نیوزی لینڈ میں دہشت گردی: نفرت باہمی احترام سے ختم ہو گی


ہم پر یہ حملہ اس لئے نہیں ہؤا کہ ہم نسل پرستی کے حامی ہیں یا انتہا پسند ہیں بلکہ ہم ان دونوں کو مسترد کرنے کی وجہ سے حملہ کا شکار ہوئے ہیں۔ تم نے ہم پر حملہ تو کر لیا لیکن ہم سختی سے اس کی مذمت کرتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ آج کے سانحہ کا نشانہ بننے والے بہت سے لوگ شاید ترک وطن کرکے یہاں آئے تھے، کچھ پناہ گزین ہوں گے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ملک ان کا گھر ہے۔ وہ ہم میں سے ہی ہیں۔ اور جس شخص نے یہ تشدد کیا ہے، وہ ہم میں سے نہیں۔ ایسے لوگوں کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس قسم کی دہشت گردی کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے‘ ۔

نیوزی لینڈ 47 لاکھ افراد کا ایک پرسکون ملک ہے جو عام طور سے عالمی خبروں میں نہیں رہتا۔ وہاں اس وقت 50 ہزار مسلمان رہتے ہیں۔ یہ تعداد 2006 کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ ہے۔ تاہم مسلمانوں سمیت تارکین وطن نیوزی لینڈ کے معاشرہ میں گھل مل کر رہتے ہیں لیکن تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ کی وجہ سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران نسل پرست اور مسلمان دشمن عناصر متحرک ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں درجنوں نسل پرست گروہ منظم ہیں۔ انہیں ہمسایہ ملک آسٹریلیا کے تارکین وطن مخالف اور مسلمان دشمن عناصر سے اخلاقی سرپرستی میسر آتی ہے۔ تاہم یہ بات کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھی کہ اس چھوٹے سے ملک میں چھوٹی سی مسلمان اقلیت کے خلاف اس قدر نفرت انگیز اور شدید حملہ کیا جائے گا۔

یہ حملہ جولائی 2011 میں ناروے میں آندرش برائیوک کے حملوں سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس نے بھی دو جگہ پر حملہ کیا تھا اور لیبر پارٹی کے یوتھ ونگ کے سمر کیمپ پر دھاوا بول کر 69 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے وہ شہر میں واقع سرکاری سیکریٹریٹ پر بم دھماکہ میں آٹھ افراد کو ہلاک کرچکا تھا۔ برائیوک بھی سفید فام برتری پر یقین رکھتا تھا اور سفید فام عناصر کی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھتا تھا۔ اس نے بھی تارکین وطن اور مسلمانوں کی نفرت میں اندھا ہوکر ایک ایسی جماعت کے نوجوانوں کو نشانہ بنایا تھا جو اس کے خیال میں ملک میں مسلمانوں اور تارکین وطن کو لانے کا سبب بنی تھی۔ نیوزی لینڈ میں قتل عام میں ملوث شخص نے برائیوک سے رابطہ کا اعتراف کیا ہے تاہم اس نے مسلمانوں کی ملک میں آمد کا سبب بننے والی کسی سیاسی پارٹی کی بجائے براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

برائیوک کی طرح ٹیرنٹ بھی نفرت کو عام کرنا اور لوگوں میں خوف کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے۔ نفرت اور دہشت کے اس پیغام کا جواب مزید اتفاق اور انتہا پسندی کو مسترد کرکے ہی دیا جا سکتا ہے۔ آج کا دن صرف نیوزی لینڈ یا مسلمانوں کے لئے ہی غم اور افسوس کا موقع نہیں ہے بلکہ اس کرہ ارض پر آباد سب انسانوں کے لئے یوم سیاہ ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف عناصر مختلف ناموں سے مختلف عذر پیش کرتے ہوئے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا کر تفریق اور انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نفرت اور بے اعتباری کے اس ماحول میں ہی انتہا پسند پھل پھول سکتے ہیں۔ اسی لئے ان کا جواب دینے کے لئے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے اور میں اور تو کی تقسیم پر سر کھپانے کی بجائے، تشدد اور نفرت کو مسترد کرنے کی کوششوں کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈن نے تشدد کا ارتکاب کرنے والے شخص کو مسترد کرتے ہوئے بلاشبہ اپنے ملک کے سب باشندوں میں یہ اعتبار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ عناصر کسی ایک عقیدہ یا نسل کے خلاف نہیں ہیں بلکہ یہ معاشروں کو انتشار اور انحطاط کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل عام طور سے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ نائین الیون کے بعد ایک طرف مسلمان انتہا پسند گروہوں نے قوت پکڑی اور مغربی ممالک میں دہشت گردی کو عین اسلام قرار دیا تو دوسری طرف مغرب میں یہ تاثر قوی کرنے والے عناصر نے بھی سر اٹھایا کہ مسلمان ہی دراصل دہشت گردی کی علامت ہیں اور ان کی معاشروں میں موجودگی ہی علت اور پریشانی کا سبب ہے۔ تاہم کرائسٹ چرچ میں ہونے والی دہشت گردی نے ثابت کیا ہے کہ انتہا پسند ہر نسل اور عقیدہ میں ہو سکتے ہیں اور ان کے خلاف باہمی اشتراک اور احترام کو فروغ دے کر ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

مسلمانوں کو بھی اس واقعہ کو اسلامی انتہا پسند گروہوں کی ’راست بازی‘ کی دلیل کے طور پر حوالہ بنانے کی بجائے، اس بنیادی نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دونوں طرح کے انتہا پسند نفرت عام کر رہے ہیں جس کا نشانہ انسان بنتے ہیں خواہ ان کا عقیدہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2778 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali