انور سعید صاحب کے بیٹے! عزیز از جان گدھے


ٹیوشن کا پہلا ماہ ختم ہوا تو یاد آیا کہ فیس بھی دینی ہے۔ اساتذہ باہر والوں سے یوں تو پیشگی فیس لیا کرتے تھے لیکن ایک ان لکھا اصول یہ تھا کہ اپنے ہی سکول کا بچہ مہینے کے اختتام پر فیس دے گا کیونکہ ظاہر ہے بھاگ کر اس نے کہاں جانا تھا۔ اب فیس کتنی دینی تھی یہ کسی کو پتہ نہیں تھا اور پوچھنے کی ہمت کسی میں تھی نہیں۔ دوستوں نے آپس میں مشورہ کیا۔ اس زمانے میں عام طور پر دو سو روپے فیس ہوا کرتی تھی پر کوئی تین تین گھنٹے سر نہیں کھپاتا تھا اس لیے فیصلہ ہوا کہ تین سو روپے مناسب رہیں گے۔ اگلے دن گھر سے پیسے لیے اور حسب معمول ٹیوشن پر پہنچے۔ وقت ختم ہوا۔ اب مناسب تھا کہ فیس دی جائے۔ سب سے قریب میں بیٹھا تھا اس لیے کہنی میری پسلیوں میں ماری گئی۔ میں نے جیب سے پیسے نکالے۔ انور سعید صاحب کتاب کھولے کسی نکتے میں مستغرق تھے۔ میں ان کے پاس سرکا، تھوڑا کھنکھارا اور کہا ” سر ، یہ۔۔۔۔۔۔” اور سو سو کے تین نوٹ آگے کر دیے۔

“یہ کیا ہے؟” انور سعید صاحب تھوڑے سے حیران نظر آئے

“سر، وہ فیس۔۔۔۔۔” میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

انور سعید کے چہرے سے حیرانی کا تاثر اچانک غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ایک اور نقش بننے لگا جو ہم سب کے لیے نیا تھا۔ انہوں نے ایک اور نظر بڑھے ہوئے نوٹوں پر ڈالی اور ان کا چہرہ سرخ ہونا شروع ہو گیا۔ نتھنے پھولنے پچکنے لگے اور مہربان آنکھیں دہکنے لگیں۔

مجھے اندازہ ہو گیا کہ گڑبڑ ہو گئی ہے۔ یقینا پیسے کم ہیں۔ مجھے خود ہی عقل کرنی چاہیے تھی۔ اتنی محنت کے تین سو روپے تھوڑی بنتے ہیں۔ کم از کم چار سو روپے فیس ہونی تھی اور کم پیسے دے کر میں نے ان کی بلاوجہ توہین کی ہے۔ ابھی معافی مانگنے کے لیے سر اٹھایا ہی تھا کہ انور سعید صاحب خود بول پڑے۔

“او بیٹے۔ او میرے عزیز از جان گدھے”

میں نے ان کی طرف ڈرتے ڈرتے دیکھا۔ اب آنکھوں میں انگارے نہیں تھے۔ سرخی بھی معدوم ہو گئی تھی پر سارے چہرے پر لکیریں سی کھنچ گئی تھیں۔ دکھ، شکست ، ہار اور تکلیف کی لکیریں۔

“بیٹے ، آپ نے کیا سمجھا” ایک زخمی سی آواز گویا ہوئی “میں آپ کو فیس کے لیے پڑھاتا ہوں۔ چلو بھاگو یہاں سے”

میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اپنی ساری بدگمانیوں پر معافی مانگنا چاہتا تھا۔ ایک دیوتا کو عام آدمی کے پیمانے سے ناپنے کی کوتاہی تسلیم کرنا چاہتا تھا۔ ایک باپ کو دکاندار سمجھ بیٹھنے کی نادانی کا کفارہ جاننا چاہتا تھا پر حلق میں کچھ پھنس سا گیا تھا۔ کچھ نمکین پانی کہیں گلے میں گرتا تھا۔ کچھ بول نہیں پایا۔ بس الٹے قدموں اپنی جگہ جا کر بیٹھ گیا۔ باقیوں نے اپنی اپنی عبرت کا سامان کیا اور فیس کے پیسے جیبوں کے اندر ہی رہے۔ انور سعید صاحب خاموشی سے اٹھے۔ جھاڑ کر انہوں نے وہ بوسیدہ جوتے پہنے جن کی نوکیں گھس چکی تھیں۔ اپنی پرانی ہنڈا ففٹی اسٹارٹ کی اور ہم پر دوسری نظر ڈالے بغیر چلے گئے۔

اگلے دن سکول اور پھر ٹیوشن اور وہی پرانے انور سعید صاحب۔ کل کی بات کہیں دفن ہو گئی تھی۔ ان کے قدموں میں بیٹھ کر ہم اور دو ماہ علم کشید کرتے رہے۔ پھر امتحان آن پہنچے۔ امتحان دیا۔ ایف سیکشن کے شہزادگان نے سکول کی تاریخ کا بہترین نتیجہ دکھایا۔ واہ واہ کے شور میں ایک شفیق چہرہ کہیں ہجوم میں مسکراتا نظر آتا پھر اوجھل ہو جاتا۔ ہماری اکثریت گورنمنٹ کالج لاہور میں جا براجمان ہوئی۔ راوین بننے کا نشہ سر چڑھ بولنے لگا۔ سکول کہیں پیچھے رہ گیا تھا اور کالج کی نئی زندگی میں پرانے مہربان چہروں کی جگہ نہیں تھی۔ اسی میں دو سال گزر گئے۔ ایف ایس سی کے امتحان سر پر تھے۔ تیاری کرتے کرتے اچانک خیال میٹرک کی تیاری کی طرف چلا گیا۔ سوچا چلو کسی وقت سکول کا چکر لگائیں۔ کچھ استادوں کو سلام کر آئیں۔ فزکس کی کلاس ختم ہوئی تو دوست سے پوچھا، چلو گے۔ انور سعید صاحب سے مل کر آتے ہیں۔

دوست نے میری طرف ایسے دیکھا جیسے میرا دماغ چل گیا ہو۔

“انور سعید صاحب کو مرے ایک سال ہو گیا، تمہیں پتہ نہیں” اس نے حیرانی سے کہا

اچانک دنیا کی گردش جیسے رک گئی۔ سورج تاریک ہو گیا۔ تارے دھڑام دھڑام زمین پر گر پڑے۔ سمندر کی لہریں ساکن ہو گئیں۔ کائنات میں کہرام مچ گیا اور پھر سب خاموش۔۔۔ بس ایک جملہ سنائی دیا “ایک سال ہو گیا۔ تمہیں پتہ نہیں”

تیس سال ہوئے جب میں نے اس شخص کو آخری دفعہ دیکھا تھا جس کے بوسیدہ جوتوں سے جھڑنے والی خاک میری ساری عمر کی کمائی سے زیادہ قیمتی تھی۔ میری مٹھی بند ہے۔ اس میں سے پشیمانی اور پچھتاوے کا پسینہ پھوٹتا ہے جس میں آج بھی تین سو سو کے نوٹ بھیگتے ہیں اور میرے پاس آج بھی کچھ کہنے کو نہیں ہے۔ میں کبھی اس کی قبر پر نہیں گیا اسی طرح جیسے میں کبھی اپنے باپ اور اپنی ماں کی قبر پر نہیں گیا۔ میں کیسے مٹی کے ایک ڈھیر کو حیات ابدی کا استعارہ مانوں۔ آج بھی اس کا نام آئے تو حلق میں کچھ پھنستا ہے۔ بولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہاتھ جوڑتا ہوں۔ پھر ایک چہرہ کہیں افق پر ابھرتا ہے۔ اس چہرے پر صرف محبت ہے ، صرف معافی ہے۔ وہ ایک دل جو چہرہ ہے۔ ایک دلکش چہرہ ہے۔ وہ ایک استاد کا چہرہ ہے۔ اس کی آنکھیں ویسی ہی مہربان ہیں۔ میں اسے تکتا ہوں اور اس سے پہلے کہ رو پڑوں، کہیں سے آواز آتی ہے “بس بیٹے۔  بس او میرے عزیز از جان گدھے”

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments