استاد ایک مزدور سے بھی کم حیثیت


مزدور کہنے کو تو ایک محنت کش اور غریب طبقہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تو یہ بہت ہی قابل احترام ہے، یہ اپنی دن رات کی محنت سے وہ کارنامے انجام دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جائے لیکن اس کے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو اس کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کی محنت کو تسلیم کیا جاتا ہے، محنت کش افراد گھروں اور عمارتوں کو حسین اور خوبصورت بنا کر ملک اور شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں، کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنے خون پسینے کی محنت سے وہ غلہ اور اناج تیار کرتے ہیں جو ہماری صحت کا ضامن بنتا ہے۔

کھیتوں اور عمارتوں کو خوبصورت بنانے کے ساتھ انسانوں کو خوبصورت بنانے والی ہستی استاد بھی ایک مزدور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ مزدور وہی ہے جو اپنے اور اہل و عیال کے لیے حلال روزی کے لیے محنت کرتا ہے۔ ایمانداری اور جانفشانی سے اپنے کام کو انجام دیتا ہے۔ اپنا پسینہ بہاتا ہے ضرورت پڑنے پر خون بہانے سے گریز نہیں کرتا ہے تو ایسے مزدور کے لیے میرے دین کا حکم ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔

پاکستان میں جتنی مہنگائی ہے۔ اب تو ہر کوئی مزدور ہی نظر آتا ہے۔ اگر ہم استاد کو مزدور کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ استاد مسلسل چھ سے دس گھنٹے تک بچوں کو علم سے روشناس کرواتا ہے۔ وہ طلبا کو اپنے بچوں کی طرح ان کی اخلاقی اقدار کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چھ سے دس گھنٹے تک مسلسل ایمانداری سے محنت کرتا ہے تو دیکھنا ہے کہ کیا اس کو مزدوری جائز اور مناسب ادا کی جا رہی ہے۔

سرکاری اساتذہ کے علاوہ آج ہم پرائیویٹ اساتذہ کی بات کرتے ہیں۔ یہ معاشرہ اپنے استاد کو ایک مزدور جتنی مزدوری دینے میں کس حد کامیاب ہے؟ آج ایک مزدور تیرہ سو سے دو ہزار تک دیہاڑی لے رہا ہے۔ اگر اس کے ایک ماہ میں بیس دن دیہاڑی لگے تو کم از کم چالیس ہزار تک آسانی سے کما لیتا ہے۔ سرکاری سکولز میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے پرائیویٹ اساتذہ تعینات کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو کتنی تنخواہ دی جاتی ہے۔ بے شک پرائمری حصے کے لیے میٹرک تا ایف اے پاس استاد کو تین سے پانچ ہزار دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔

پرائمری سکولز میں یہ تنخواہ بھی سرکاری اساتذہ اپنی جیب سے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ فنڈز کی کمی ہونے کی وجہ یہ تنخواہ سرکاری اساتذہ اپنی جیب سے ادا کرنے مجبور ہیں۔ ایک سو سے دو سو روپے دیہاڑی دے کر ہم یوم مزدور کیوں منا رہے ہیں؟ استاد کو ایک مزدور سے بہت زیادہ کم مزدوری ادا کر کے یہ معاشرہ مزدور اور استاد دونوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ ہر ضلع میں کچھ پرائمری سکولز میں کیئر گیور تعینات کی گئی ہیں جو نرسری کلاسز کو پڑھانے کے ساتھ ان کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔

سب سے مشکل طلب کام نرسری کلاسز کے طلبا کو پڑھانا ہے۔ اس کے ساتھ ان بچوں کی دیکھ بھال بھی کیئر گیور کر رہی ہیں۔ بے شک یہ چار گھنٹے پر مشتمل وقت دیتی ہیں اور ایک مزدور آٹھ گھنٹے کی دیہاڑی تیرہ سے دو ہزار لیتا ہے تو چار گھنٹے کی دیہاڑی آدھی تو بنتی ہے مگر یہاں بھی ایک ماہ کا آٹھ ہزار ادا کیا جاتا ہے جو سرکاری اجرت کا کم از کم چوتھائی حصہ ہے۔ یہ سب خود سرکار کی سرکاری مشینری کے سایہ تلے ہو رہا ہے اور ہم یکم مئی کو یوم مزدور منا کر ان کئیر گیور اساتذہ کی جگ ہنسائی کر رہے ہیں۔

شرمندگی کے جہاں اور بھی ہے پنجاب حکومت کے زیر سایہ نان فارمل سکولز میں ایف اے پاس اساتذہ کو بارہ ہزار کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ جو کم از کم اجرت کا نصف بھی نہیں ہے۔ اس معاشرے کی تباہ و بربادی کی وجہ اس معاشرے کے اساتذہ کی تذلیل ہے۔ ان نان فارمل اساتذہ کو مزدور کے برابر ہی حق دے دیا جائے تو غنیمت ہو گی۔ پنجاب حکومت اور آئی ایم ایف کے سب سے پسندیدہ پروگرام پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سکولز کو دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک وہ سکولز جو حکومت پنجاب نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سپرد کیے ہوئے ہیں اور عمارتیں پنجاب حکومت کے نام ہیں۔ ان کو پیما کے نام سے چلا جا رہا ہے۔ ان سکولز میں بھی اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار تک تنخواہ دی جا رہی ہے۔ مزدور کے نصف یہ تنخواہ سال میں بارہ ماہ کی بجائے نو یا دس ماہ دی جاتی ہے۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے وہ سکولز جو پہلے پرائیویٹ تھے۔ اب پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سپرد ہیں۔ ان سکولز میں بھی اساتذہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ پانچ ہزار سے پندرہ ہزار تک تنخواہ دی جاتی ہے۔ حکومت پنجاب کو اس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ اساتذہ کو مزدور مانتے ہوئے مزدور جتنی اجرت دینی ہوگی۔ اسلامی ملک ہونے کے ناتے استاد کو اعلی مقام ملنا چاہیے مگر یہ ناممکن ہے بس مزدور ہی مان لیا جائے اور پنجاب حکومت کے زیر سایہ چلنے والے سکولز میں پرائیویٹ اساتذہ کو کم از کم سرکاری اجرت کے برابر تنخواہ دینی کے لیے عملی اقدامات کرنے ہو گے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف آفٹر نون سکولز پروگرام شروع کیا گیا۔ جس میں انصاف آفٹر نون سکولز پروگرام کے اساتذہ کو پندرہ ہزار تنخواہ دی جا رہی ہیں۔ سرکاری اساتذہ کے بالکل برابر کام کرنے کے باوجود مزدور کے برابر تنخواہ دینا بھی گوارا نہیں ہے۔ پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن پنجاب کے تمام سکولز میں بھی 32 ہزار سے کم تنخواہ دے اس قوم کے معماروں سے مذاق کیا جا رہا ہے۔ ایک مزدور سے کم تنخواہ دے کر ان اساتذہ کی جو تذلیل کی جا رہی ہے۔

اس کا خمیازہ قوم کو لازمی بھگتنا پڑے گا بلکہ اگر یہ کہوں کہ بھگت رہی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں استاد کو سب سے زیادہ مقام و مرتبہ دینے کی تلقین کرتی ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کے بقول جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا آقا ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ پاکستان میں استاد کو ایک مزدور بھی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ سب سے کمزور اور لاچار طبقہ استاد برادری ہے۔ اس لیے جتنے مرضی یوم مزدور منا لیں جب تک ایک استاد کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جائے گا۔ یوم مزدور منانے سے کوئی استفادہ حاصل نہیں کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان کے ایک استاد کو ایک مزدور ہی سمجھ کر برتاؤ کر لیا جائے تو یہ ان کی بہت بڑی عنایت ہوگی۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت کو واضح اور جامع پالیسی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments