کیا بھارت پاک چین دوستی میں دراڑ ڈال سکتا ہے؟


چین کی طرف سے موصول ہونے والے اشاریے برصغیر کے بارے میں بیجنگ کی پالیسی کو واضح کرتے ہیں۔ یہ اشارے پاکستان میں ’پاک چین بھائی بھائی‘ کے مزاج کے عکاس نہیں ہیں بلکہ یہ یہ بتا رہے ہیں کہ دو ملکوں کے تعلقات مفادات اور ضرورتوں پر استوار ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کے معاملات میں صرف اتنی دلچسپی لے کر دست تعاون دراز کرتا ہے جو خود اس کی قومی ضرورتوں کو پورا کرتا ہو۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ طریقہ کار ہے جو دنیا بھر کے تمام خود مختار ملکوں کے درمیان مروج ہے لیکن پاکستان میں بوجوہ خارجہ معاملات کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ سعودی عرب کے حوالے سے بھی ہوتا ہے اور چین کے بارے میں بھی یہ تاثر قومی کیا گیا ہے کہ چین ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

گو کہ چین نے بڑی حد تک کئی مشکل سفارتی مراحل میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے کبھی بھی پاک بھارت تنازعہ میں فریق بننے یا اس بارے میں کوئی دو ٹوک پوزیشن لینے کی کوشش نہیں کی۔ متعدد اسٹریجک، معاشی اور سفارتی ضرورتوں کے تحت بلاشبہ بیجنگ کا جھکاؤ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی طرف رہتا ہے۔ پاکستان کو اس پر خوش بھی ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ نہ تو چین یا کسی دوسرے ملک سے اس سہولت سے زیادہ توقع کی جائے جو وہ ملک باآسانی فراہم کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنے عوام کو بہلانے کے لئے کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کو نعرہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان کو خارجہ تعلقات حقیقت پسندی اور معروضی حالات کے مطابق استوار کرنے کا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور عوام کو بھی یہ باور کروانا چاہیے کہ ملکوں کے درمیان معاملات افراد کے باہمی رشتوں سے مختلف ہوتے ہیں اور انہیں اسی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

پلوامہ سانحہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والی سیاسی و سفارتی رسہ کشی نے گزشتہ ماہ کے آخر میں مختصر فضائی تصادم کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اب اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ امریکہ کے علاوہ چین نے بھی اس تصادم کو ختم کروانے کی حتی الامکان کوشش کی تھی۔ تاہم اس حوالے سے اہل پاکستان کو کبھی یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ امریکہ کی طرح چین نے بھی پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کو مسترد نہیں کیا تھا۔ اگرچہ امریکہ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے شروع میں صدر ٹرمپ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کے ذریعے بھارت کے ’حق دفاع‘ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ایک طرح سے یہ اشارہ دیاتھا کہ بھارت اگر انتقامی کارروائی کے طور پر پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کرتا ہے تو امریکہ کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔

تاہم 26 فروری کو بالاکوٹ پر ناکام حملہ کی کوشش کے بعد جب پاکستانی فضائیہ نے اگلے ہی روز دو بھارتی مگ فائیٹرز کو مار گرایا اور ایک پائیلٹ کو بھی حراست میں لے لیا گیا تو واشنگٹن نے جوہری ہتھیاروں کے حامل دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کروانے کی ضرورت محسوس کی اور وزیر خارجہ مائیک پومیو اور سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے پاکستانی اور بھارتی قیادت کے ساتھ رابطوں کے ذریعے دونوں حکومتوں کو تنازعہ کو طول دینے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ تاہم امریکہ کی طرح چین نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت پر ہی زور دیا۔ اس نے بھی امریکہ کی طرح بھارت کی طرف سے دو ہفتے قبل لائن آف کنٹرول عبور کرکے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کی مذمت نہیں کی تھی۔

امریکہ اور چین درپردہ اپنے اپنے طور پر اسلام آباد اور نئی دہلی کو تصادم سے گریز کا مشورہ دیتے رہے تھے۔ پاکستان کی حکومت اور فوج کی طرف سے تو امن اور مذاکرات کی بات کی جارہی تھی لیکن بھارت میں انتخابات کی وجہ سے نریندر مودی کی حکومت اس معاملہ کو اچھالنے اور اسے اہم قومی معاملہ بنانے کی بھرپور کوشش کرتی رہی ہے۔ اس لئے واشنگٹن اور بیجنگ کے لئے بنیادی طور پر یہ اہم تھا کہ کسی طرح مودی حکومت کو باور کروایا جائے کہ عسکری تصادم شروع ہؤا تو بھارت کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کو ختم کروانے میں ان دونوں ملکوں کی دلچسپی ان کی اپنی ضرورتوں اور مفادات کی وجہ سے تھی۔ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے ذریعے ایک جامع معاشی اور مواصلاتی منصوبہ پر کام کررہا ہے۔ سی پیک بھی اس بڑے منصوبہ کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے چین نہ اس علاقے میں کشیدگی چاہتا ہے اور نہ ہی پاکستان کو تباہی کی طرف بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کو ایک تو برصغیر میں کسی جنگ کی صورت میں ایٹمی تصادم کا اندیشہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ وہ چین کے خلاف بھارت کو معاشی قوت اور اسٹریجک پارٹنر کے طور پر تیار کررہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی جنگ کی وجہ سے بھارت اس قدر کمزور ہو سکتا ہے کہ چین کے مقابلے میں اسے مزاحمتی قوت بنانے کا خواب بکھر سکتا ہے۔

اس پس منظر میں امریکہ کے لئے کسی بھی قیمت پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلح تصادم کی صورت حال کو ختم کروانا ضروری تھا۔ کیوں کہ یہ اس کے اپنے مفادات کے خلاف تھا۔ امریکہ پاکستان کے ذریعے افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے اور افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کی جنگ کا سب سے پہلا نشانہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ہی بنتے۔ اس طرح کئی حوالوں سے امریکی مفادات داؤ پر لگے تھے۔ تاہم اس مقصد کے لئے پاکستان کو ہی زیادہ دباؤ کا نشانہ بنایا گیا۔

اب یہ خبر سامنے آچکی ہے کہ امریکی فوجی قیادت نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کرکے انہیں واضح طور سے بتا دیاتھا کہ حراست میں لئے گئے بھارتی پائیلٹ ونگ کمانڈر ابھے نندن ورتھامن کو فوری اور باعزت طریقے سے رہا کرنا ضروری ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے چوبیس گھنٹے کے اندر ابھے نندن کو رہا کرنے کا اعلان کردیا اور 36 گھنٹے کے اندر مقید پائیلٹ اپنے وطن روانہ ہوچکا تھا۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق واہگہ پر ابھے نندن کی رہائی کے وقت بعض دستاویزی ضرورتوں کی وجہ سے جب ابھے نندن کی رہائی میں تاخیر ہوئی تو امریکی جرنیلوں نے فوری طور سے جنرل باجوہ سے رابطہ کرکے ابھے نندن کی رہائی کو یقینی بنانے کی ضمانت حاصل کی تھی۔ ابھے نندن کی فوری رہائی کو بھارت میں نریندر مودی کی پاکستان پر کامیابی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اسی لئے ابھے نندن کا رہائی پر ہیرو کے طور پر استقبال کیا گیا تھا لیکن پاکستان کو خیر سگالی کے اس اظہار کے بدلے میں بھارت نے کوئی رعایت نہیں دی تھی۔

دوسری طرف چین نے بھی تصادم کو پھیلنے سے روکنے کے لئے تمام تر سفارتی کوششیں کیں لیکن اس نے بھی پاکستان اور بھارت کے تنازعہ میں فریق بننے سے گریز کیا تھا۔ بھارت نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیجنگ سے یہ ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی کمیٹی میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی تجویز کو ویٹو نہ کرے۔ چین اس سے پہلے تین بار پاکستان کی درخواست پر مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالنے کی تجویز کو مسترد کرچکا ہے۔ پلوامہ واقعہ کے بعد امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے ایک بار پھر مولانا مسعود اظہر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کروانے کی قرارداد پیش کی ہے جس پر اسی ہفتے کے دوران فیصلہ کیا جائے گا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ چین متعلقہ فریقین کے ساتھ سنجیدہ اور ذمہ دارانہ بات چیت کے ذریعے اس معاملہ میں رائے کا اظہار کرے گا۔ انہوں نے اس تجویز کو ویٹو کرنے کا اقرار نہیں کیا۔ اگر چین مسعود اظہر کے معاملے میں بھارت کی رائے کے احترام میں اب اس تجویز کو ویٹو نہیں کرتا تو یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہی ہو گی۔ پاکستان نے انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کا اعلان کرنے اور وزیر خارجہ کی طرف سے صدر ٹرمپ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کو فون پر دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا یقین دلوانے کے باوجود، ابھی تک مسعود اظہر کے بارے میں اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا ہے۔

چین نے نہ صرف جیش محمد کے سربراہ کے معاملہ میں ’متوازن اور عقلی‘ رویہ اختیار کرنے کی بات کی ہے بلکہ چین کے قوم پرست اخبار گلوبل ٹائمز میں ایک مضمون نگار نے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حالیہ تصادم سے سبق سیکھیں اور مل جل کر باہمی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح اس علاقے میں غربت اور احتیاج کے خلاف کام کیا جاسکتا ہے۔ مضمون نگار نے واضح کیا ہے کہ چین دونوں ہمسایہ ملکوں کے تنازعہ میں فریق نہیں بنے گا لیکن تصادم سے بچنے اور مفاہمانہ طور سے بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی ضرورت پر زور دیتا رہے گا۔

چین سے موصول ہونے والے یہ اشارے اسلام آباد کے لئے اہم اور چشم کشا ہونے چاہئیں۔ اسے تسلیم کرنا چاہیے کہ چین ا س کے غیر ضروری مطالبات کی تکمیل کے لئے اپنے علاقائی سفارتی و معاشی مفادات کی قربانی نہیں دے گا۔ چین نے یہ واضح کیا ہے کہ اس کے لئے بھارت بھی پاکستان ہی کی طرح اہم ہے۔ وہ وہاں بھی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں تعاون کررہا ہے اور بھارت کو روڈ ایند بیلٹ منصوبہ کی مخالفت ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2777 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali