شہباز شریف اور حمزہ نے مسلم لیگ نواز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے


شہباز شریف کی قیادت کے حوالے سے ہمیشہ ہی سوالات اٹھتے آئے ہیں۔ نہ تو شہباز شریف جدید دور کے سیاسی تقاضوں پر پورا اترتے ہیں اور نہ ہی ان میں عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ کچھ یہی صورتحال حمزہ شہباز کی ہے جو انتخابی حلقوں کی سیاست کے جوڑ توڑ کے ماہر تو سمجھے جاتے ہیں لیکن ان میں ایک مقبول سیاسی راہنما بننے کے گر موجود نہیں ہیں۔ یہ دونوں باپ بیٹے آج بھی روایتی سیاست کا علم اٹھائے ایسٹیبلیشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے پنجاب کی حد تک اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے آج کے دن تک ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی توثیق نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ دونوں نواز شریف کی مزاحمتی سیاست کے بیانیے اور مریم نواز کے ایک مقبول عوامی راہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آنے سے خوش ہیں۔ شہباز شریف دو کشتیوں کے مسافر ہیں جو ایک طرف اپنے بڑے بھائی کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے اور دوسری جانب ایسٹیبلیشمنٹ سے بھی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔

جبکہ حمزہ شہباز دبے الفاظ میں ہمیشہ نواز شریف کے بیانیے سے اظہار لاتعلقی کرتے پائے جاتے ہیں۔ 13 جولائی کو شہباز شریف نے مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو مال روڈ کی سیر کروانے میں مصروف رکھا اور یوں مسلم لیگ نواز کے کارکن نواز شریف اور مریم نواز کے استقبال کے لئے ائیرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ اگر اس روز پرجوش سیاسی کارکن نواز شریف اور مریم نواز کے استقبال کے لئے ائیرپورٹ کے باہر پہنچ جاتے تو شاید سب کو یقین ہو جاتا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کرسی اور طاقت کے حصول کے بجائے جمہوری بالادستی کی جنگ پر یقین رکھتے ہیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ شہباز شریف نے حسب عادت مقتدر قوتوں کے احکامات کی تکمیل کرتے ہوئے مال روڈ تک رہنے پر ہی اکتفا کیا۔ جبکہ اس کے برعکس سینیٹر مشاہد اللہ خان جن کا شمار نواز شریف کے قریبی رفقا میں ہوتا ہے اپنے قائد کے استقبال کے لئے مٹھی بھر کارکنوں کے ہمراہ ائیر پورٹ کے باہر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر شہباز شریف اور حمزہ شہباز ائیرہورٹ پہنچنا چاہتے تو باآسانی کارکنوں کے ہمراہ پہنچ سکتے تھے۔

نواز شریف اور مریم نواز کے جیل جاتے ہی مسلم لیگ نواز کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو بھی ایک طرح سے ختم کیا جا چکا ہے۔ شہباز شریف کا سارا زور اپنے دور اقتدار میں پنجاب میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کو اجاگر کروانے کی جانب ہے اور جلسوں جلوسوں میں وہ ایک دو بڑھکیں لگانے اور نواز شریف کے پابند سلاسل ہونے کا ذکر کر کے مزاحمتی بیانیے سے جان چھڑواتے نظر آتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر شہباز شریف نے آج کی تاریخ تک راجہ قمرالاسلام کے حلقے میں ایک بھی جلسہ کرنا مناسب نہیں سمجھا حبلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو وہ بھلائے بیٹھے ہیں۔

اگر شہباز شریف کی یہ روش قائم رہی تو راولپنڈی اور اسلام آباد سے مسلم لیگ نواز کو انتخابات کے نتیجے میں شدید جھٹکا لگنے کے سو فیصد امکانات موجود ہیں۔ اپنے بھائی کے بیانیے سے انحراف کر کے شہباز شریف شاید حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کی پنجاب میں موجود بزنس امپائر کو بچانا چاہتے ہیں اور مستقبل میں مقتدر قوتوں سے بات چیت کا در بھی کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ شاید شہباز شریف اپنے بیٹوں کے کاروبار بچانے میں کامیاب تو ہو جائیں گے لیکن نہ تو وہ حمزہ شہباز کو مسلم لیگ نواز اور نواز شریف کا جانشین بنا پائیں گے اور نہ ہی وہ نواز شریف کے جماعتی امور پر اثر و رسوخ کو کم کرنے پائیں گے۔

مسلم لیگ نواز کے بہت سے اندھی عقیدت کا شکار سپورٹرز کو ابھی بھی یہ خوش گمانی ہے کہ شہباز شریف نے اپنے بھائی کے بیانیے کو مسترد نہیں کیا اور نہ ہی تیرہ جولائی کو انہوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ائیر پورٹ جانے سے دانستہ طور پر گریز کیا۔ مسلم لیگ نواز کے یہ اندھے سپورٹرز پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی مانند یہ دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز آج بھی ایسٹیبلیشمنٹ سے ڈیل کے خواہاں ہیں اور پنجاب میں کاروباری مفاد کی وجہ سے یہ دونوں باپ بیٹے ویسے ہی ایسٹیبلیشمنٹ کے چرنوں کو چھونے کو تیار ہیں جیسے کہ فی الحال عمران خان اور آصف زرداری چھو رہے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہباز شریف ایسٹیبلیشمنٹ کی خوشنودی حاصل کر کے پنجاب کے صوبے میں اپنی جماعت کی حکمرانی برقرار رکھ پائیں گے؟ اور کیا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی اطاعت اور فرمانبرداری سے خوش ہو کر ایسٹیبلیشمنٹ ان کو پنجاب کی صوبائی حکومت بنانے دے گی؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ مقتدر قوتیں کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ مرکز میں ” سنجرانی ” جیسی کٹھ پتلی کو حکومت سونپنے کے بعد پنجاب کو کسی اور کو سونپ دیا جائے۔ شہباز شریف اور حمزہ نے روز اول سے سیاسی بساط کو غلط انداز سے سمجھا اور ان دونوں نے آصف زرداری کی مانند مفاہمتی سیاست کا انداز اپنایا۔

ایک ایسے وقت میں جب مسلم لیگ نواز کو جارحانہ حکمت عملی اور بیانیے کی ضرورت تھی حمزہ اور شہباز اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے الگ کھڑے نظر آئے۔ نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد دونوں باپ بیٹوں نے نہ صرف مسلم لیگ نواز کے بیانیے کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ ایسٹیبلیشمنٹ کے زیر عتاب پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کے حق میں ایک بیان تک دینا مناسب نہ سمجھا۔ حمزہ شہباز اور شہباز شریف نظریاتی طور پر چوہدری نثار کے قریب ہیں اور ان حضرات کے نزدیک ایسٹیبلیشمنٹ سے جوتیاں کھا کر طاقت اور اقتدار کا حصول عملی سیاست کہلاتا ہے۔ یہ وہ فرسودہ طرز سیاست ہے جس کی بنا پر جمہوری بالادستی پر یقین رکھنے والا طبقہ عمران خان کو بھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

مسلم لیگ نواز کو اگر مریم نواز کا جارحانہ ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ میسر نہ آتا اور نواز شریف مزاحمتی سیاست کا انداز نہ اپناتے تو شاید مسلم لیگ نواز پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہو جاتی۔ یعنی اگر مسلم لیگ نواز ہنجاب میں آج بھی مقبول ترین جماعت ہے تو اس کا سہرا مریم نواز اور نواز شریف کے بیانیوں کے سر ہے۔ مزاحمتی سیاست ایک طویل اور اعصاب شکن جنگ کی مانند ہوا کرتی ہے جس میں مضبوط اعصاب کے مالک اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے والوں کی جیت ہوا کرتی ہے۔

نواز شریف اور مریم نواز نے اعصاب شکن جنگ میں تمام تر سختیوں کے باوجود مقتدر قوتوں کے خلاف ڈٹ کر اس جنگ کے مرحلوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اپنے طرز سیاست سے مسلم لیگ نواز کے مزاحمتی سیاسی بیانیے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس طویل اور اعصاب شکن معرکے میں ایک جانب اگر آج مریم نواز اور نواز شریف قید و بند میں ہیں تو کل باہر آ کر یہ دونوں پانسہ پلٹ کر مقتدر قوتوں کو شہ مات بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر مسلم لیگ نواز اور نواز شریف یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو پھر یا تو انہیں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اپنا بیانیہ اپنانے پر مجبور کرنا پڑے گا یا پھر حمزہ شہباز اور شہباز شریف سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).