کیا ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے شعبہ زراعت کو بچایا جاسکتا ہے؟


ماحولیاتی تبدیلی جس طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی پر اثرانداز ہو رہے ہیں بالکل اسی طرح زرعی شعبے بھی ماحولیاتی تبدیلی کے زد میں ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے زرعی شعبہ کی بات کریں تو پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے شعبہ زراعت سے زرمبادلہ حاصل کرنے پر انحصار کرتا ہے تاہم گزشتہ پندرہ سالوں سے پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے زد میں ہیں اور ملک کو دو بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا۔

صوبہ خیبرپختونخوا نے بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بہت نقصان اٹھایا۔ اسی طرح چارسدہ کے ایک کسان آفتاب نے گزشتہ سال تقریباً پانچ ایکڑ زمین پر مکئی کی فصل کاشت کی تھی اور توقع کر رہے تھے کہ اس مکئی کے فصل سے اچھی خاصی پیداوار حاصل ہوگی اور ان کو کافی منافع حاصل ہو گا تاہم بے وقت بارش اور اولے پڑنے سے ان کی فصل تباہ ہو گئیں۔

آفتاب احمد کہتے ہیں کہ ”پانچ ایکڑ زمین جو کہ علاقے کے خان کی زمین ہیں اس پر مکئی کاشت کی تاکہ گھر کا چولہا جلتا رہے اور اپنے گھر کے لوگوں کو دو وقت کی روٹی دلا سکے تاہم گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں موسلادھار بارش اور اولے برسنے سے میری فصل تباہ ہو گئے اور صرف تیس من تک ہی پیداوار حاصل ہوئی جس سے کھاد اور بیج کے خرچے بھی پورے نہیں ہو رہے۔ عمومی طور پر جب میں پانچ ایکڑ زمین پر مکئی کاشت کرتا تھا تو وہ تقریباً ایک سو من تک مکئی پیدا کرتی تھی تاہم شدید موسمی حالات ہمارے فصلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر فصلیں اسی طرح موسمی اثرات کے زد میں رہی تو یہ پیشہ چھوڑنا پڑے گا کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث منافع کم اور نقصان کا خدشہ زیادہ ہے۔”

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں سال 2021۔ 22 میں چار لاکھ اٹھاون ہزار ایکڑ رقبہ پر گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی جس سے تقریباً آٹھ لاکھ چھیاسی ہزار ٹن مکئی کی پیداوار حاصل ہوئی۔ اسی طرح سال 2022۔ 23 میں چار لاکھ اٹھاسٹ ہزار ایکڑ رقبہ پر مکئی کی فصل کاشت کی گئی جس سے تقریباً نو لاکھ تئیس ہزار ٹن مکئی کی پیداوار حاصل ہوئی۔ ضلع چارسدہ میں سال 2021۔ 22 کے دوران تیرہ ہزار ایکڑ رقبہ پر مکئی کی فصل کاشت کی گئی جس سے تقریباً چالیس ہزار ٹن مکئی کی پیداوار ہوئی اسی طرح سال 2022۔ 23 میں پندرہ ہزار ایکڑ پر مکئی کی فصل کاشت کی گئی جس سے تقریباً پچاس ہزار ٹن مکئی کی پیداوار حاصل ہوئی۔

جامعہ پشاور کے شعبہ ماحولیاتی سائنسز کی لیکچرر ڈاکٹر شہلہ نازنین کہتی ہے کہ زراعت پاکستان کے 20 فیصد زرمبادلہ کے ذخائر پر مشتمل ہے جبکہ زراعت سے تقریباً خیبرپختونخوا کی 80 فیصد آبادی کی آمدن کا اہم ذریعہ ہے۔ اگر اسی طرح کے حالات رہے اور ماحولیاتی تبدیلی کو قابو کرنے کے لئے اقدامات نہ کیے گئے تو شعبہ زراعت آئندہ آنے والے سالوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے زد میں رہ سکتے ہیں۔ اگر ایسے پراجیکٹس اور ماحول دوست منصوبوں پر کام نہ کیا گیا تو ماحولیاتی تبدیلی کو روکنا مشکل ہو گا اور جس سے خوراک کی قلت کا بھی خدشہ ہے۔ ایسے منصوبوں پر کام کیا جانا چاہیے اور ایسے بیج بنائے جانے چاہیے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرسکے۔

کوپ 28 میں ستر کروڑ ڈالر لوس اینڈ ڈیمجڈ فنڈ کے مد میں ان ممالک کے لئے مختص کیے گئے جو ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہے تاہم اب پاکستان کو چاہیے کہ ایسے منصوبے لائے جس سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور زراعت سے وابستہ لوگوں پر بھی اس کے کم سے کم اثرات مرتب ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments