بیٹی کی “قندیل”۔۔۔ گویا دبستاں کھل گیا


گڑیا اپنی جگہ، کھلونے کو کتاب بنتے کتنی دیر لگتی ہے۔ آج کل کے ان گیجٹز میں ہدایات برائے نام ہوتی ہیں اور پرچۂ ترکیب استعمال بھی مختصر۔ مجھے لگتا ہے میرے علاوہ سبھی کو سب کچھ آتا ہے۔ ’’آپ چاہیں تو اسے قندیل کہہ سکتے ہیں…..‘‘ بیٹی نے میرے ہاتھ سے اسے لے لیا اور نیچے چھپا ہوا ننھا سا بٹن ناخن کی کگر سے دبا دیا۔ اسکرین روشن ہوئی اور اس پر تصویر نمودار ہونے لگی۔

’’اب آپ اسے صفحے کی طرح پلٹ سکتے ہیں‘‘ اس نے عمل کر کے دکھایا۔ پھر میرے لیے اکائونٹ بننے لگا۔ یعنی کھاتا کھل گیا۔ وہ مختلف معلومات کو حسب ضرورت ٹائپ کرتی رہی اور ایک مرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوسرا۔ ہر مرحلے میں ایک کہانی۔ ’’آپ کو زبان کون سی درکار ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ پھر میرے حیران لہجے کے جواب میں خود ہی سوال کیا۔ ’’انگلستان کی انگریزی یا امریکا کی انگریزی؟‘‘

اس پر میں سوچ میں پڑ گیا۔ دونوں کے درمیان انتخاب مشکل۔ انگلستان والی انگریزی، بچپن میں اسکول میں پڑھی ہے مگر اب زیادہ سابقہ امریکی انگریزی سے پڑتا ہے۔ اب میں کیا پسند کروں؟ ان باتوں پر تو کسی نے میری پسند پوچھی ہی نہیں تھی۔

’’اب کوئی نام تلاش کیجیے …..‘‘ اس نے ہدایات دیں۔ پھر خود ہی ماریو برگس یوسا کا نام درج کیا۔ ’’آپ کون سی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں؟‘‘ اس نےپوچھا اور پھر پھنس پڑے جب میں نے کہا ’’سبھی!‘‘

اس کے بعد اگلا مرحلہ خواہش و خواب کا تھا۔ جس کتاب کا نام یاد آئے ٹائپ کر کے دیکھیے، اس کا سرورق ابھر آئے گا۔ میری آنکھیں خیرہ ہوئی جارہی تھیں۔ یا خدا، کیا دیکھوں اور کیا چھوڑ دوں؟

بس پھر کیا دیر تھی۔ سم سم والا دروازہ کھُل گیا۔ علی بابا کی نگاہیں غار میں ذخیرہ کیے ہوئے زر و جواہر سے خیرہ ہوگئیں۔ کتابیں تو بہت تھیں لیکن خیال یہ آیا کہ اب تلاش و جستجو کے جان لیوا مراحل ختم ہو جائیں گے؟ ابھی کل تک کی تو بات ہے ہر کتاب ایک جستجو کا قصّہ بھی تو اپنے اندر سمیٹے ہوتے تھی۔ کتنا ڈھونڈا، کہاں سےملی۔ جتنی کتابیں، اتنی کہانیاں۔

اب یہ کہانیاں کہاں جائیں گی؟ کتابوں کے نام مختلف اشتہاروں، فہرستوں، تبصروں سے دیکھ کر دل پر نقش کر لیا کرتا تھا۔ کہیں یہ کتاب مل جائے۔ کوئی آتا جاتا ہو تو اس سے فرمائش کر لی جائے۔ کبھی ڈاکٹر شیر شاہ سیّد، کبھی سعید نقوی تو کبھی مبشر علی زیدی میرے لیے کتاب بردار کتاب دوست بن گئے۔ پھر لاہور، کراچی، اسلام آباد کی دکانوں کے پھیرے یا مختلف ذرائع سے استفسار۔ کبھی موقع مل گیا تو دیار غیر کے شہروں میں کتابوں کے سرچشمے۔ اسلام آباد میں پرانی کتابوں سے مالا مال دکانیں۔ پھر لاہور میں سب سے بڑھ کر ریڈنگز اور دی لاسٹ ورڈ۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ جس کتاب کا نام حسرت سے مکتب کی دیوار پر لکھ رہا تھا، وہ یہاں مل گئی۔ اس معاملے میں لاہور بہت آگے ہے جب کہ کراچی پھسّڈی رہ گیا۔ وہ ادب پاروں کی نت نئی کتابوں کا اختصاص رکھنے والی دکانیں خواب و خیال ہوگئیں، ہر جگہ بیسٹ سیلرز کی چمک دمک ہے جو بالکل مصنوعی معلوم ہوتی ہے۔ کتابوں کی دکانوں کا زوال ایک عجیب عبرت انگیز سلسلہ ہے جو مجھے اپنے مطالعے کی کہانی سے پیوستہ نظر آتا ہے۔ زوال کے منظر میں بہار کی امید اب بھی باقی ہے۔

