دانشوروں کے نام ایک خط


پیارے دانشورو!

ایک گزارش ہے جب تم یہ لکھتے ہو کہ زندگی کو تنہا ہی جینا پڑتا ہے تو ساتھ ایک چھوٹا سا وضاحتی نوٹ بھی لکھ دیا کرو یہ لکھتے ہوئے تم اپنے گھر میں سکھ سے بیٹھے ہو۔ تمہارا ایک مکمل خاندان ہے تمہیں اپنی بیوی یا شوہر کی طرف سے مکمل ذہنی و جسمانی آسودگی حاصل ہے۔ تبھی تم یہ دانشوری بگھار رہے ہو۔

جب تم یہ راگنی الاپتے ہو کہ میں اپنے ہر عمل کاذمہ دار خود ہوں۔ تو ساتھ یہ بھی سر لگا دیا کرو کہ یہ اعتماد اور ذمہ داری تمہارے والدین کی دین ہے۔

جب تم شوخی میں آ کے یہ کہتے ہو کہ میری اولاد کا سارا درد سر میرا نہیں۔ تو کہیں بریکٹ میں یہ بھی لکھ دیا کرو کہ ان کی سکول، ٹیویشن فیس سے لے کر ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرنے کے لیے تم صبح سے شام تک اپنے جوتے گھساتے ہو۔ ان کی تربیت کے لیے ان کے ساتھ وقت گزارتے ہو۔ اور ان کی ہر مسکراہٹ تمہیں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔

جب تم یہ پرچار کرتے ہو کہ ہر انسان کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ اس لیے جو کرنا ہے کرو صرف تمہارا اپنا من شانت رہنا چاہیے۔ تو ہلکا سا یہ اشارہ بھی دے دیا کرو کہ تم نے اپنے کسی افئیر کا، پینے پلانے کا کسی آوارگی کا ذکر کبھی اپنے کسی قریبی رشتے کے سامنے نہیں کیا۔

جب تم کوشش کرتے ہو کہ یہ ثابت کرو کہ زندگی جیسےگزر رہی ہے اسے گزرنے دو۔ سب ٹھیک رہتا ہے۔ تو یہ بھی بتا دیا کرو کہ ایسا لکھتے ہوئے یا کہتے ہوئے تمہارے پاس ایک سٹیٹس ہے ایک ایسی زندگی ہے جس پہ بہت سے لوگ رشک کر سکتے ہیں۔ اور اسے تم نے جھک مار کے حاصل نہیں کیا۔ تمہاری آنکھیں نیند کو ترسی ہیں تم نے بہت سی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی قربانی دے کر اسے حاصل کیا ہے۔

جب تم یہ بڑی بڑی باتیں کرتے ہو جو سننے میں شاندار لگتی ہیں تو یہ بھی بتا دیا کرو کہ خالی پیٹ چاند بھی روٹی لگتا ہے۔

جب تم یہ کہتے ہو کہ جی بھر جیو۔ زندگی کو بوجھ نہ بناؤ تو یہ بھی بتادیا کرو کہ تمہارے ذہن میں کتنی کتابیں۔ کتنے مصنفین اور مفکرین کے خیالات سے بھری پڑی ہیں۔ اس علم کی کھوج میں تم نے کتنی محنت کی ہے۔

جب تم ان لوگوں سے جو احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں یہ کہتے ہو کہ سماج کچھ نہیں اپنی سوچ لے کے چلو۔ تو یہ بھی بتایا کرو کہ اسی سماج میں سروائیو کرنے کے لیے تم نے کتنے نقاب اوڑھے۔ کتنے جھوٹ بولے ہیں۔

یہ قول و فعل میں تفاوت کا عمل ہے۔ یہ خیالی دنیا بسانے اور حقیقت کا سمانا کرنے کی تفریق ہے۔ یوٹپیا میں رہنے اور زندگی کی حقیقتوں سے نظریں چرانے کا فعل ہے۔ نجانے کتنے ہیں جو آنکھوں پہ یہ پٹی باندھے بھاگنے کی کوشش میں گر پڑتے ہیں۔ نجانے کتنے ہیں جو زمانہ کی لیر کے سامنے خود کو بے یار ومددگار چھوڑ دیتے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ تو پیارے دانشورو!ضرور کہو جو کہنا ہے حسین رنگوں میں سجا کے کہو لیکن کہیں کہیں سچ بھی بولو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).