عورت ہی عورت کے حقوق سلب کر رہی ہے


آج خواتین کا عالمی د ن ہے۔ پوری دنیا خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی تبدیلی آ رہی ہے لیکن کس حد تک؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ ہم غور کریں تو ہمارے مسائل آج بھی وہ ہیں جو دس سال پہلے تھے۔ مرد حضرات کے نزدیک پاکستان میں عورتیں کسی جنت میں رہ رہی ہیں۔ وہ ان کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کو زیادتی سمجھتے ہی نہیں ہیں اور اگر کوئی بے چاری خاتون عورتوں پر ہونے والی ان زیادتیوں کے خلاف بولے تو اسے ہزار ہا باتیں سناتے ہیں کہ جی آپ کے گھٹیا خاندان میں ایسا ہوتا ہوگا۔ ہمارے ہاں تو لڑکیوں کو ملکہ سمجھا جاتا ہے۔
کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے ہمیں پہلے اس مسئلے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ خواتین کو ان کے جائز حقوق نہیں دیتا۔ یہ سلسلہ عورت کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اکثر یہ ظلم ایک عورت ہی ڈھا رہی ہوتی ہے۔ آپ کسی لڑکی کی پیدائش پر ماں کو ملنے والے طعنوں کا منبع دیکھ لیں وہاں آپ کو ہمیشہ عورت ہی ملے گی۔ خود عورت ہو کر ایک لڑکی کی پیدائش پر منہ بنانا اور سخت جملے کہنا میری سمجھ میں تو نہیں آتا لیکن ہم میں سے اکثر خواتین ایسے ہی کرتی ہیں۔ وہی عورت جو بڑے شوق سے بیٹے کی دلہن لاتی ہے، دو ماہ بعد اس لڑکی سے خار کھانے لگتی ہے۔ کہیں مار پیٹ کر غصہ اتارا جاتا ہے تو کہیں کڑوے کسیلے طعنے شہد میں ڈبو کر پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں مجھے پڑوسی ملک کے ایک مشہور ٹی وی چینل کا سلوگن یاد آ گیا۔ رشتہ وہی سوچ نئی۔
میں نے گریجویشن کے بعد ایک ادارے میں جاب شروع کی تو میری ایک چچی نے مختلف لوگوں میں میرے ماں باپ کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیں کہ یہ تو بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔ میرے والدین کو جب اڑتی پڑتی سنائی دی تو وہ بھی پریشان ہوئے لیکن اللہ کا شکر ہے مجھے کچھ نہ کہا۔ مجھے اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھی بھیجا۔ اس پر میری ایک تائی نے کہا کہ پرویز تو بالکل بے غیرت ہوگیا ہے بیٹی کو باہر بھیج دیا۔لیکن آفرین ہے میرے والد پر۔ انہوں نے ان طعنوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور میں اب اپنی ڈگری مکمل کر کے چار ماہ بعد پاکستان جا رہی ہوں۔ دوسری طرف میری چچی اور تائی کی بیٹیاں شادی کے بعد اپنے گھر والی ہو گئی ہیں۔ گاہے بگاہے مسائل لے کر میکے آ بیٹھتی ہیں۔ کسی کو ساس طعنے دیتی ہے تو کسی کی سسر دھلائی کر دیتا ہے۔ ایک لڑکی تو تھانے کچہری تک چلی گئی تھی لیکن ان کی یہ ذلت بھری زندگی رشک کی نظر سے دیکھی جاتی ہے جبکہ میری ماسٹر ڈگری اور نوکری کو بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔
ان باتوں سے مجھے یا مجھ جیسی دوسری لڑکیوں کو فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں بس افسوس ہوتا ہے۔ دنیا اتنی ترقی کر رہی ہے اور ہم آج بھی اسی پسماندہ سوچ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ہماری عزت آج بھی عورت کی ذات سے منسوب ہے۔ ہمارا بیٹا دن رات انٹرنیٹ پر مصروف رہے ہم بالکل پرواہ نہیں کرتے لیکن ہماری بیٹی دوسری بار موبائل دیکھ لے ہم پریشان ہو جاتے ہیں کہ اب لگے گا عزت کو بٹہ۔ ہمارے بیٹے رات بھر دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کریں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہماری بیٹی دوست کی سالگرہ میں جانے کی اجازت مانگے ہم اسے ڈانٹ پلا کر بٹھا دیتے ہیں۔
شادی سے پہلے لڑکی کو کہا جاتا ہے کہ اپنے سارے شوق شادی کے بعد پورے کرنا۔ شادی کے بعد جب لڑکی اپنی مرضی سے اڑنے کا سوچتی ہی ہے تو شوہر پر کاٹ دیتا ہے کہ جو کرنا تھا شادی سے پہلے کر کے آتی۔ اب تمہارا کام بس آلو بینگن پکانا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کرو گی تو ہماری عزت کٹ جائے گی۔ مجھے نہیں سمجھ آتا کہ یہ پورے خاندان کی عزت میرے پاس کیسے ٹرانسفر ہوئی۔
نہ جانے ہم اپنی سوچ کب بدلیں گے۔نہ جانے ہم کب سمجھیں گے کہ عورت بھی انسان ہے۔ اس کا بھی دل ہے۔ اس کے بھی ارمان ہیں۔ وہ بھی خواب دیکھتی ہے اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ نہ جانے ہم کب سمجھیں گے کہ ہماری عزت صرف لڑکیوں سے منسوب نہیں ہے۔ ہماری عزت ہمارے بیٹوں سے اور ہماری اپنی ذات سے بھی منسوب ہے۔ جس دن ہم یہ سمجھ لیں گے اس دن ہمارے آدھے مسائل ختم ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).