شعبہ اردو جامعہ کراچی میں رضا علی عابدی کی پذیرائی


بنگالیوں کے ساتھ تو رہا جا سکتا تھا فاصلہ بھی کراچی سے چارگھنٹے کی مسافت کا تھا لیکن پاکستانی بیانیہ نہ ہونے کے سبب بنگلہ دیش بنا یہ جواردو تھی اس میں تو پورے ہندوستان کا ملّی بیانیہ تھا سکھوں کا، ہندوؤں کا، کرسچنز کامسلمانوں کا یہی وجہ تھی کہ گاندھی نے کہا کہ اس کا نام ہندوستانی رکھ دیتے ہیں اردواگرپورے خطے کی نمائندگی نہ کر رہی ہوتی تووہ یہ کیوں کہتے! بیانیہ جو ہے Stanceنہیں ہوتا یہ انگریزی زبان کالفظ ہے جس کے معنی مؤقف کے ہیں۔

مؤقف انفرادی سطح کا ہوسکتا ہے، فلاں صاحب کا یہ مؤقف ہے فلاں کایہ مؤقف ہے لیکن جب ہم Narrative کی بات کریں گے تو Narrative Narrationسے نکلا ہے کہانی کار سے نکلا ہے اس کا تعلق کہانی سے ہے اورکہانی کرداروں کے بغیر نہیں ہوتی اورکردارخطّے کے بغیر نہیں ہوگا مؤقف جو ہے کرداروں کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ خطّے کے بغیر بھی نہیں ہوسکتا۔ اب Narrative میں خطّہ بھی ہے اسی لیے یہ بیانیہ جو ہے اس سے زیادہ مؤثر لفظ اس حوالے سے نہیں ہوسکتا۔

ہم روزبروز اپنے علاقوں اپنے شاہ لطیف، بلھے شاہ بابافرید سے بچھڑتے جارہے ہیں۔ آج پاکستان کی تمام زبانیں مغربی اورانگریزی بیانیے کے زیرِ اثرہیں۔ یہ ساری باتیں سوچنے کی ہیں میرا مؤقف یہ ہے کہ ملّی بیانیہ پاکستانی بیانیے سے ہم آہنگ نہ ہوسکا اوراب ہم یہ سمجھ لیں کہ پاکستانیت میں ہی اسلام ملفوف ہے تو اس کے ساتھ پاکستانی بیانیے کی طرف آجائیں یہ تفرقے، لسانی مذہبی اختلافات سب ختم ہوجائیں گے۔ رضاعلی عابدی نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا ’عزیزو، صحافیوں کی برادری میں آگیا ہوں مجھے لفافہ مل گیا ہے۔ خوش رہیے اتنی تعریف و توصیف کا میں مستحق نہیں ہوں ایسی کوئی بات نہیں ہے زندگی کوخوب خوب برتا نبھایا اس سے لطف اٹھایا اورکام کرنا اچھا لگا، کام کیا اور پھر تھپکی ملی جوآج تک مل رہی ہے شاباشی یہ سب سے بڑا صلہ ہے تواس سے بڑھ کرمجھے کچھ نہیں چاہیے۔ ریڈیوکی دنیا میرے زمانے کی اَوردنیا تھی مشرقی پاکستان الگ ہوا تھا ملک میں سیاسی بحران تھا اور ہر شخص بے تاب تھا پیا سا تھا اور وہ دور تھا کہ جب میں نے بی بی سی میں شرکت اختیار کی اور بے شمار سننے والے ملے زمانہ ایسا تھا کہ ٹیلی وژن کا دورنہیں تھا اخباراگلے روزآتا تھا اورریڈیو ساری خبریں فراہم کردیتا تھا مجھے سامع ملے بہت بڑی تعداد میں اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے یہ محسوس ہوا دنیا مجھے سُن رہی ہے توجی چاہا کہ میں دنیا کونئی نئی چیزیں سناؤں نت نئے موضوعات کھنگالوں دنیا کامشاہدہ کروں دنیا کا مشاہدہ کرنا مشکل نہیں لیکن اس مشاہدے کوبیان کرنا مشکل ہے وہ ایک ہنرہے جوقدرت نے مجھے عطاکیا میں نے ہندوستان پاکستان کے کونے کونے کادورہ کیا اوراتنی معلومات جمع کرکے پہنچا اپنے سامعین تک کہ آج تک اُس کی قدرہوتی ہے اورآپ نے یہ سُنا ہوگا کہ میں نے بڑوں کی انیس اوربچوں کی بیس کتابیں لکھی ہیں اوربہت جلد بڑوں کی کتا ب بھی اس نشان کوپہنچنے والی ہے۔

وہ ایک نوعمرلڑکے نے املا بول کرمجھ سے لکھوائی ہے۔ توایک اَور طرح کی نئی طرح کی کتاب آنے والی ہے دونوں امکانات ہیں یا توآپ خوش ہوں گے حیران ہوں گے یا آپ سمجھیں گے خودپرستی خودنمائی ہے۔ پاکستان کی سرزمین سے میراتعلق ہے اس پرمیں خودبھی نازاں ہوں اوراردوکانفرنس سے فارغ ہوتے ہی رسا تڑا کے بھاگا اورگھوٹکی، دھڑکی اورتھرپارکر کے علاقوں کودیکھنے گیا ایک اَورطرح کی دنیا اورطرح کے لوگ اورطرح کے مسائل اورطرح کے خواب۔

اچھا لگتا ہے دنیا کو جاننا اور دنیا کوجان کرپھریہ بتانا کہ کیا جانا اوربھی اچھا لگتا ہے اورخوشی ہوتی ہے۔ رُڑکی کا ذکر اب جو کتاب چھپ رہی ہے اس کا نام رُڑکی ہی رکھا تھا لیکن میرے دوست نے کہا کہ نہیں لوگ سمجھ نہیں پائیں گے اس سے کیا مراد ہے پھراس کا نام رکھا گیا‘ مجھے سب یاد ہے ’اس میں بچپن کی یادیں جوحیرت انگیز طورپر مجھے لگتا تھا مجھے اپنے بچپن کی سطحی سی باتیں یاد ہوں گی لیکن حیرت انگیز طورپر جواُبال آیا تو سیلاب یادوں کا اُمڈ کر باہر آ گیا اگرکہیں آپ اس کتاب کامطالعہ کریں تواس کا ایک عنوان‘ میری گلی میرا دروازہ ’ضرور پڑھیے گا۔

میں ابھی تھرپارکرسے لوٹ کرآیا ہوں مجھے اشتیاق تھا وہاں جانے کا خبروں میں بہت آتا رہا ہے کہ بچے بہت بھوکے مر رہے ہیں پانی نہیں ہے روزگار نہیں ہے۔ فاقے ہورہے ہیں میں نے سوچا اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ صحافی کامسئلہ یہ ہے کہ کوئی خبرکسی منظرکی تصدیق کے لیے کسی حد تک جا سکتاہے۔ آپ ایک خبرحاصل کرتے ہیں اس کی تصدیق کے لیے دوسری خبر حاصل کرناضروری ہے۔ تو تھرپارکر کی خبریں سنتے سنتے میرابھی جی چاہا اب میں سچی بات بتاؤں جومیڈیا آپ کونہیں بتائے گا حال بُرا ہے مگراتنا بھی نہیں!

بچے کیوں مررہے ہیں کسی نے ہمیں نہیں بتایا مگرہمیں یہ پتا چلا کہ وہاں کے لوگ خاندانی منصوبہ بندی کے سخت خلاف ہیں ہر کنبہ بارہ تیرہ بچے ضرورپیدا کرتا ہے اورجب اتنی کثرت سے بچے ہوں تو ان سب کی دیکھ بھال ممکن نہیں ہوتی ایک دو کا گزر جانا باعثِ حیرت نہیں۔ پرانے زمانے میں بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ بچے زیادہ ہونے چاہئیں کہ ایک دو ضرورمرتے ہیں اس لیے تلخی نہیں ہونی چاہیے۔ بہت لوگ جاتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کرو لیکن وہ نہیں مانتے۔

آپ جانتے ہیں تھرپارکرمیں بہت بڑی کان کوئلے کی نکلی ہے جسے کھود کھود کر انسان کوئلے کی سطح تک پہنچ گیا ہے اوراس کی وجہ سے لوگوں کوروزگارمل گیا ہے چوبیس گھنٹے رات دن کام ہورہا ہے رات کوبھی معلوم ہوا دن کا سماں ہوتا ہے۔ سب مٹی کوئلہ ڈھوتے رہتے ہیں ٹرک ڈھونے کے لیے آدمی زیادہ چاہیے ہوتے ہیں توآپ کوجان کرحیرت ہوگی کہ یہ کام تھر کی خواتین کر رہی ہیں ان کی تربیت ہوتی ہے آزمائش ہوتی ہے اورپھرانھیں ٹرک چلانے کاکام سونپا جاتا ہے۔

ہم وہاں گئے جہاں بھرتیاں ہورہی تھیں ایک عورت گاؤں کی اگر ٹرک چلارہی ہے تواس کی خوشحالی دیکھ کراس کے گاؤں کی اَورپانچ عورتیں آگے آتیں ہیں کہ ہمیں بھی ٹرک چلانے ہیں۔ اوروہ خواتین بھی تھیں جو پہلے سے ٹرک چلا رہی تھیں۔ ایک عورت آئی تو اس کابچہ کپڑے کے جھولے میں سورہا تھا قدوقامت سے اندازہ ہوا تین چارماہ کا معلوم ہوتا تھا اس سے بات کی تو پہلا دلچسپ انکشاف یہ ہوا کہ وہ رواں اردوبول رہی تھیں علم وہاں تک پہنچ رہا ہے۔

اس سے میں نے پوچھا کہ تمہارا سب سے بڑا بچہ کیا کرتاہے؟ کہنے لگی وہ یونیورسٹی جاتا ہے۔ اب آپ قیاس کرلیجیے کہ بڑا یونیورسٹی جاتا ہے اورچھوٹا کندھے پر جھولے میں پڑا ہے۔ وہاں عورتوں کوسمجھایا جاتا ہے کہ اپنا دودھ پلائیں لیکن وہ باز نہیں آتیں کنویں کاڈول پانچ چھ عورتیں مل کرکھینچتی ہیں تب ڈول باہر آتا ہے وہ پانی بچوں کو پلاتی ہیں وہ بیماریوں سے مرجاتے ہیں یہ علم کی کمی ہے وہاں اور یہاں جوسندھ کی حکومت بیٹھی ہے جوکہتی ہے پانی صاف کرنے کے نوسو پلانٹ لگائے ہیں!

سفید جھوٹ ہے۔ پلانٹ لگائے ہیں سب بند ہیں تالاپڑا ہوا ہے کام کرنے والے نہیں گھاس اگی ہوئی ہے۔ کوئی کام کرنے والا ہے تو اینگرو والے ہیں جو پانی صاف کرنے کا پلانٹ چلا رہے ہیں۔ میں نے بھی وہ صاف کیا ہوا پانی چکھنے کی خواہش کی تومیرے ساتھی نے حیرت کا اظہارکیا میں نے کہا میں پی کے دیکھوں گا کیا ہوتا ہے؟ خبرہی بنے گی نا! میں نے وہ پانی چکھا اتنا شفاف خوش ذائقہ اچھا پانی تھا! میں آپ سے سچ کہتا ہوں نیسلے سے بھی زیادہ خوش ذائقہ پانی تھا۔

کام ہو رہے ہیں لوگوں کو بتایا نہیں جاتا عجیب بات یہ ہے کہ منفی خبروں کوبڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں خبرکے بارے میں ایک اصول ہے اچھی خبر خبرنہیں ہوتی، بری خبر خبر بنتی ہے۔ تھرپارکر جیسا دوردراز علاقہ اس کی جھاڑیاں بھی ایسا لگتا ہے سوکھی ہوئی ہیں۔ اس کے درخت اونٹ گردن اونچی کر کر کے  اور جھاڑیاں بکریاں کھا جاتی ہیں لیکن ایک کمال کسی نے کیا ہے جس نے بھی کیا ہے اللہ کرے وہ زندہ رہے بہترین سڑکیں تھرپارکرمیں لاجواب سڑکوں کاجال بچھا ہوا ہے ان کے دونوں کنارے پختہ ہیں تاکہ مٹی سڑک پر نہ آئے پھرگاؤں میں تکونے چھپّر کی گول دیواروں والی جھونپڑیاں اوران کے پہلومیں ایک جدید عمارت بنی ہے جس میں ایک سو چالیس ایک سو پچاس بچے تعلیم پارہے ہیں۔

ہم وہاں کھڑے تھے توکچھ بچے آئے۔ میرے ساتھی سے ایک بچے نے پوچھا what is your name؟ انھوں نے جواب دیا۔ پھر پوچھا what is your father؟ وہ سٹپٹائے کہ یہ کون سی انگریزی ہے میں نے کہا معاف کیجئے گرامر کے لحاظ سے فصیح ہے تھرکا بچہ انگریزی میں سوال پوچھ کرہمیں حیران کر گیا۔ تعلیم پہنچے گی توانقلا ب آئے گا ہماری قومی پسماندگی کا ایک سبب تعلیم کی کمی ہے لیکن اب وقت بدل رہا ہے میں گاؤں گاؤں دیہات دیہات چھپّروں میں بچوں کو پڑھتے دیکھا ان کے ہاتھوں میں جدید بستے دیکھے کتابیں دیکھیں ایک اسکول خیرپور کے کچے کے علاقے میں دیکھا جس کی استانی نوکلومیڑ دورسے آتی ہیں اورلڑکیوں کے اس اسکول میں پڑھنے والی لڑکیوں کی عمریں سولہ سترہ برس کی ہیں اوروہ الف انار ب بکری پڑھ رہی تھیں یعنی اب وہ لوگ لڑکیوں کوپڑھانے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ یہ انقلاب کی پہلی کلی ہے جوپھوٹ رہی ہے لیکن ہمیں اس کی خوشبو ابھی محسوس نہیں ہورہی ہے۔ پاکستان میرا وطن ہے میری سرزمین ہے مجھے اپنی جان سے عزیز ہے۔

تقریب کے اختتام پر موسیٰ کلیم اورجوائنٹ سیکریٹری کراچی پریس کلب ادبی کمیٹی نعمت خان نے رضا علی عابدی کو کراچی پریس کلب کی جانب سے شیلڈ پیش کی جبکہ علاؤ الدین خانزادہ اوراختربلوچ نے اجرک کاتحفہ دیا نظامت کارعلاؤالدین خانزادہ نے سینئر صحافی راشدعزیز کاخصوصی شکریہ ادا کیا کہ ان کی کاوشوں سے اس تقریب کا انعقاد ممکن ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2