نواز شریف اب اڈیالہ جاکر دیکھ لیں!


سنگین مایوس کن حالات میں اہل پاکستان کو امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ اور نہ ہی کوئی ایسا لیڈر نظر آتا ہے جو ان پریشان کن حالات میں روشنی کی کوئی کرن دکھانے کا حوصلہ کرسکے۔ جن لوگوں سے مصالحت کے لیے کردار ادا کرنے کی امید کی جا سکتی تھی، ان میں سے ایک صدارت کی مسند پر براجمان ہوچکے ہیں اور مولانا فضل الرحمان میدان میں مقابلے کے لیے للکار رہے ہیں۔

حکومت اس وقت ہر طرف سے دباؤ میں ہے۔ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کو در در کی خاک چھاننا پڑ رہی ہے تاکہ ’خیرات‘ کے بعد ’سرمایہ کاری‘ کے نام پر مالی وسائل ملک میں لائے جا سکیں۔ تکلف برطرف اہل پاکستان یا ان کے لیڈروں کو امداد لینے میں بھی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے لیکن اب دشمن تو کجا دوست بھی ایسے ملک کو کوئی مدد دینے پر آمادہ نہیں ہے جو عالمی سفارتی منظر نامہ میں تیزی سے اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔ لہذا سرمایہ کاری کونسل بنا کر اب شہباز شریف اور آرمی چیف یکساں طور سے ملک میں سرمایہ لانے کے دعوے کر رہے ہیں۔

شہباز شریف کے پہلے دور حکومت میں سرمایہ کاری کی سہولت کاری کونسل بنا کر اور پاک فوج کو آرمی چیف کے ذریعے اس کا اسٹیک ہولڈر بنا کر یہی توقع کی جا رہی تھی کہ یہ اقدام ملک میں استحکام کی علامت ہو گا اور اس کونسل کے ذریعے بیرونی ممالک کو یہ یقین دلایا جا سکے گا کہ اب حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔ معاف کیجئے گا یہ اصطلاح تحریک انصاف کے سیاسی سلوگن کے طور پر مشہور تھی لیکن پاکستان کے معروضی حالات میں یہ ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے جس سے مفر کا یارا نہیں ہے۔

سرمایہ کاری کی سہولت کے لیے قائم کونسل بناتے ہوئے شاید شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کے خواب و خیال میں ملکی حالات اور دوست ممالک کے ارادوں کے بارے میں کوئی ایسا تصور رہا ہو گا کہ ایک بار شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر نے مل کر چلنے کا ارادہ ظاہر کیا تو سرمایہ کاری کے نام پر دوست ممالک کی طرف سے ڈالروں کی بارش ہونے لگے گی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اسی برتے پر گزشتہ سال کے دوران میں ہی سینکڑوں ارب ڈالر ملک میں آنے کی باتیں کی جانے لگی تھیں۔ پھر اپنی نوعیت کی دلچسپ نگران حکومت بنانے والے انوارالحق کاکڑ نے بھی یہی راگنی الاپنا شروع کردی۔ کثیر سرمایہ کاری کی خوشخبری سناتے ہوئے عوام کو یہ باور کروایا گیا تھا کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے اور سرمایہ داروں کے لیے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک بار ’قابل اعتبار‘ حکومت قائم ہو گئی تو سرمایہ آتے دیر نہیں لگے گی۔

کسی بھی ملک کے لیڈروں کی طرف سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور مصیبت کے مارے عوام کو دلاسا دینے کا یہ آزمودہ ہتھکنڈا ہے کہ وہ قومیت پرستی پر مبنی سیاسی سلوگن استعمال کرنا شروع کر دیں۔ سادہ لوح عوام کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستان کی پیداواری صلاحیت، قدرتی وسائل اور معاشی امکانات کے بارے میں، یہ نعرے کثرت سے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ ان دعوؤں کو تقریباً ہر لیڈر اور پارٹی نے اس تواتر سے استعمال کیا ہے کہ اب ملک کے عام لوگوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ ان کا ملک تو بہت ’امیر‘ ہے لیکن بدعنوان سیاست دانوں اور بد نیت حکمرانوں کی وجہ سے اس کے عوام تک ملکی وسائل کی برکات منتقل نہیں ہو رہیں۔ سیاسی لیڈروں کی اس حکمت عملی نے درحقیقت کو ملکی اشرافیہ کی بدعنوانی کے تاثر کو اس قدر قوی کر دیا ہے کہ ملک کا ہر شہری تمام تر مسائل کا ذمہ دار اپنے سوا ہر اس شخص کو سمجھنے لگا ہے جو اقتدار یا اختیار کے کسی بھی منصب پر فائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی بے چینی، بے اعتباری اور پریشان حالی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔

سرمایہ کاروں کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے بننے والی کونسل (ایس آئی ایف سی) کے قیام کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے عوام کو جیسے سبز باغ دکھائے تھے، ان سے یہ گمان ہونے لگا ہے کہ شاید ہمارے لیڈر بھی عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش میں کسی ایسی خوابناک کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں جس میں وہ اپنے ہی بتائے ہوئے پرفریب نعروں کو سچ ماننے لگے ہیں۔ یہ صورت حال واقعی خطرناک اور ملکی پالیسی سازی کے نقطہ نظر سے مایوس کن ہے۔ کسی بے بنیاد گمان میں مبتلا ہونے والے لیڈر کبھی بھی حقائق پر مبنی لائحہ عمل نہیں بنا سکتے۔ ورنہ پاکستان کو سرمایہ کاروں کی جنت قرار دینے والے لیڈر یہ کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ زیر زمین یا پہاڑوں کے دامن میں کچھ قدرتی وسائل ہوں بھی تو انہیں بروئے کار لانے کے لیے سخت محنت، تندہی، زیرکی اور سرمایہ کے علاوہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ اسے بہم پہنچانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سرمایہ کاری لانے کا اعلان کرنا آسان ہے۔

اس کے علاوہ پاکستانی حکام اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان 25 کروڑ لوگوں کا ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے وسائل مسلسل کم ہو رہے ہیں لیکن اس کی آبادی میں اضافہ فزوں تر ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آبادی کو حقیقی مسئلہ کے طور پر پیش کرنے اور اس پر مباحثہ کرنے کا ماحول بھی موجود نہیں ہے۔ سیاسی مکالمہ سے قطع نظر کسی علمی و اکیڈمک سطح پر ماہرین اس طرف نشاندہی کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ عوام کو سب ہرا ہی ہرا دکھائی دینے لگا ہے اور بعض بنیادی مسائل پر توجہ دیے بغیر وہ حکمرانوں کو سب کمزوریوں اور خرابیوں کا ذمہ دار سمجھ کر اپنے تئیں قومی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں۔

آبادی کے علاوہ دوسرا بڑا مسئلہ سکیورٹی اور مواصلات کے نظام سے متعلق ہے۔ متعدد معاشی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کی حفاظت ایک قومی مسئلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سرمایہ آنے کے ساتھ اگر بیرون ملک سے مزید ماہرین پاکستان آتے ہیں تو موجودہ حالات میں انہیں ’سکیورٹی‘ فراہم کرنے کے لیے شاید ایک نئی فوج کھڑی کرنا پڑے گی۔ کیوں کہ سکیورٹی کے نام پر ہمارا رویہ ہے کہ مسلح گارڈ میں اضافہ کر دیا جائے۔ ہمارے خیال میں اس طرح حفاظت یقینی بنائی جا سکتی ہے حالانکہ تحفظ کے لیے سماجی و سیاسی اطمینان اور عوام میں آسودگی کا احساس بے حد ضروری ہے۔ اسی طرح مواصلات کے ذرائع بڑھائے بغیر پیداوار کی ترسیل ممکن نہیں ہو سکتی۔ جب تک کسی ملک میں مواصلاتی ذرائع موثر اور محفوظ نہ ہوں، وہاں صنعتی یا دیگر کسی قسم کی پیداوار میں اضافہ کا امکان نہیں ہوتا۔

پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ اور خوبی اس کے نوجوان ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنی معمر آبادی اور کام کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان ان معدودے چند ملکوں میں شامل ہے جس کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اس سرمائے کو بروئے کار لانے کے لیے نہ پاکستان کا نظام تعلیم کردار ادا کر رہا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی منصوبہ بندی دیکھنے میں آتی ہے۔ نوجوان اسی وقت ملکی معیشت کے لیے مفید ہوسکتے ہیں اگر انہیں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت دی جائے۔ انہیں باور کروایا جائے کہ و ہی ملک کا حقیقی اثاثہ ہیں اور ان ہی کی مدد سے ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس نوجوانوں میں مایوسی و بے اعتباری پیدا کرنے والا ماحول ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر سکتا ہے جو بجائے خود معاشرے کے لیے بوجھ بنتے چلے جائیں گے۔

