حلب کے صوفی درویش سید علی نسیمی جنہیں کھال اتار کر مارا گیا


آپ کا پورا نام سید علی عماد الدین نسیمی آذربائیجانی ( 1369۔ 1417 ) ہے۔ آپ 14 ویں صدی کے آذربائیجانی حروفی سلسلے کے درویش اور صوفی شاعر تھے۔ زیادہ تر اپنے قلمی نام نسیمی سے جانے جاتے ہیں، آپ نے آذربائیجانی، فارسی اور بعض اوقات عربی میں شاعری کی ہے، آذربائیجانی میں ایک دیوان، فارسی میں ایک دیوان کے علاوہ ترکی اور عربی میں متعدد نظمیں لکھیں ہیں۔ آپ اس وقت کے سب سے بڑے صوفیانہ شاعروں میں سے ایک اور ترک ادبی تاریخ کے ابتدائی دیوانوں میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے تیسرے ایڈیشن کے مطابق نسیمی کو ترک کلاسیکی ”عرود شاعری کا“ حقیقی بانی ”سمجھا جاتا ہے۔

آپ کا پیدائشی نام علی تھا۔ ”نسیمی“ آپ کا قلمی (تخلص) تھا جو آپ سب سے زیادہ استعمال کرتے تھے۔ آپ نے نسیمی نام ”نعیمی“ نام کے طرز پر رکھا، جو فضل اللہ استر آبادی نعیمی (وفات 1394 ) کا قلمی نام ہے۔ نسیمی نے ”حسینی“ بھی بطور قلمی نام استعمال کیا ہے۔ آپ کا لقب ”عمادالدین“ آپ کے مریدین نے رکھا، جس کا ترجمہ ”دین کے ستون“ کے طور پر ہوتا ہے، آپ کو دیگر شخصیات سے ممتاز کرنے کے لیے۔

نسیمی ابتدائی سلطنت عثمانی کے دؤر کے شاعر اور صوفی درویش تھے اور غالباً ترکمان نژاد تھے۔ آپ ترکی، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

آپ کی شاعری سے، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نسیمی ”حروفی تحریک“ کے پیروکار تھے، جس کی بنیاد نسیمی کے مرشد فضل اللہ استر آبادی ”نعیمی“ نے رکھی تھی، جن کو مذہبی ملاؤں نے کفر کا فتوے کے تحت، موت کی سزا کا حکم دے کر نخچیوان کے قریب الینجا میں پھانسی دی گئی تھی۔ فضل اللہ کے اثر و رسوخ کا مرکز باکو شہر تھا اور آپ کے زیادہ تر پیروکار شیروان (موجودہ جمہوریہ آذربائیجان) سے تھے، اس وقت شیروان شاہوں کی حکومت تھی۔ حروفی ازم، صوفیا کرام کی ایک جماعت تھی جو تصوف کے ”حرف“ پر بنیاد رکھتی تھی، الفاظ کا پہلا حرف، جو آگے چل کر حروفی کہلایا، جس کا بنیادی فلسفہ ”ھمہ اوست: وحدت الوجودی“ تھا، صوفی طریقت کا سلسلہ جو منصور حلاج سے ملتا ہے۔

نسیمی حروفی نظریہ کے سب سے زیادہ با اثر پیروکاروں میں سے ایک تھے اور حروفی جماعت کے نظریات آپ کی شاعری کے ذریعے کافی حد تک پھیل گئے۔ آپ کی شاعری اس وقت کے ہر ایک باشندے کی زبان پر تھی۔ فضل اللہ نعیمی کا نظریہ تھا کہ وہ خود خدا کا مظہر ہے، نسیمی کے نزدیک، تخلیق کا مرکز خدا پاک ہے، جس نے انسان کو اپنا نور عطا کیا۔ انسان وجود کی فنا اور خود کمالی کے ذریعے خدا کے ساتھ ایک ہو سکتا ہے۔ 1417 ع کے آس پاس، اس صوفی عقائد کے براہ راست نتیجے کے طور پر۔ جسے مذہبی حکام نے کفر آمیز سمجھا۔ اور نعرہ ”انا الحق“ اور صوفی طریقت ”ھمہ اوست“ کے الزام میں وقت کے مذہبی ملاؤں نے کفر کا فتوا لگا کر سن 1417 ع میں ہولناک طریقے سے شہر کے چوراہے پر زندہ کھال اتار کر شہید کی گیا۔ اور حلب میں زندہ کھال دیا گیا۔

بعد میں نسیمی کی شہادت کے گرد کئی افسانے پروان چڑھے، جیسا کہ آپ نے اپنے جلادوں کو ایک اصلاحی شعر کے ذریعے سے اصلاح کی اور سزا کے بعد ، اتاری ہوئی کھال، اپنی پھٹی جلد کے کندھوں کے گرد لپیٹ کر روانہ ہو گئے۔ اس واقعے کا ایک نادر تاریخی واقعہ۔ اخمد بن ابراہیم الحلبی کی ”تاریخ حلب“ ۔ میں بیان کرتا ہے کہ شرعی عدالت، جو کہ مالکی مکتبہ فکر کی تھی، نسیمی کو کفر کا ارتداد کا مجرم قرار دینے کے لیے تیار تھی۔

نسیمی کی جمع کردہ نظمیں، آذربائیجانی، ترک، فارسی اور عربی زبانوں میں غزلیں، قصیدے ( ”گیت“ ) ، اور رباعیاں شامل ہیں۔ ان کا ترک دیوان، جو ان کا سب سے اہم کام سمجھا جاتا ہے، میں 250۔ 300 غزلیں اور 150 سے زیادہ رباعیاں ہیں۔ صوفی بکتاشی اور علوی شاعری کا ایک بڑا حصہ بھی نسیمی سے منسوب ہے، جو زیادہ تر ان دونوں جماعتوں پر حروفی نظریات کے اثر کا نتیجہ ہے۔ ایران میں صفوی خاندان کے بانی شاہ اسماعیل اول، جنہوں نے خود آذربائیجانی ترک زبان میں ”خطائی“ کے قلمی نام سے دیوان مرتب کیا، اپنی نظموں میں نسیمی کی تعریف کی ہے۔

نسیمی کی سب سے مشہور نظموں میں سے ایک غزل ہے جس کا آغاز درج ذیل سطروں سے ہوتا ہے :
مندہ صغار ایکى جھان من بو جھانہ صغمازام
گوہر لامکان منم کون و مکانہ صغمازام

(ترجمہ: ”دونوں جہان میرے اندر فٹ ہو سکتے ہیں، لیکن اس دنیا میں، میں فٹ نہیں ہو سکتا؛ میں لامکاں [بغیر جگہ] جوہر ہوں، لیکن اس وجود میں فٹ نہیں ہو سکتا“ ) ۔

یہ نظم اپنی صوفیانہ حیثت میں نسیمی کے حروفیت کے صوفی شاعرانہ شناخت کی ایک مثال ہے۔ جسمانی (وجودی) اور روحانی دنیاؤں کے درمیان ایک تضاد ہے، جو بالآخر انسان میں متحد نظر آتے ہیں۔ اس طرح، انسان کو خدا کی طرح ایک ہی روحانی جوہر کا حصہ لیتے ہوئے دیکھا جاتا ہے : فقرہ (لامکان) ، یا ”بے مقام“ ، دوسری سطر میں ایک صوفی اصطلاح ہے جو خدا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ تاہم، اسی اصطلاح کو لفظی طور پر ”بغیر جگہ“ کے معنی کے طور پر لیا جا سکتا ہے، اور اسی لیے نسیمی بھی اس اصطلاح کو انسانی جسمانیت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

نسیمی نے اپنی نظم میں اس بات پر زور دیا ہے کہ خدا کو سمجھنا اس دنیا میں بالآخر ممکن نہیں ہے، حالانکہ یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس طرح کی تفہیم کے لیے کوشش کرے۔ مزید برآں، نظم کے ظاہری اور باطنی خیالات کے میں رہتے ہوئے، نسیمی تفہیم کی اس تلاش کو اپنے اندر کے انسان کے ذریعے تلاش کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس شعر کو مختلف تصویروں، فلموں، نظموں اور دیگر فنون لطیفہ میں بیان کیا گیا ہے۔

:نسیمی کے کچھ شعر خاص طور پر حروفی نوعیت کے ہیں، جیسا کہ ایک طویل نظم کے درج ذیل اقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے

گوردم اول آیى و بیرام ایلدم، شول میہ بو گوزلرى جام ایلدم
حجہ واردم ازم احرام ایلدم، ”فا“ و ”ضاد“ ، ”لام“ حق نام ایلدم
ترجمہ: وہ چاند دیکھ کر میں خوش ہو گیا؛ میں نے اپنی آنکھوں سے اس کی شراب کا پیالہ بنایا۔
میں حجاج کے لباس میں حج پر گیا؛ میں نے ”ف“ ، ”ض“ اور ”ل“ کو ”حق“ کے نام سے پکارا۔

شعر کی آخری سطر میں ”ف، ض، اور ل“ عربی حروف کے نام ہیں جو مل کر حروفیت کے بانی فضل اللہ کے پہلے نام کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح، نسیمی اپنے پیر و مرشد اور روحانی استاد کی تعریف کر رہا ہے۔ مزید برآں، نظم میں فارسی، عربی حروف کا اس طرح استعمال کرنا حروفی عقائد کا براہ راست مظہر ہے کیونکہ یہ سلسلہ طریقت ایک وسیع اور پیچیدہ حرف کی علامت کی وضاحت کرتا ہے جس میں ہر ایک حرف انسانی کردار کے ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے، اور تمام حروف ایک ساتھ۔ خدا کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

نسیمی کو ایک بہترین عشق کا شاعر بھی سمجھا جاتا ہے، اور آپ کی نظمیں ظاہری اور روحانی دونوں سطحوں پر محبت کے خیال کا اظہار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی کئی غزلیں اعلیٰ درجے کی جذباتیت کے ساتھ ساتھ زبان پر زبردست مہارت کا اظہار کرتی ہیں :

اوزکى مندن نھان ایتمک دیلرسہ ڭ ایتمہ غل
گوزلرم یاشڭ روان ایتمک دیلرسہ ڭ ایتمہ غل
برک نسرین اوزرہ مسکین زلفکى سن طاغدوب
عاشقى بى خانمان ایتمک دیلرسہ ڭ ایتمہ غل

ترجمہ: کیا تم مجھ سے اپنے چہرے کو چھپانا چاہتے ہو، ارے ایسا نہ کرو! کیا تم میرے آنسو بہانا چاہتے ہو، ارے ایسا نہ کرو! کیا تم اپنے بالوں کو گلاب کے اوپر رکھنا چاہتے ہو، اور اپنے عاشق کو بے آسرا چھوڑ دینا چاہتے ہو، ارے ایسا نہ کرو!

نسیمی کا کام نہ صرف آذربائیجانی زبان کی مقامی زبان میں بلکہ عثمانی دیوان کی شاعری کی روایت میں بھی شاعری کی ترقی کے ایک اہم مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کی موت کے بعد ، نسیمی کے کام نے ترکی زبان کے بہت سے شاعروں، درویشوں اور مصنفین کو متاثر کرنا جاری رکھا جیسے فضولی ( 1483۔ 1556 ) ، خطائی ( 1487۔ 1524 ) ، اور پیر سلطان ابدال ( 1480۔ 1550 ) ۔

آذربائیجان میں نسیمی کا مقبرہ آج تک زیارت کا ایک اہم مقام ہے۔ آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق، خاص و عام ہے۔

جدید جمہوریہ آذربائیجان میں نسیمی کی تعظیم و تکریم کی جاتی ہے، اور دارالحکومت باکو کے اضلاع میں سے ایک ضلع ”نسیمی“ کے کا نام سے ہے۔ شہر میں ان کی ایک یادگار بھی ہے جسے 1979 ع میں بنایا گیا ہے۔

مزید برآں، آذربائیجان کی اکیڈمی آف سائنسز میں انسٹی ٹیوٹ آف لسانیات کا نام آپ کے نام پر رکھا گیا ہے، اور 1973 میں ایک آذربائیجانی فلم بھی بنی تھی۔ نسیمی فلم آپ کی زندگی اور شہادت کے بارے میں بنائی گئی ہے۔ نسیمی کی 600 ویں سالگرہ 1973 میں یونیسکو کی جانب سے دنیا بھر میں منائی گئی اور آذربائیجان اور ماسکو۔ روس دونوں ممالک میں منعقد ہونے والی تقریبات میں بہت سے ممالک کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ مئی 2017 میں یونیسکو کے ہیڈکوارٹر پیرس میں نسیمی کی 600 ویں برسی کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ صدر الہام علییف نے 2019 کو آذربائیجان میں ”نسیمی کا سال“ قرار دیا کیونکہ یہ شاعر کی پیدائش کی 650 ویں سالگرہ تھی۔ دسمبر 2018 میں اس کی مستقل کونسل کی 36 ویں میٹنگ میں انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف ترک کلچر کی طرف سے اس سال کو ”آذربائیجانی شاعر عماد الدین نیسیمی کا سال“ بھی قرار دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments