جہیز نہیں بلکہ وراثت میں اپنا مقررہ حصہ مانگیں


پاکستان میں خواتین کو وراثتی جائیداد میں حصہ دینا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور خواتین کو وراثتی جائیداد کی منتقلی اس بنا پر نہیں کی جاتی کہ آبا و اجداد کی جائیداد میں غیر لوگ شامل ہو جائیں گے۔

اسلام میں عورت کو بہت ہی عزت و احترام دینے کے علاوہ ان کے دوسرے بہت سے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ انہی حقوق میں سے ایک وراثت کا حق بھی ہے جو عورت کو حاصل ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ:

”مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے، ترکہ تھوڑا ہو یا بہت، حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا۔“
القرآن، النساء، 4:7

زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی عورتوں اور بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دیتے تھے، اِس آیت میں اُس رسم کو باطل کیا گیا ہے۔ اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیٹے کو میراث دینا اور بیٹی کو نہ دینا صریح ظلم اور قرآن کے خلاف ہے۔ یعنی اُصولی طور پر لڑکا اور لڑکی دونوں وراثت میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے کے حقدار ہیں اور کوئی شخص انہیں ان کے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔

وفاقی محتسب کی حالیہ رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں 2023 سے اب تک 699 خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ ملنے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ جبکہ سال 2023 میں 613 خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ ملنے کے کیسز سامنے آئے جب کہ رواں سال خواتین کو جائیداد نہ ملنے کے 86 کیسز سامنے آئے۔

جنوری 2017 میں ایک نجی ادارے کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد خواتین کو وراثتی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔ اگر صوبوں میں خواتین کو وراثتی جائیداد کی منتقلی کے اعداد و شمار کی بات کی جائے تو صوبہ بلوچستان اس معاملے میں سر فہرست ہے جہاں 100 فیصد خواتین کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔ جب کہ ایک اور تحقیق کے مطابق صوبہ پنجاب میں 10 فیصد خواتین کو جائیداد کی ملکیت حاصل ہے اور 3 فیصد سے بھی کم خواتین کو زرعی رقبے کی ملکیت حاصل ہے۔ پورے ملک کی بات کی جائے تو صرف 3 فیصد خواتین زرعی زمین میں حصہ دار ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین کو معاشی استحکام اس لیے بھی حاصل نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے پاس جائیداد کی ملکیت نہیں ہوتی۔

خواتین کو حق وراثت سے محروم کرنا قانونی طور پر جرم ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 498۔ اے کے مطابق کسی عورت کو اس کی جائیداد کے وراثتی حق سے محروم کرنا قانوناً جرم ہے اور اس کی سزا 5 سے 10 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

عموماً خواتین کو ان کے والدین شادی کے موقع پر جہیز دے کر رخصت کرتے ہیں اور اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں جب کہ تمام جائیداد بیٹے یا بیٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ جہیز ممانعت ایکٹ 1976 کی دفعہ 2 (ب) کے مطابق وہ پراپرٹی جو سامان جہیز کے طور پر والدین کی جانب سے دیا جائے وہ اس جائیداد کا نعم البدل نہیں ہے جو ایک بیٹی کو اپنے والدین کی وراثت/ جانشینی کے طور پر ملے گی۔ عورت کو جہیز کی صُورت میں جتنا بھی مال دیا جائے، اُس کا حقِ وراثت پھر بھی برقرار رہتا ہے۔

اِسی طرح، قرآن سے شادی یا حق بخشوانے کی آڑ میں حقِ تَرکہ سے محروم کرنا ظلم اور شریعت سے مذاق ہے۔ علاوہ ازیں، اگر بھائی، بہن کی کفالت کر رہے ہوں، تو اِس بنا پر بھی وہ تَرکے میں بہن کا حصّہ روکنے کے مجاز نہیں، کیوں کہ باپ کی غیر موجودگی یا بڑھاپے کی صُورت میں بہن کی کفالت بھائی کی ذمّے داری ہے اور وراثت بہن کا شرعی و قانونی حق ہے۔

اگر قانونی وارثان کے مابین جائیداد کی مناسب تقسیم کا مسئلہ ہے تو اس کے دو حل قانون میں موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام قانونی وارثان اپنے ضلع کے ریونیو افسر کے پاس پیش ہو کر جائیداد کی تقسیم کروا لیں۔ متعلقہ ریونیو افسر کو اس سلسلے میں مکمل اختیار حاصل ہے۔ یا دوسری صورت میں تمام وارثان دیوانی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ اگر وارثان جائیداد کی تقسیم پر متفق نہ ہوں تو ان کو یہ کرنا ہو گا کہ سول کورٹ میں وہ جائیداد کی تقسیم کا دعوٰی دائر کریں اور عدالت حسب ضابطہ کارروائی کرتے ہوئے فیصلہ صادر کرے گی جو تمام فریقین پر یکساں لاگو ہو گا۔ اور تمام وارثان کو ان کا جائز شرعی و قانونی حصہ دے دیا جائے گا۔

متوفّی کی اولاد ہونے کی صُورت میں بیوی کا آٹھواں حصّہ ہو گا، جب کہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی اُسے ملے گا۔ اگر متوفّی کی ایک سے زائد بیویاں ہوں، تو وہ سب آٹھویں یا چوتھائی حصّے میں برابر کی شریک ہوں گی

ایک بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اکلوتی بیٹی ہونے کی صورت میں بمطابق سنی فقہ کل جائیداد کا آدھا حصہ اور بمطابق فقہ جعفریہ اکلوتی بیٹی والدین کی کل جائیداد کی حقدار ہوتی ہے۔ باقی تَرکہ متوفی کے دیگر ورثا یعنی والدین، بہن بھائی وغیرہ میں تقسیم ہو گا۔

ویسے تو ہر قسم کے قانونی حق کو حاصل کرنے کے لیے وقت کی مدت کا ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔ مگر خواتین کے لیے یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ وہ اپنا حق وراثت کبھی بھی کلیم کر سکتی ہیں۔ ان پر وقت کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ لہذا وہ عدالت سے رجوع کر سکتی ہیں جب ان کو اس بات کی آگہی ہو۔

صوبہ پنجاب میں دی پنجاب انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2021 پر عمل درآمد صوبائی خاتون محتسب کرواتی ہیں۔ اس قانون کا مقصد وراثت میں خواتین کے حصے کو یقینی بنانا ہے۔ اس ایکٹ کے سیکشن چار کے تحت کوئی بھی خاتون جو کسی بھی طریقے سے جائیداد کی ملکیت سے محروم ہے، خاتون محتسب کو شکایت درج کروا سکتی ہے۔ محتسب اس معاملے کو ڈپٹی کمشنر کے پاس بھیج سکتا ہے، جو انکوائری کرنے کا پابند ہو گا اور 15 دنوں کے اندر خاتون محتسب کو رپورٹ پیش کرے گا جس کے بعد محتسب شکایت کنندہ اور اس کے مخالفوں کی طرف سے مزید ریکارڈ یا اعتراضات جمع کرانے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ خاتون محتسب شکایت موصول ہونے کے 60 دن کے اندر اندر ترجیحی طور پر آرڈر جاری کرنے کی پابند ہے۔

دفتر محتسب پنجاب میں آن لائن شکایت درج کرنے کا طریقہ انتہائی آسان ہے آپ ان کی ویب سائٹ پر دیے گئے شکایت فارم کو استعمال کرتے ہوئے دفتر محتسب پنجاب کے 36 ڈسٹرکٹ ریجنل دفاتر میں سے کسی بھی دفتر میں اپنی شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ اگر آپ درخواست کے ساتھ متعلقہ دستاویزات منسلک/ اپ لوڈ کرنا چاہتے ہیں جو کہ لازم ہیں تو آپ اٹیچ سپورٹڈ ڈاکومنٹ پر کلک کر سکتے ہیں۔ چونکہ شکایت کنندگان کو شکایت کے ازالے کی کارروائی کے بارے میں بذریعہ ایس ایم ایس اور ای۔ میل آگاہ رکھا جاتا ہے، اس لیے درست موبائل نمبر کی فراہمی/ اندراج لازمی ہے۔ جہاں موبائل نیٹ ورک تبدیل ہوتا ہے (پورٹ ایبل) ایس ایم ایس نہیں بھیجا جا سکتا۔ اگر آپ کے پاس موبائل نہیں ہے، تو آپ اپنے خاندان کے کسی فرد یا قریبی رشتہ دار کا موبائل نمبر فراہم کر سکتے۔

اسکے علاوہ آپ ویب سائٹ پر موجود ڈاک کے پتہ پر بذریعہ ڈاک اپنی درخواست بھیج سکتے ہیں یا آپ لاہور میں موجود دفتر خاتون محتسب پنجاب میں دوران دفتری اوقات خود جا کر اپنی درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔

صوبہ پنجاب کی طرح پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی خاتون محتسب کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ آپ پاکستان کے کسی بھی صوبے میں رہائش پذیر ہوں آپ وراثتی جائیداد میں حصہ نہ ملنے کی شکایت اپنے متعلقہ صوبہ کے ضلعی دفترمیں بذریعہ درخواست جمع کروا سکتی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments