متحدہ عرب امارات میں کرونا وائرس



جب یہ موذی وبا نہیں آئی تھی تو متحدہ عرب امارات میں رمضان کے قریب آتے ہی ہلا گلا شروع ہو جاتا تھا، جگہ جگہ افطار کے خیمے نصب ہو جاتے جن میں جس کا جی کرتا جا کر افطاری کر سکتا تھا۔ بازاروں میں اور شاپنگ مالز میں رونق بڑھ جاتی لوگ ٹرالیاں بھر بھر کے رمضان کی شاپنگ کرتے، لیکن اس دفعہ نہ خیمے لگے اور نہ شاپنگ مالز میں لوگ خریداری کرتے نظر آئے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شاپنگ مالز بند تھے، لوگ گھروں میں محصور تھے، سڑکیں جو کسی زمانے میں ایسے لگتی تھیں جیسے کوئی بہتی نہر ہو اب بالکل خالی جیسے کوئی ویران قبرستان۔

افطاری کے بعد جو ہلا گلا شروع ہوتا تو سحری تک جاری رہتا، تراویح کے بعد لوگ کیفے میں جاکر بیٹھ جاتے، ساقی چائے کا فنجان جونہی خالی ہوتا اس کو بھر جاتا، حقے کی سنگت کے ساتھ لوگ چائے کے جام پر جام تمباکو کی تندی اور کڑواہٹ کے ساتھ ملا کر پئے جاتے، ساتھ باربی کیو کے مزے بھی اڑائے جاتے اور پر مسرت بے فکری والے قہقہے لگائے جاتے، یہ ہلا گلا سحری تک رہتا۔

لیکن اس دفعہ نہ چائے کے جام ہیں، نہ حقے کے بے فکری والے کش ہیں اور نہ وہ خوشی اور انبساط میں ڈوبے ہوئے قہقہے ہیں، ویرانی سی ویرانی ہے، خاموشی کا راج ہے، خوف کا پہرا ہے، ہر بندہ ڈرا اور سہما ہوا پھرتا ہے، نہ اونچا بولتا ہے، نہ کھل کر ہنستا ہے، مطعم اور کیفے بند ہیں، شاپنگ مالز سنسان ہیں، دس بجے کے بعد باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ مساجد بند ہیں، نہ باجماعت نماز ہوتی ہے نہ تراویح کی آواز سنائی دیتی ہے، اور نہ ہی فضا میں اس با برکت مہینے میں کسی قاری کی فسوں طاری کرتی قرآن کی قراؔت کی آواز آتی ہے، ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ لوگ اپنی بالکونیاں میں آکر کھڑے ہوجاتے ہیں، اور اپنی ویران آنکھوں سے سڑکوں اور اونچی اونچی حیران و سر گشتہ عمارتوں کو تکتے رہتے ہیں، چپ چاپ گم سم۔

اس مہینے میں لوگ افطاریوں کی دعوت کرتے تھے، کوئی کسی کو ریسٹورنٹ میں بلاتا تھا اور کوئی کسی کو گھر میں مدعو کرتا تھا، کمپنیاں اپنے ملازمین کی فائیو اسٹار ہوٹل میں افطار پارٹیاں کر تی تھیں، لیکن اب کوئی کسی کو افطاری پر نہیں بلاتا، کوئی مل جل کر بیٹھنے کا بہانہ تلاش نہیں کرتا بلکہ بندے کوشش کرتے ہیں کہ کسی سے نہ ہی ملنا پڑے، بلکہ اب تو ایک دوسرے سے حجاب ہے۔ اب تو لوگ اداس ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیا عید تک سب کھل جائے گا؟ کیا عید بھی ایسے ہی گزرے گی؟ بچے ایک کرب اور اداسی کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ عید پر کیا ہم نئے کپڑے پہن کر باہر جائیں گے؟

کرونا نے لوگوں کو تنہا کر دیا ہے سماجی زندگی بالکل ختم ہوگئی ہے، پہلے سماجی زندگی کو ٹیکنالوجی نے ایک موبائل فون میں بند کیا تھا، لیکن اب کرونا نے جو تھوڑی بہت سماجی زندگی رہ گئی تھی اس کا آکے بالکل ہی انت کر دیا ہے۔ شاید یہ کوئی ہم سے فطرت کا انتقام ہے کیونکہ پچھلی دو صدیوں سے ہم فطرت کی ساتھ جو سلوک کرتے چلے آرہے ہیں، جس طرح کا ہم نے اس سے ایک خود غرضانہ اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا ہے شاید یہ اس کا ردعمل ہے، فطرت کی شاید کوئی تنبیہ ہے کہ اے بنی نوع انسان سنبھل جاؤ یہ سیارہ صرف تمہارا نہیں ہے اس پر اور بھی بہت سی مخلوق آباد ہے، اس سیارے پر صرف تمہارا حق نہیں ہے بلکہ سب جانداروں کا اس پر استحقاق ہے۔ یہ شایدعنوان ہے اگر ہم نہ سنبھلے تو پھر اگلی دفعہ فطرت کا اس سے سخت ردعمل آئے اور حیوانات، نباتات، جمادات، سمندر، پہاڑ، دریا تو باقی رہیں لیکن شاید ان پر متکبرانہ تصرف کرنے والا یہ سوچنے سمجھنے والا جانور باقی نہ رہے۔

ان کچھ ہی دنوں میں فطرت اپنے اصلی رنگ میں نظر آنا شروع ہوگئی ہے، بالکونی میں کھڑے ہوں تو دور تک نیلگوں آسمان نظر آتا ہے اس پر تیرتے ہوئے سرمئی بادل یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی حسین دوشیزہ نے اپنے کومل ہاتھوں سے نیلے آسمان کے اوپر سرمئی پھول کاڑھ دیے ہوں، اپنے دریچے سے برج الخلیفہ اپنی پوری شان و شوکت سے اردگرد کی اونچی اونچی بلڈنگوں میں ایستادہ و ابھرا ہوا نظر آتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے نظر تیز ہوگئی ہو، گاڑیوں کی گھوں گھوں اور ہارن کی کریہہ آواز کی بجائے پرندوں کی چہچہانے اور کوئل کے کوکنے کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ فضا میں ناگوار شور کے بجائے ایک سکوت اور فرحت انگیز خاموشی ہے۔

یہ فطرت کی تنبیہ ہے بنی نوع انسان کے لئے ، فطرت اس کو کہہ رہی ہے کہ اے ابن آدم سنبھل جا نہیں تو اگلی دفعہ شاید یہ موقع بھی نہ ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments