چیف جسٹس صاحب کے نام ایک خط پر تبصرہ


خاکسار نے گزشتہ کالم میں ’ملی مجلس شرعی‘ نامی ایک تنظیم کے کچھ مطالبات پر تبصرہ کیا تھا۔ اس تنظیم نے احمدیوں کے خلاف مطالبات کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے۔ اس عاجز نے عرض کی تھی کہ خاکسار اس کالم میں صرف ایک مطالبہ پر تبصرہ پیش کرے گا اور باقی مطالبات کا جائزہ آئندہ کسی کالم میں لیا جائے گا۔ لیکن پیشتر اس کے کہ خاکسار اگلا کالم لکھنا شروع کرتا، چیف جسٹس صاحب کے نام ایک کھلا خط جاری کیا گیا ہے۔ یہ خط اسی رسالہ کے نائب مدیر اعلیٰ اللہ وسایا صاحب کے دستخطوں سے ’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ کے لیٹر ہیڈ پر جاری کیا گیا ہے، جس رسالہ میں مذکورہ مطالبات شائع ہوئے تھے۔

ایک احمدی شہری کی ضمانت کا فیصلہ لکھتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے چند آیات کریمہ کے حوالے دیے تھے۔ علما کا یہ مطالبہ تھا کہ اس فیصلہ میں قرآن مجید کی آیات کو شامل نہ کیا جائے۔ یہ آیات کریمہ غیر متعلقہ ہیں۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ مذہبی آزادی اور دوسرے معاملات میں قرآن مجید کی آیات کو غیرمتعلقہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ کسی شخص کی تفسیر سے اختلاف کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کالم میں اس پہلو پر بحث نہیں کی جائے گی۔

اس تازہ پیش رفت سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ اس ہنگامے کا اصل ہدف احمدی نہیں ہیں۔ احمدیوں کی مخالفت کا سہارا اس لئے لیا جا رہا ہے کیونکہ اس موضوع پر عوام کے جذبات کو بھڑکانا آسان ہوتا ہے اور کوئی مخالفت کرنے کی جرات بھی نہیں کرتا۔ لیکن اس مہم کے اصل اہداف کچھ اور معلوم ہوتے ہیں اور اگر یہ مہم کامیاب ہوتی ہے تو تفرقہ بازی کا ایک نیا طوفان برپا ہو گا۔ جیسا کہ 1950 کی دہائی میں احمدیوں کے خلاف شورش شروع کی گئی اور اصل مقصد خواجہ ناظم الدین صاحب کی حکومت کو ہٹانا تھا۔ 1970 کی دہائی میں دوبارہ احمدیوں کے خلاف شورش شروع کی گئی۔ بھٹو صاحب نے مطالبات تسلیم بھی کر لئے لیکن اس کے با وجود انہی مذہبی سیاسی جماعتوں نے تین سال کے اندر اندر بھٹو صاحب کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ چلائی جس کا انجام ضیا صاحب کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

اس تمہید کے بعد ہم اللہ وسایا صاحب کے اس خط کی طرف آتے ہیں۔ یہ خط پڑھتے ہوئے ہمیں امید تھی کہ اس کا آغاز ہی احمدیوں پر تنقید سے ہو گا لیکن اس توقع کے برعکس اس خط کے آغاز میں چیف جسٹس صاحب کو مخاطب کر کے لکھا ہے :

”آپ کے اس منصب کو سنبھالنے سے پہلے یہ بات گردش کر رہی تھی کہ آپ کی غامدی صاحب کے حلقہ کے حضرات سے تعلق و شناسائی ہے۔“

ذاتی طور پر مجھے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ چیف جسٹس صاحب یا دوسرے جج صاحبان کا تعلق کس مسلک یا سوچ سے ہے یا یہ کہ ان کی کس سے شناسائی ہے اور کس سے شناسائی نہیں ہے۔ اور پاکستان کے کسی اور شہری کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے ذاتی عقائد اور تعلقات کی چھان بین کرے۔ جج صاحبان کا فرض ہے کہ اپنے فرائض دیانتداری اور محنت سے ادا کریں اور بس۔ اور آئین میں اس بات پر کوئی پابندی نہیں کہ کس مسلک کا شخص جج بن سکتا اور کس مسلک سے وابستہ شخص جج نہیں بن سکتا۔ اگر اس ضمن میں آئین میں کچھ لکھا ہے تو آرٹیکل 27 میں یہ لکھا ہے:

”کسی شہری کے ساتھ جو بہ اعتبار دیگر پاکستان میں ملازمت میں تقرر کا اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلہ میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا جائے پیدائش کی بناء پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔“

لیکن اس خط میں اس بات پر اعتراض نہیں کیا جا رہا کہ آپ نظریاتی طور پر غامدی صاحب کے زیر اثر ہیں بلکہ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ آپ کی ان کے حلقہ کے چند لوگوں سے کچھ شناسائی ہے۔ کیا یہ بات تعزیرات پاکستان میں کوئی جرم ہے؟ اس کے بعد اس خط میں ان اعتراضات کا بے ربط سلسلہ جاری رہتا ہے اور عمار ناصر صاحب پر کچھ غصہ نکالا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی نامعلوم وجہ سے اسلامی یونیورسٹی کے کسی سابق پروفیسر مشتاق صاحب کا ذکر کیا جاتا ہے کہ انہیں اسلامی یونیورسٹی نے فارغ کر دیا تھا لیکن آپ نے انہیں اپنے زیر سایہ لے لیا۔ اور پھر ان ڈاکٹر صاحب کے نظریات کے بارے میں کچھ مبہم جملے لکھے ہیں۔

اس خط کے مندرجات اتنے بے ربط ہیں کہ شروع میں سمجھ نہیں آتی کہ ان امور کا ذکر کرنے سے اللہ وسایا صاحب کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ شاید یہ خط تو بے ربط ہے لیکن اس کے مقاصد اتنے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان کا مقصد سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنا ہے اور اس دباؤ کے مقاصد صرف زیر سماعت مقدمہ تک محدود نہیں ہیں۔ خاکسار نے گزشتہ کالم میں ’ملی مجلس شرعی‘ کے مطالبات کا ذکر کیا تھا۔ ان مطالبات میں چیف جسٹس صاحب کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے

”انہیں خود محسوس کرنا چاہیے کہ وہ قرآنی علوم کے ماہر نہیں ہیں لہذاٰ انہیں چاہیے کہ قرآن کریم سے براہ راست خود استفادہ کرنے کی بجائے ان اہل علم سے مشورہ لے لیا کریں جنہوں نے ساری عمر قرآن حکیم کو سمجھنے سمجھانے اور سیکھنے سکھانے میں گزاری ہے جیسا کہ انہوں نے 26 فروری 2024 والے فیصلہ میں کیا ہے۔“ (ہفت روزہ ختم نبوت جلد 43 نمبر 14۔ 15 ص 21 )

اس مطالبہ کا مقصد واضح ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ ایک عام شہری تو ایک طرف رہا ملک کا چیف جسٹس بھی قرآن کریم سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتا۔ اس پر لازم ہے کہ وہ علماء سے مشورہ کرے اور ان کے مشوروں پر عمل کرے۔ اردو لغت ملاحظہ فرما لیں لفظ ’استفادہ‘ کا مطلب ہے ’فائدہ اٹھانا‘ یا ’نفع پانا‘ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا اصرار ہے کہ کوئی کلام اللہ سے براہ راست فائدہ بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بہر حال ان علماء کے پاس جانا ہو گا۔ ایک لمحہ ٹھہر کر اس ضمن میں آئین کی شق 31 کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس میں لکھا ہے :

” پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کا مفہوم سمجھ سکیں۔“

آئین میں تو یہ لکھا ہے کہ پاکستان کے ہر مسلمان کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ قرآن و سنت کا مفہوم سمجھ سکے لیکن ملی مجلس شرعی یہ اعلان کر رہی ہے کہ ملک کا چیف جسٹس بھی قرآن پاک سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتا۔ اسے علماء کی رائے کا پابند ہونا پڑے گا۔ اگر ایسا ہی تو آئین میں یہ شق داخل کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ اب اس بحث کو چھوڑ کر یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا معزز جج صاحبان کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ تمام علماء سے مشورہ لیں یا اس پر بھی کچھ حدود و قیود عائد ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے بہت سی مختلف مذہبی تنظیموں سے ان کی رائے طلب کی تھی۔ اور آرڈر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ان کے علاوہ بھی جو تنظیم یا فرد رائے دینا چاہے وہ مقررہ تاریخ تک اپنی رائے سپریم کورٹ کو بھجوا دے۔ بعد میں اس تاریخ میں بھی توسیع کر دی گئی۔ لیکن ’ملی مجلس شرعی‘ کو اس طریقہ کار پر بھی شدید اعتراض تھا۔ ان کے مطالبات میں لکھا ہے :

” اہل علم سے مشورہ لینے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ مشورہ ان سے لیا جائے جو امت کی 1450 سالہ علمی روایات کے امین ہیں اور ’جمہور علماء‘ اور ’جمہور ملت‘ کہلاتے ہیں نہ کہ شاذ رائے رکھنے والے کسی ایسے متجدد سے کو مغرب کی الحادی فکر و تہذیب سے مرعوب ہو کر قرآن و سنت کی تشریح ایسے کرتا ہو جو مغربی فکر و تہذیب اور اس کے علمبرداروں کے مفادات کے مطابق ہو جیسے جاوید احمد غامدی صاحب جنہیں سارے پاکستان کے علماء گمراہ قرار دے چکے ہیں۔ جن کے ادارے المورد کو چیف جسٹس صاحب نے مشاورت کے لئے بلایا ہے۔ اگر وہ ان جیسے لوگوں سے مشاورت کریں گے تو پاکستان کی ملت اسلامیہ کبھی ان کے فیصلوں کو قبول نہیں کرے گی۔“

(ہفت روزہ ختم نبوت جلد 43 نمبر 14۔ 15 ص 21 )

اسی طرح اللہ وسایا صاحب نے چیف جسٹس صاحب کے نام اپنے خط میں اس بار پر بہت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے دوسرے اداروں اور مدرسوں کے علاوہ غامدی صاحب کے ادارہ المورد اور جامعہ امدادیہ سے بھی مشورہ طلب کیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان مطالبات میں سے ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ ملک کے ہر قانون کو قرآنی تعلیمات کے مطابق تو ہونا چاہیے لیکن ملک کے اعلیٰ ترین عدالت کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ براہ راست قرآن عظیم سے استفادہ کر سکے۔ اس کے لئے انہیں بہر حال علماء کی رائے پر عمل کرنا ہو گا۔ اور انہیں یہ اختیار بھی حاصل نہیں ہو گا کہ وہ ہر مسلک کے علماء سے مشورہ کر سکیں کیونکہ پاکستان کے کچھ علماء نے دوسرے علماء کو گمراہ قرار دے دیا ہے۔ اس لیے ان گمراہ علماء سے مشورہ کرنے کی اجازت تو بہر حال نہیں دی جا سکتی۔ شاید اس سوچ کا انجام یہ ہو کہ حکومت کو دو فہرستیں جاری کرنی پڑیں۔ ایک فہرست تو ’گمراہ اور ملحد علما‘ کی ہو گی اور دوسری ان علماء کی جنہیں یہ گروہ ’جمہور علما‘ قرار دے رہا ہے۔ یہ بات اس عاجز کی سمجھ سے بالا ہے کہ یہ فیصلہ کس طرح ہو گا کہ کون سے علماء ’جمہور علماء‘ کے گروہ میں شامل ہیں۔ کیا یہ معلوم کرنے کے لئے علیحدہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ آخر میں اس عاجز کے ایک سوال کا جواب عنایت فرما دیں۔ جب پاکستان بننے کی تحریک چل رہی تھی تو جمہور علماء اس کی حمایت کر رہے تھے یا مخالفت؟ اگر جمہور علماء کی رائے پر عمل کیا جاتا تو کیا پاکستان کا قیام ممکن تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments