جائیں۔

لیکن غالب کے الفاظ میں ”مانا کہ غیر سے تمہیں رسم و راہ ہو۔ ہم کو جو پوچھتی رہو کیا گناہ ہو“  (اف غالب کا محبوب کے ساتھ ساتھ رقیبوں کے ساتھ پر امن بقائے باہم کا نظریہ) ۔ لیکن یہاں رقیب کوئی اور نہیں آپ کے اپنے پیسوں سے خریدی جانے والی جنک فوڈ ہے (جس کے نقصانات پر الگ سے کالم لکھے جا سکتے ہیں ) ۔ تو پلیز اس کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا نیچرل ہونے کی کوشش بھی کریں۔ اس پر کوئی بڑا خرچ نہیں آئے گا۔ کھانے کے ساتھ سلاد۔ یا رہ چلتے بھوک لگنے پر موسم کا کوئی سستا سا پھل۔ یقین مانیے یہ چیزیں آپ کی جلد اور لک کو ایک ایسی چمک دیں گی کہ آپ حیران ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں جتنی بھی مہنگائی ہو، ہر موسم کی سبزیاں اور پھل اپنے موسم میں سستے مل ہی جاتے ہیں۔ لہذا ان کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیے۔ نتیجے میں آپ کو ایک توانا جسم اور چمکتی دمکتی جلد ملے گی

اس کے بعد آتا ہے آپ کا پہناوا۔ اس معاملے میں کچھ باتیں ذہن نشین کر لیں۔ آپ اپنی رنگت اور جسمانی ساخت کے حساب سے اپنے لباس کا انتخاب کیجیے۔ یاد رکھیے امریکی تہذیب کے عالمی تسلط کے باوجود ہم پر برطانیہ کے اثرات ابھی تک بہت گہرے ہیں جہاں ابھی بھی روایت پرستی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انٹرویو کے لیے رنگ برنگے ملبوسات ہمارے کلچر میں قابل قبول نہیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو بلیک پینٹ کے ساتھ آف وائٹ یا کسی اور ہلکے رنگ کی شرٹ پہن لیجیے اور ہاں میچنگ نکٹائی لگانا مت بھولیے۔ جوتے پالش شدہ ہوں اور صاف ہوں۔

اگر آپ خاتون ہیں تو لائٹ اینڈ ڈارک کا کوئی بھی کامبینیشن چلے گا۔ خواتین کو میک اپ کے حوالے سے کچھ کہنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ لیکن انٹرویو کے حوالے سے میں اپنے تجربات کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس موقع پر لڑکیوں کو کبھی بھی ڈارک میک اپ نہیں کرنا چاہیے اور ہاں اپنے بیگ میں میک اپ کے لئے درکار بنیادی اشیاء ضرور رکھیے کیونکہ اکثر انٹرویو کے مقام پر امیدواروں کو کافی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا اپنی باری آنے سے کچھ پہلے خود کو ایک بار ری فریش کر لیجیے۔ یہی بات مرد حضرات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اور ہاں اپنے ساتھ ایمرجنسی میں درکار اشیاء ضرور رکھیں۔

اب آئیے مین انٹرویو پر۔ پہلی تو سرائیکی کی ایک مشہور کہاوت ذہن نشین کر لیں ”پیر پتر نہ دیسی رن تاں نہ کچھ گھنسی“ ، مطلب کام ہونا ہو گا تو ہو جائے گا اگر نہ بھی ہوا تو کوئی ہمیں جیل میں بند تو نہیں کر دے گا۔ اس بات کے کہنے کا مقصد یہ ہے پورے اعتماد سے انٹرویو دیں۔ جواب دیتے ہوئے سر جھکا کر یا آنکھیں جھکا کر بات مت کریں۔ سوال کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں۔ پرانے انداز کا ادب یا شرمانے کا رواج تو فلموں میں بھی ختم ہو گیا ہے جہاں ہیروئن لاکھوں روپے لے کر شرمایا کرتی تھی۔

تو دوستو گھبرانا نہیں شرمانا نہیں۔ جواب کا نہیں پتہ تو کہہ دیں کہ نیکسٹ سوال پلیز۔ (زندگی رہی تو انٹرویو پراسس پر ایک اور آرٹیکل لکھوں گا انشاء اللہ) ۔ انٹرویو میں بھلے اردو میں بات کریں مگر کوشش کریں کہ اپنے پیشہ ورانہ سوالات کا جواب انگلش میں ہی دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر پیشہ ورانہ یا ٹیکنیکل ٹرمز انگلش میں ہی زیادہ مختصر مگر جامع ہوتی ہیں۔ یہ بات میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میرا اپنا فیلڈ انگلش لٹریچر اینڈ لینگویج ہے مگر یہ ایک عام مشاہدہ کی بات ہے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں کامیاب افراد میں کمیونی کیشنز سکلز ( بالخصوص انگلش میں ) دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنی ابلاغی صلاحیتوں کو نکھارنے پر کام کریں۔

اس بات پر ہمارے بہت سے دوست جرمنی فرانس جاپان چین کی مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن وہ یہ سب باتیں کرتے ہوئے اپنے ریجن کی تاریخ فراموش کر دیتے ہیں۔ یہاں تو کسی دور کی اشرافیہ نے عوام کی زبان کو نہیں اپنایا چاہے وہ مغل تھے ترک تھے یا انگریز تھے۔ لہٰذا نوجوان دوستوں سے ان کی ہی بہتری کے لئے گزارش ہے کہ اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مارکیٹ ایبل بنائیں۔ اب نہ تو 60 اور 70 کے عشروں کا سرخ سویرا نمودار ہونا ہے جس میں ریاست نے ہی ساری ذمہ داریاں اٹھانی ہوتی ہیں۔ اور نہ ہماری ریاست میں اب کوئی سکت باقی ہے۔ معجزوں کا انتظار چھوڑیے۔ اپنے دست و بازو پر بھروسا کیجئے۔ اگر اس حوالے سے کچھ بھی ڈسکس کرنا ہو تو آپ مجھے فیس بک پر لینگویج گرو کے نام سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔

ای میل کے لیے میرا پتہ languageguru1988@gmail.com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments