مراقبہ، ٹیلی پیتھی، ہپنا ٹزم، یونیورسل انرجی اورمائنڈ فریکوئنسی


کچھ سال پرانی بات ہے ایک ڈاکٹر کے ساتھ میری دعا سلام ہوئی۔ ڈاکٹر کا روحانیت کا موضوع پہ بہت زیادہ مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ تھا۔ اس نے روحانیت پہ انگریزی زبان میں چھپنے والی یورپین مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہوا تھا۔ ان دنوں میری طبیعت میں انگزائٹی رہتی تھی۔ جیسے رات ہوتی مجھے وحشت سی ہو جاتی۔ ڈاکٹر مراقبہ کا بھی ماہر تھا۔ اس نے مجھے کہا رات کو سونے سے پہلے اپنے بستر پہ ہی آلتی پالتی مار کے بیٹھ جایا کرو۔ اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پہ رکھ کے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے دائرہ بنا لیا کرو اور اسم ذات یعنی اللہ کا تصور جمایا کرو۔ تمہاری طبیعت میں سکون آ جایا کرے گا۔

اچھا، جب میں اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا اور سمہ سٹہ قصبے میں اپنی نانی اماں کے گھر رہتا تھا کیونکہ اس وقت چندی پور میں صرف پرائمری اسکول تھا جو بعد میں اپ گریڈ ہو کے مڈل اسکول بنا، ان دنوں میرے ایک کزن نے مجھ ماہر روحانیات خواجہ شمس الدین عظیمی کی دو کتابیں رنگ و روشنی سے علاج اور ٹیلی پیتھی لا کے دیں۔ چندی پور میں میرے کزن شیخ عبدالمالک سسپنس ڈائجسٹ منگواتے تھے جس میں محی الدین نواب کا سلسلہ وار ناول پڑھ کر میں بھی فرہاد علی تیمور جیسا ٹیلی پیتھی کا ماہر بننے کا خواب دیکھتا تھا۔ اب عظیمی صاحب کی کتاب پڑھ کر میں انھیں خط لکھا کہ میں ٹیلی پیتھی کا ماہر بننا چاہتا ہوں۔ انھوں نے مجھے جوابی خط بھیجا کہ ابھی آپ کم عمر ہو، ٹیلی پیتھی کی مشقوں کے چکر میں نہ پڑو۔ آپ نیلی روشنی کے تصور کا مراقبہ کیا کرو۔ خیر۔

کچھ سالوں بعد جب میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا طالب علم بنا تو ایک نوجوان کے ساتھ میری ملاقات ہوئی۔ وہ ہپناٹزم کی پریکٹس کرتا تھا۔ اس نے ایک بار میری اجازت سے مجھ پہ ہپناٹزم کیا اور میں غنودگی والی کیفیت میں چلا گیا۔ وہ مجھے ہپناٹزم کی ٹرانس میں لے جا کے مجھے جنت کے مناظر دکھانا چاہتا تھا لیکن سچ پوچھیے مجھے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ خیر۔

ہاں، تو میں بتا رہا تھا ڈاکٹر کے ساتھ دعا سلام بنی اور میں نے کبھی کبھار اس کے پاس جانا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر نے ایک دن مجھے کہا ”یار اکبر! انسان کا ذہن کسی خواہش پہ بہت زیادہ مرتکز ہو جائے اور وہ خواہش بھی گناہ کی نہ ہو بس سادہ سی ہو تو ایک وقت آتا ہے جب وہ خواہش انسان کے اندر سے نکل کے کائنات میں سوئچ کر جاتی ہے اور پھر کسی وقت وہ پوری بھی ہو جاتی ہے۔“ ۔ پھر کہنے لگا ”شیخ! کچھ سالوں سے میری خواہش ہے کہ میں رولیکس کمپنی کی وہ گھڑی پہنوں جو چاند کی تاریخیں بتاتی ہے لیکن مجھے وہ گھڑی مل نہیں سکی اور باہر سے میں منگوا نہیں سکا۔

ہوا یہ کہ اس بات کے غالباً تین چار دن بعد میں بازار گیا۔ یورپ یا امریکہ سے آنے والا ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک کنٹینر کھولا گیا تھا جس سے نکالا گیا سیکنڈ ہینڈ سامان سامان فٹ پاتھ پہ ہی بک رہا تھا۔ میں چونکہ نوادرات کا شوقین تھا تو اس سامان کو دیکھنے کے لیے رک گیا۔ اچانک میری نظر رولیکس گھڑی پہ پڑی جس میں چاند کی تاریخیں بتانے والا سسٹم بھی نصب تھا۔ یہ سیکنڈ ہینڈ سامان تھا، بیچنے والے نے جو قیمت مانگی میں نے دے دی اور گھڑی لا کے ڈاکٹر کو گفٹ کر دی۔

ڈاکٹر مسکرایا۔ میں مسکراہٹ کا مطلب سمجھ نہ سکا۔ ابھی ہم ان کے کلینک پہ بیٹھے گرین ٹی پی رہے تھے کہ رولیکس گھڑی کا ایک مکینک وہاں آ گیا۔ اس نے ڈاکٹر کے پاس رولیکس گھڑی دیکھی تو کہنے لگا، اس کی چین آپ کی کلائی سے بڑی ہے، میں ٹھیک کر کے لا دوں گا۔ پھر اس نے وہ گھڑی کبھی بھی ڈاکٹر کو واپس نہ کی۔ بعد میں میں نے وہ شہر چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر سے بھی رابطہ نہ رہا۔

آج میں بیدار ہوا تو طبیعت میں انگزائٹی بہت زیادہ تھی۔ ذہن کی لہریں سمندر کے جوار بھاٹا کی طرح آؤٹ آف بیلنس تھیں جس سے طبیعت تھوڑا ڈسٹرب تھی۔ ایک سینئر جرنلسٹ کے بھائی وفات پا گئے تھے۔ میں نے ان کے پاس فاتحہ پڑھنے کے لیے جانا تھا۔ پتہ چلا وہ بہا ول پور پریس کلب آئے بیٹھے ہیں۔ وہاں چلا گیا۔ وہ پریس کلب کے لان میں کرسی ڈالے اکیلے بیٹھے تھے۔ بہار کے موسم کی وجہ سے لان میں پھول کھلے ہوئے تھے۔ اردگرد کے درختوں پہ بلبل، مینا، چڑیاں اور مختلف پرندے چہچہا رہے تھے۔

چائے منگوائی۔ وہاں چونکہ نیچر کا ماحول تھا تو ذہن کی جوار بھاٹا والی لہریں یا فریکوئنسی کہہ لیں خود بخود فطرت اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہو نا شروع ہو گئیں اور حیران کن طور پہ میری انگزائٹی، ڈپریشن اور بے چینی غائب ہو گئی اور میری حالت ایسی ہو گئی جیسے میرے جسم کا کوئی وزن ہی نہیں۔ میں سکون کی ایسی کیفیت محسوس کر رہا تھا جسے یہاں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جب آپ کے ذہن کی انرجی اور یونیورسل انرجی ہم آہنگ ہو جائیں تو پھر سکون ہی سکون، نروان ہی نروان اور معرفت ہی معرفت ہوتی ہے۔ بس یہی روحانیت ہے۔

سب سے پہلے تو یاد رکھیں کہ کوئی بھی شخص ٹیلی پیتھی یا ہپناٹزم وغیرہ کے ذریعے کسی دوسرے شخص کا دماغ کنٹرول نہیں کر سکتا۔ ٹیلی پیتھی اور ہپناٹزم کو جیسے کہانیوں میں محیرالعقول اور بہت طاقتور بنا کے پیش کیا جاتا ہے، حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ اللہ پاک نے انسان کے لاشعور کو بہت طاقت بخشی ہے، وہ آنے والی ہر اس انرجی کے خلاف سخت مزاحمت کرتا ہے جو اس پہ حاوی ہونا چاہتی ہو۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جن لوگوں کی شہرت جادو ٹونا کرنے کی یا جادوگر کی ہوتی ہے وہ لوگ بعض اوقات کسی خطرناک بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سادہ لوح لوگ سمجھتے ہیں کہ ”بابا جی“ کو اپنے ہی جنات اور موکلات نے نقصان پہنچایا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہوتا یہ ہے کہ جادو گر جس منتر کے ورد سے کسی شخص پہ اپنی منفی انرجی کاسٹ کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور مثبت مائنڈ سیٹ رکھنے کی وجہ سے ذہن کی ہائی فریکوئنسی میں رہتا ہے تو ٹارگٹڈ شخص کا لاشعور آنے والی منفی انرجی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ اس مزاحمت کی وجہ سے جادوگر کی منفی انرجی واپس جادوگر کے ہی جسم میں آ کے بیماری پیدا کر دیتی ہے یا اس کے اردگرد کے ماحول یا گھر کے ماحول کو ڈسٹرب کر دیتی ہے۔

اچھا، اگر آپ کی خواہش ہو کہ آپ دوا بھی نہ کھائیں اور بیماری سے شفایاب بھی ہو جائیں تو آپ کو اپنے ذہن کو مثبت مائنڈ سیٹ بنا کے ہائی فریکوئنسی کی حالت میں رہنا ہوتا ہے۔ قدرت نے آپ کے اندر جو ریپیئرنگ سسٹم اور خود کار مرمتی نظام رکھا ہوتا ہے وہ کام ہی اس وقت کرتا ہے جب آپ مثبت سوچوں کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکبر شیخ اکبر آپ کو دوائیاں کھانے سے منع کر رہا ہے۔ دیکھیں، قدرت کا نظام ہے کہ انسان کو تھوڑی بہت تکلیف یا چھوٹی موٹی بیماری یا جسم کے کسی حصے میں تھوڑا بہت درد ہوتا رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص کہے کہ مجھے کبھی معمولی سی تکلیف بھی نہ ہو۔ انسان تھوڑا بہت ڈسٹرب ہوتا رہتا ہے لیکن یہ آپ کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ آپ اپنے ذہن کی تربیت یہ کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے خود کار سسٹم سے ہی آنے والی کسی بڑی بیماری کو روک لے یا یہ کہ وہ دوائیاں کھانے پہ انحصار کرے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments