ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا سوال اور مولانا طارق جمیل کی وضاحت


ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے سوال پوچھا تھا کہ ”اگر پوری دنیا کی عورتیں فیصلہ کر لیں کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی تو سوچیے کیا ہو گا؟“

بخدا بہت کنفیوزنگ سوال تھا۔ مردانہ نقطہ نظر سے فوری اہمیت کی حامل بات یہ تھی کہ پتہ تو چلے کہ عورتوں کا یہ انکار کس صورت میں ہو گا؟ کوئی طبی طریقہ اختیار کیا جائے گا یا طبعی؟ یعنی خدانخواستہ کہیں سب عورتیں مردوں کو چھوڑ کر کہیں دور بہت دور تو نہیں جا بسیں گی کہ نہ ڈھولا ہو سی نہ رولا ہو سی (نہ محبوب ہو گا نہ فساد ہو گا)۔

اگر ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صرف گائناکالوجسٹ ہوتیں تو ہمیں حوصلہ ہوتا کہ وہ طبی طریقے ہی کا ذکر کر رہی ہوں گی، کوئی گولی یا ٹیکا بتا رہی ہوں گی۔ لیکن جب ان کے فیمنسٹ پس منظر کا خیال آیا تو لگا کہ طبعی دوری والا معاملہ ہی لگتا ہے۔ ہم دل مسوس کر رہ گئے۔

اگلے دن انہوں نے کچھ تسلی دلاسا دیا کہ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں جس طرح شرح پیدائش گر رہی ہے، وہ اس کے پس منظر میں بات کر رہی ہیں کہ اگر بچے پیدا ہونے ہی بند ہو گئے تو کیا ہو گا؟

سنا ہے کہ جاپان میں تو حالات یہ ہیں لڑکیاں اور لڑکے بالے کہتے ہیں ”جاب کریں یا پارٹنر؟ چلو جاب ہی کر لیتے ہیں“ ۔ یوں وہ سیکس تیاگ کر جوگی ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اوسط عمر بڑھتی جا رہی ہے۔ یوں ترقی یافتہ ممالک میں ریٹائرڈ بوڑھے زیادہ ہو رہے ہیں اور کام کرنے والے نوجوان کم۔

جنوبی کوریا میں تو صورت حال اتنی بگڑ چکی ہے کہ حکومت بچہ پیدا کرنے والوں کو ساڑھے دس ہزار ڈالر دے رہی ہے۔ جبکہ سیول کی ایک کمپنی نے بچہ پیدا کرنے والے ہر ملازم مرد و زن کو 75 ہزار امریکی ڈالر فی نومولود دینے کا پروگرام شروع کر دیا ہے۔

خیر ہم ابھی بیٹھے ہول کھا رہے تھے کہ خدا نے مدد کی اور مولانا طارق جمیل کا ایک بیان ہمیں کہیں سے مل گیا۔ مولانا نے فرمایا کہ ”قیامت سے تیس سال پہلے بچے پیدا ہونے بند ہو جائیں گے۔ کسی بچے پر قیامت نہیں آئے گی۔“

یوں ہمیں سب سے پہلے تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے اس سوال کا حقیقی پس منظر کیا ہے اور پھر ان کے سوال کا جواب بھی مل گیا کہ عورتوں نے بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو کیا ہو گا؟ اجی قیامت آ جائے گی قیامت۔

جزاک اللہ ڈاکٹر صاحبہ یہ دینی پیغام پہنچانے کے لیے۔ اور شیم آن پیپل جو ان کی دینی خدمات کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ بخدا ہمیں کبھی شبہ ہی نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پڑھے لکھے طبقے میں تبلیغی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ امید ہے کہ باقی افراد کی بدگمانی بھی دور ہو جائے گی اور وہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی تبلیغ کو کھلے دل سے قبول کریں گے۔

ہم مولانا طارق جمیل کے بیان کی تصدیق کر رہے تھے تو ہمیں چند بدگمان لوگ بھی ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا تو قرآن کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے سورہ حج کی پہلی دو آیات کا ذکر کیا جن کا ترجمہ ہے

”لوگو! اپنے رب سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ جس دن اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈال دے گی اور تجھے لوگ مدہوش نظر آئیں گے اور وہ مدہوش نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب سخت ہو گا“ ۔

معترضین کہنے لگے کہ یہ تو واضح ہے کہ روز قیامت دودھ پینے والے بچے موجود ہوں گے، تو مولانا طارق جمیل کیسے کہہ رہے ہیں کہ تیس برس پہلے ہی بچے پیدا ہونے بند ہو جائیں گے؟ اب یہ معترضین اپنا دینی علم دیکھیں اور مولانا طارق جمیل کا قد کاٹھ دیکھیں۔ ہمیں تو مولانا پر ایسا اعتبار ہے کہ ان کی دکان پر رکھی دو ہزار روپے کی ٹوپی بھی قبول ہے۔ اس قیمت میں بھی کوئی حکمت ہو گی جو ہم ابھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب آیات کی بات کرتے ہیں۔

ان آیات کے بارے میں تفسیر طبری میں لکھا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو آخرت سے پہلے دنیا میں ہو گا، یہ زلزلہ قیامت کی نشانیوں سے ہے۔

یعنی اسلاف کے ہاں یہ رائے موجود ہے کہ یہ زلزلہ قیامت نہیں بلکہ محض قیامت کی ایک نشانی ہے۔

تفسیر ابن کثیر کے مطابق اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا۔ یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہو گا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کر میدان میں جمع ہوں گے۔

ہمارے ہاں عام غلط فہمی ہے کہ روز قیامت بس چوبیس گھنٹے کے ایک زمینی دن جیسا ہو گا۔ سورہ المعارج میں اس کی مدت پچاس ہزار سال بتائی گئی ہے۔ صحیح احادیث میں سیدنا ابوہریرہؓ سے بھی روایت ہے کہ قیامت کے دن کی طوالت کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہے۔

پچاس ہزار برس کا دن ہو تو تیس برس پہلے بچے پیدا ہونے بند ہو جائیں تو حیرت کیسی؟ قیامت برپا ہو تو کسے ہوش ہو گا کہ کسی حسینہ سے رومان کرتا پھرے؟ جب زلزلے برپا ہوں گے، پتھر اڑ رہے ہوں گے، تو ایسے میں تو دنیا دار بھی ہیلمٹ پہننے کو ترجیح دیں گے۔

خیر، شکریہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ایسا سوال اٹھانے کا جس سے ہمیں قیامت یاد آئی۔ اور شکریہ مولانا طارق جمیل اس سوال کا شافی و کافی جواب دینے کا۔ اب چلتے چلتے آخری بات بھی کر لیں۔

مولانا طارق جمیل نے اس بیان کے بعد کہ تیس سال پہلے بچے پیدا ہونے بند ہو جائیں گے، اگلے جملے میں یہ بھی فرمایا کہ ”وہ ہولناکی بتانے کے لیے تشبیہ ہے، یہ نہیں کہ ایسا ہو رہا ہو گا،“ مگر یہ تو قطعاً غیر اہم سی ضمنی بات ہے۔ اس کا ذکر کیا کرنا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1544 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments