عورت مارچ


آٹھ مارچ آیا اور رخصت ہوگیا لیکن اس دفعہ بڑی دھج دکھا گیا۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اگر ہم سماج کو دائیں، بائیں اور لبرل خانوں میں رکھ کے دیکھیں تو ہر طبقے نے اپنی آواز اٹھائی۔ سڑکوں پر بھی اور سوشل میڈیا پر بھی خوب رونق رہی۔ اگر لبرل خواتین اپنی روٹی خود پکانے کا پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھیں تو کچھ مجاہد خواتین نے اعلانیہ نہ صرف روٹی پکانے بلکہ عزت بھی کرنے کا ردعمل دیا۔ اور ہمارے بائیں بازو کی بہنوں کا زیادہ زور اس بات پہ تھا کہ ہم مزدور اور مظلوم عورتوں کے حق میں کھڑے ہیں، لیکن وہ این جی اوز اور لبرل فحاشی ایجنڈے کو لتاڑنا نہ بھولیں۔

سوشل میڈیا پہ بھی اسی بحث کو تھوڑے مرچ مصالحے لگا کے بڑھایا گیا۔ کسی صاحبہ نے لبرل خواتین پہ لاحول پڑھی تو کچھ اصحاب نے ایک ایک پلے کارڈ کا تھوڑا غیر اخلاقی جواب دینا مناسب سمجھا۔ جیسا کہ ایک عورت نے پلے کارڈ اٹھایا تھا کہ میں آوارہ، میں بدچلن، تو کسی اعلی ظرف نے اس پہ یہ تبصرہ کرنا بالکل برموقع سمجھا کہ بی بی ریٹ بھی بتاتی چلو۔ کچھ بائیں بازو کے دوست اس بات پہ رنجیدہ پائے گئے کہ عورت کی آزادی کی تو بات ٹھیک ہے لیکن یہاں تو عورت کو بے حیائی اور فحاشی آمیز حقوق مانگنے پر اکسایا جارہا ہے۔

جیسا کہ ایک پلے کارڈ پہ تصویر کے ساتھ درج تھا کہ ”کہ میرا جیسے دل چاہے گا بیٹھوں گی“ تو ہمارے بائیں بازو کے دوستوں کے خیال میں یہ تو عورت کو بے لباس اور بے عزت کرنے کی سازش ہورہی ہے اور عورتوں اور معاشرے کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی سوچی سمجھی یا بے وقوفانہ قسم کی کوشش ہے اور کچھ بھائیوں نے اسی بہانے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی پھر سے آڑے ہاتھوں لیا کہ دیکھیں یہ سرمایہ دار امیر عورتیں جن کے اپنے گھروں میں چھوٹی چھوٹی بچیاں کام کرتی ہیں وہ یہاں کیا پاکھنڈ کر رہی ہیں اور ساتھ معاشرے کی دوسری عورتوں کو بھی ورغلا رہی ہیں۔

ایک بہت پیارے انسانیت پرست دوست، جن کا عملی کام بہت قابل تعریف ہے، تو حبِ مارکس میں یہاں تک چلے گئے کہ آپ نے فرما دیا کہ دیکھیں یہ سب عورتیں سنگل، طلاق یافتہ یا ہم جنس پرست ہیں اور ہمارے رشتوں سے مزین تمدن کو داغدار کرنے کی سرمایہ دارانہ سازش میں جانے انجانے شریک ہیں، (انجانے یہاں خوش گمانی کی انتہا پر جا کر لکھا گیا ہے ورنہ بقول مرشد خادم رضوی گل وچ ہور ای سی) ۔

یہاں کچھ نکات میرے (میرا کہنا تھوڑا غیر ادبی لگتا ہے لیکن چونکہ زیادہ تر لکھاری بزعم خود ہی بندہ، خاکسار، درویش، فقیر، ناچیز اور طالبعلم کی نشستوں پہ براجمان ہوچکے ہیں تو میرا کہنا ہی فی الوقت اکانومی کلاس لگتی ہے ) ذہن میں آئے سوچا شئیر کر لیے جائیں۔ تو عزیزانِ من، عورتوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد سڑکوں پہ آئی، پلے کارڈ اٹھائے، کہیں ہلکی پھلکی دھمال اور لڈی بھی ہوگئی اور ساتھ کچھ سرخ و سبز تقریریں بھی سننے کو مل گئیں۔

نہ کسی پہ کفر کا فتوی لگایا گیا، نہ باجماعت گالیاں دی گئیں، نہ کسی کو واجب القتل ٹھہرایا گیا اور نہ ہی دائیں اور بائیں بازو کی عورتوں کی آپس میں جھڑپیں ہوئیں۔ موم بتی والوں نے موم بتیاں جلائیاں اور بقول ہمارے کچھ دوستوں کے، نان ایشوز پہ مبنی پلے کارڈ اٹھائے اور ایک خاص طبقے کی ترجمانی کی اور لال جھنڈے والوں نے لال دوپٹے لے کے مظلوم اور مزدور عورتوں کے حقوق کا مطالبہ کیا۔

کسی بھی مہذب معاشرے میں بات کہنے کی، صحیح یا غلط، سب کو آزادی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ اب یہ جو اعتراضات اٹھ رہے ہیں کیا یہ بے راہ روی والے اعتراضات نئے ہیں یا ہائپیشیا، سقراط، گلیلیو، ابن رشد، الرازی، اور قرۃ العین پہ اٹھائے گئے اعتراضات سے ملتے جلتے ہیں؟ بھائیو اور بہنو اور پیارے دوستو، لوگوں کو بولنے تو دو، خاص طور پہ اس بات پہ تو یقیناً کسی کو اختلاف نہ ہوگا کہ عورت ایک محکوم اور منظم رسوم و رواج کے تحت مظلوم طبقہ ہے۔ لوگوں نے بات ہی کی ہے نا، جس بات میں دم ہوگا وہ دلوں تک پہنچے گی، جو جھوٹ اور سازش ہوگی وہ دلوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جائے گی۔ بقول محشر بدایونی

” جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا“

ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ خدائی فوجداروں کی تو چلو ڈیوٹی ہے کہ وہ ہر نئی ایجاد اور خیال جیسا کہ، زمین گھومتی ہے، ہوا میں جہاذ اڑتے ہیں، ریل گاڑی، پرنٹنگ پریس، لاؤڈ سپیکر، ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائیں۔ لیکن جن لوگوں نے دنیا کی تاریخ پڑھی رکھی ہے، مارکس، لینن، ٹراٹسکی، چومسکی اور دیگر جن کو ازبر ہیں اور جن کا علم اتنا وسیع ضرور ہے کہ وہ یہ تاریخی حقیقت اچھے سے سمجھتے ہیں کہ زرعی انقلاب کے بعد پدرسری نظام رائج ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، عقائد، قانون، معاشرہ، تاریخ حتی کہ ادب، سب نے مردانہ برتری کی ہی گواہی دی۔ وہ لوگ جب پھبتیاں کستے ہیں یا صرف سرخ اور سبز جھنڈے کی بنا پر دوسری طرف کی ہر بات کو صرف انداز فکر یا نظریے کے فرق کی وجہ سے رگید رہے ہیں۔ تو ”اس حادثہ ء وقت کو کیا نام دیا جائے؟ “

اب یقیناً اس سارے معاملے میں راقم کے نقطہ نظر پہ بھی سوال ہوگا۔ تو احمد ندیم قاسمی کے اشعار اس مشکل کو حل کیے دیتے ہیں

ہم سیاست سے، محبت کا چلن مانگتے ہیں

شبِ صحرا سے مگر صُبحِ چمن مانگتے ہیں

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذنِ کلام

ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).