اصل میں کتابوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہوں تو مشکل اور نہ ہوں تو مشکل۔ میرے ایک دوست نے تصویر بنائی تھی کہ بہت سی کتابوں کا ڈھیر ہے جن کے پڑھنے کی ابھی نوبت نہیں آئی۔ ان پر چادر بچھا کر لیٹنے کی آرام دہ جگہ بنا لی گئی ہے۔ اس میں یہ سہولت بھی ہے کہ لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھایا اور بستر کے اندر سے کتاب نکال لی۔ پرانے زمانے کے ان حکماء کا حال بھی پڑھنے کو ملا جو سفر پر جاتے تھے تو کئی اونٹوں پر لدا ہوا کتب خانہ بھی ساتھ چلتا تھا۔ نہ جانے کس گھڑی کون سی کتاب یاد آ جائے۔ اتنے بہت سے اونٹوں کے بجائے وہ اب کنڈل جیب میں ڈال کر کتابوں سے بھرا سفر کر سکتے ہیں۔

اسی طرح خیال آیا کہ چلو اس نئے کھلونے کو آزما کے دیکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک کتاب کا نام سامنے آیا تھا، پاچنکو۔ کوریا کے پس منظر میں اس ناول کو من جن لی نے لکھا اور یہ امریکا میں بیسٹ سیلر بن گیا، عجیب اتفاق ہے پچھلے دنوں سابق صدر بارک اوباما نے اس کتاب کا ذکر کیا۔ اوباما تو صدارت کے عہدے سے اُتر کر بھی بڑے آدمی ہیں، میں بھی اس کتاب کو پڑھنا چاہتا تھا۔ لاہور سے معلوم کروایا تو پتہ چلا، ختم ہوگئی۔ کراچی والوں سے پوچھا تو کہا، ابھی آئی نہیں۔ یہ بھی خوب رہی۔ میں نے سوچا اس کھلونے کے ذریعے سے یہی کتاب حاصل کروں۔ نام پتہ درج کرایا، کریڈٹ کارڈ کا نمبر، کچھ گھمانا پھرانا پڑا اور پھر کتاب کے ورق اس میں کھُلنے لگے۔ اسٹوریج میں پہلی کتاب آ گئی، مجھے اطلاع مل گئی۔ اب میری مرضی اس کو لیٹ کر پڑھوں یا بیٹھ کر۔ کتاب دسترس میں آ گئی۔ باسودے کی مریم کے لہجے میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں، اور تیرے کو کیا چہیّے؟

اب تو اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ اس سے زیادہ کی کیا ہوس کروں؟ اور کیوں؟ خیال آیا کہ کتاب مل گئی ہے تویہ لمحہ میرے لیے تاریخ ساز ہوگیا۔ اس کی تصویر کھینچ کر فیس بک پر لگا دوں۔ چناں چہ ایسا ہی کیا۔ دوستوں کے تاثرات سامنے آنے لگے۔ ایک دوست نے لکھا کہ یہ چیز خوب ہے مگر کتابوں کو ہاتھ میں تھامنے کی لذّت ہی اور ہے۔

ایک محترم خاتون نے بڑے اصرار کے ساتھ نفی سے اپنی بات کا آغاز کیا کہ یہ اصلی کتاب کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ خاص موقعوں پر مفید رہتا ہے۔ جیسے کہ سفر جب بہت ساری کتابیں اٹھائے پھرنا وبال بن سکا ہے ۔ ایک اور عزیزہ نے رطب اللسان ہوکر کہا مگر وہ کتابوں کا لمس اور کاغذ کی خوش بو!

کینیڈا سے ایک دوست نے خبردار کیا کہ شوق میں وہ بھی اسے گھر لے کر آئے تھے مگر زیادہ استعمال نہیں ہوسکا۔ لاہور سے مسعود اشعر صاحب نے لکھا: بہت کام کی چیز ہے۔ سفر میں کام آتا ہے۔

ایک صاحب نے اسے بہترین قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے وہ الماریوں کے چھ خانے خالی کر چکے ہیں۔ کتابوں کی یہ چھانٹی مجھے بہت بری لگی۔ سوچا کہ ان سے فوراً ان بولا کر لوں۔ یعنی ان کے تمام میسیجز کو ’’منجمد‘‘ کرکے وقتی طور پر ان فرینڈ کر دوں۔ مگر پھر میں رک گیا۔

میرے عزیز دوست اور معاصر افسانہ نگار محمد حمید شاہد نے میری بیٹی کو دعائیں دیں۔ پھر پوچھا کہ بیٹی جو لے کر آئی ہیں اس کا ماڈل کون سا ہے اور کیا یہ اردو، فارسی، عربی وغیرہ کے لیے بھی یونی کوڈ سپورٹ فراہم کرتی ہے؟ لیجیے، یہ تو میں نے پوچھا ہی نہیں تھا۔ نیا کھلونا دیکھ کر جلدی بہل گیا۔ میری کتابِ دل کھلی ہے اور اس کے سامنے بھی تو بچّہ بیٹھا ہوا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند، میں اپنے آپ پر نام دھرتا ہوں اور خود ہی ہنس پڑتا ہوں۔ کیسی انوکھی بات رے۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2