ملک میں مایوسی کی وجہ سے ذہنی پریشان خیالی اور جارحانہ رویوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی اہداف کے لیے دست و گریباں سیاست دان حقیقی مسائل پر گفتگو کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ قومی سطح کے ہر پلیٹ فارم پر یہی سطحی اور شدت پسندانہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر اخباری بیانات، ٹی وی ٹاک شوز، یوٹیوب چینلز یا سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو کو نظرانداز کر دیا جائے تو بھی کوئی خوشگوار صورت دکھائی نہیں دیتی۔ پارلیمنٹ کی تقاریر اور عدلیہ کے ججوں کے ریمارکس میں یہی شدت دکھائی دے گی۔ سوال غلط یا درست ہونے کا نہیں ہے بلکہ یہ سمجھنے کا ہے کہ قوم کو آگے بڑھنے کے لیے غیر ضروری اور بے مقصد غصہ کی بجائے حوصلہ مندی سے منزل کا راستہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے لیکن کسی طرف سے اس طرف پیش قدمی دکھائی نہیں دیتی۔

اسی ماحول میں ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاست دان نواز شریف نے پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کا طویل قصہ بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان ججوں سے حساب لینے کی بات کی جو ان کے بقول مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں رکاوٹیں ڈالتے رہے تھے حالانکہ وہ ملک کو ترقی کی طرف لے جا رہے تھے۔ انہوں نے 2013 میں انتخاب جیتنے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے مفاہمانہ طرز عمل کی مثال دینے کے لیے بنی گالہ جاکر عمران خان سے ملاقات کا حوالہ بھی دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی وہ سب سے پہلے بنی گالہ گئے اور عمران خان سے کہا ’ملک کی تعمیر و ترقی میں مل کر حصہ ڈالتے ہیں۔ خوشگوار ملاقات ہوئی جب میں اٹھنے لگا تو مجھے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہماری بنی گالہ کی سڑک بنوا دیں جو ہم نے پندرہ روز میں بنوا دی۔ لیکن اس شخص نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ مجھے کہا کہ آپ سے تعاون کروں گا دوسری طرف پتہ نہیں کہاں سے اشارہ ملا۔ لندن میں ظہیر الاسلام اور طاہر القادری سے ملے اور پھر دھرنے شروع ہو گئے‘ ۔

نواز شریف کے یہ سارے گلے شکوے جائز ہوں گے لیکن اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں اور عمران خان اپنے غلط سیاسی فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں سانپ کے نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ موجودہ حالات میں سیاسی لیڈروں کی باہمی چپقلش اور رنجشیں قومی بحران کو مزید گہرا کریں گی۔ اس مایوس کن ماحول میں نواز شریف جیسا لیڈر امید پیدا کر سکتا ہے۔ اگر وہ حوصلہ کرسکیں تو بنی گالہ کے سابق مقیم سے اب اڈیالہ جیل میں ملاقات کریں، سیاسی شرائط پیش کرنے کی بجائے اعلان کریں کہ وہ عمران خان کو سیاسی مخالف مانتے ہیں لیکن انہیں رہا ہونا چاہیے۔ سیاسی مقاصد کے لیے انہیں ناجائز مقدمات میں نہ الجھایا جائے تاکہ ملک میں سیاسی ماحول بہتر ہو سکے۔

خیر سگالی کے ایسے اظہار سے ہو سکتا ہے کہ ارباب بست و کشاد عمران خان کے ساتھ اپنا طرز عمل تبدیل نہ کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اسے سیاسی اسٹنٹ قرار دے کر اس ملاقات سے انکار کرے لیکن نواز شریف یہ قدم اٹھانے کا اعلان کریں تو عوام کو مستقبل روشن دکھائی دینے لگے گا جہاں ایک سیاسی لیڈر تمام تر اختلافات کے باوجود اپنے مخالف کے مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہی امید اس وقت پاکستان کی ضرورت اور بحران سے نکالنے کا راستہ ہے۔ نواز شریف کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر یہ کام کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2812 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments