بندیا رانا: ایک ذہین، باشعور اور بہادر خواجہ سرا جس نے ہار نہیں مانی


اس سے پہلے جب سوشل میڈیا اتنا پاور فل نہیں تھا اس وقت بھی خواجہ سراؤں کے ساتھ ریپ ہوتے تھے خواجہ سراؤں کے قتل ہوتے تھے۔ لیکن لوگوں کو اس کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ آج کل (خواجہ سرا) خود کو ایکٹریس کہلوانے لگے ہیں۔ میں ان سے بولتی ہوں کہ اگر آپ پندرہ بیس سال پہلے آتیں تو پہلے کسی کا چیلا بنتی، چیلا بننے کے بعد گلیوں کی خاک چھانتی پھروہ تماش بین جو زور زبردستی کرتے ہیں، نوچتے ہیں، ریپ کرتے ہیں، پہلے ان کے ڈنڈے کھاؤ اس کے بعد ہماری بات کرو۔

اپنا درد تو صرف ہم ہی جانتی ہیں ناں۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ آپ نے تین چار خواجہ سرا بلوالیے، انھیں بریانی کھلادی ہزار ہزار روپے دے دیے، اور پھر ان سے سچ بولنے کی توقع رکھیں۔ وہ بھلا آپ کے سامنے سچ کیوں بولیں گی۔ وہ تو یہ بولیں گی ناں کہ ہم تو بہت پارسا ہیں، ہم یہ کام نہیں کرتیں، فلانی یہ کام کرتی ہے۔

س: خواجہ سراؤں کی کتنی قسمیں ہیں؟

ج: خواجہ سراؤں میں مختلف قسم کی کیٹگریز ہیں۔ ایک کیٹگری تو وہ ہے جو گرو چیلا سسٹم میں ہوتی ہے۔ ان کے گھر میں خواجہ سرا کے علاوہ کسی بھی بندے کی انٹری بند ہوتی ہے۔ جب ہم بات کرتے ہیں ناں مسجد، مندر، گرجا، مڑھی، مڑھی اسی طرح وہ جگہ ہوتی ہے جہاں خواجہ سرا رہتے ہیں انھوں نے حج اور عمرے کیے ہوتے ہیں۔ یہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتے ہیں۔ اگر کوئی خواجہ سرا ینگ (جوان ) ہو تو انھیں ان کے قاعدے قوانین فالو کرنا پڑتے ہیں۔

صبح سویرے اٹھنا، اٹھنے کے بعد منہ ہاتھ دھونا، وضو بنانا، نماز ادا کرنا، نماز پڑھنے کے بعد ناشتہ تیار کرنا، کوئی چیز لانی اس کے بعد خیرات کے لیے نکلنایا شادی بیاہ میں جو کچھ بھی میسر آیا۔ شام کو واپس آکرمغرب کی نماز ادا کرنا اس کے بعد کھانا کھاکر سو جانا۔ یہ پابندی ہوتی ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد ٹی وی نہیں چلے گا۔ کھانا کھاؤ اور سو جاؤ زیادہ دل پریشان ہورہا ہے تو قرآن مجید کھول کر پڑھ لو۔ یہی نہیں بلکہ ٹیلی فون اور موبائل پر بات کرنے پر بھی پابندی ہوتی ہے آدھی رات کو تم کس سے باتیں کررہی ہو؟

ایک اور گروپ ان خواجہ سراؤں پر مشتمل ہے جو آج کل گلیوں بازاروں میں مختلف سڑکوں اور چوراہوں کے سگنلوں پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میک اپ کے باوجود ان کی داڑھیاں بھی نظر آرہی ہوتی ہیں، ان کی داڑھیاں دیکھ کر لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ ارے بھئی یہ تو مرد ہیں۔ دیکھیں ہم میں تین قسم کی جنس ہوتی ہیں۔ ایک مرد خواجہ سرا، عورت خواجہ سرا اور مخنث خواجہ سرا۔ اور یہ مخنث خواجہ سرا جو ہوتا ہے ا س کی داڑھی بھی ہوتی ہے اور مونچھیں بھی ہوتی ہیں۔

اب اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے مرد پیدا کیا ہے لیکن آپ نے اندر روح عورتوں جیسی ڈال دی ہے تو کیا آپ رب کائنات سے لڑائی کریں گے؟ وہ بے چارے اپنی روح سے مجبور ہوتی ہیں۔ آج کل تو ڈیجیٹل دور ہے۔ آپ مرد کو عورت بنا سکتے ہیں اور عورت کو مرد لیکن کیا آپ اس کا دل تبدیل کرسکتے ہیں؟ بندیا رانا کی نقل و حرکت تو تبدیل نہیں کرسکتے ناں۔

ایک قسم خواجہ سراؤں کی وہ ہے جو سیکس ورکر کے طور پر کام کرتے ہیں عام لوگ ہمیں یہ طعنے مارتے ہیں کہ آپ کے خواجہ سراؤں کو تو کسی قسم کی شرم و حیا ہی نہیں ہے وہ کھلے عام سڑکوں پر سیکس ورک کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ سرعام گناہ کی دعوت دے کر اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن میں ان لوگوں سے یہ پوچھنا چاہوں گی کہ کوئی مجھے یہ بتائے کہ کیا کوئی خواجہ سرا کسی دوسرے خواجہ سرا کے انتظار میں کھڑا ہوا ہوتا ہے؟

کیا کسی نے ان سے جاکر پوچھنے کی زحمت گوارا کی کہ وہ کن مجبوریوں کے تحت یہ افعال سرانجام دے رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی بہنیں گھروں میں جوان بیٹھی ہوں، یا اس کے گھر میں اس کے بوڑھے ماں باپ موجود ہوں وہ یہ کام کرکے ان کی کفالت کی اہم ذمہ داری ادا کررہا ہو، ہوسکتا ہے کہ ا س کے گھر میں ا س کا کوئی عزیز بیمار ہو اور اس کی دوائی خریدنا ہو یا اس کے مکان کا کرایہ دینا باقی ہو۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسے نا چ گانے کے پروگرام ہی نہ مل رہے ہوں نہ ہی اسے کوئی بھیک دینے پر تیار ہو وہ مجبوری کی حالت میں اپنا جسم بیچ کر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہو۔ اگر کسی اچھی اور قیمتی کار میں بیٹھا ہوا کوئی شخص کسی پوش علاقے میں پہنچ کر اس خواجہ سرا کو اپنی کار میں بٹھاتا ہے اسے کسی جگہ لے جاکر اس کے جسم کو نوچتا ہے اپنی ہوس کی آگ بجھاکرسارا الزام اس خواجہ سرا کو دیتا ہے تو میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ ایسا شخص بذات خود کیا ہے؟

ایک خواجہ سراؤں کی کیٹگری وہ ہے جو راتوں کو شادی بیاہ یا دیگر نجی تقریبات میں ایکو ساؤنڈ کی موسیقی پر ناچتے ہیں۔ یہ لوگ جن فنکشنوں میں پرفارم کرتے ہیں وہاں شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال عام ہوتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ یہ نشہ آور اشیاء کیوں استعمال کرتی ہیں تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم جس قسم کی تقریبات میں پرفارم کرتی ہیں وہاں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ہمیں چٹکیاں بھر رہا ہوتا ہے تو کوئی ہمیں اپنی گود میں زبردستی بٹھا رہا ہوتا ہے، کوئی ہمارے گال اپنے کاٹ رہا ہوتا ہے۔

ایسی حالت میں ہم بھی نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتی ہیں جنھیں پی کر ہمیں خود کا ہوش نہیں رہتا اور نشے کی حالت میں ہمارے ساتھ کوئی جو کچھ بھی کرتا ہے ہمیں اس کا احساس یا تکلیف نہیں ہوتی۔ ہم کیا کریں؟ ہم تو مجبور ہیں ہمیں کسی نہ کسی طرح اپنا پیٹ تو بھرنا ہوتا ہے ناں۔ کوئی اگر کسی خواجہ سرا کو اپنا دوست بناتا ہے اگر پھر اسے اس خواجہ سرا سے زیادہ خوبصورت کوئی اور خواجہ سرا مل جائے تو وہ بے وفائی کرتا ہے۔

اس ظلم و زیادتی کے نتیجے میں خواجہ سراؤں کے اندر احساس کمتری کا المیہ جنم لیتا ہے وہ اپنے احساس کو بھلانے یا دور کرنے کے لیے ہاتھوں پر بلیڈ کے ذریعے زخم لگاتے ہیں، منشیات کا بھی بے دریغ استعمال شروع کردیتے ہیں۔ یہ خواجہ سرا جیسے جیسے اس منشیات کی لعنت کا شکار ہوکر بے تحاشا شراب نوشی اور منشیات کے استعمال کرتے ہیں ویسے ویسے ان کی شکل و صورت بھی تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے وہ دن بدن نقاہت اور کمزور ی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

پھر یہ خواجہ سرا نہ تو ناچ گانے کے لائق ہی رہتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ بھیک ہی مانگ سکتے ہیں۔ نشے کے زیر اثر ان کے رویوں میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے دوسروں سے الجھنے لگتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ کسی کرائے کے مکان میں رہ رہے ہوتے ہیں آئے دن کے لڑائی جھگڑوں سے تنگ آکر مالک مکان ان کو مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیتا ہے اور اس کے ساتھیوں اور دوستوں سے کہتا ہے کہ اگر اس (خواجہ سرا) کو اپنے ساتھ مکان میں رکھنا ہے تو پہلی فرصت میں ہمارا مکان خالی کردیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس قسم کے خواجہ سراؤں کو گھروں سے نکلنا پڑتا ہے، وہ سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں، اپنی راتیں کسی فٹ پاتھ یا باغوں اور پارکوں میں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments