پرایئڈ اینڈ پریجوڈیئس اور ہمارا معاشرہ


حال ہی میں ناول pride and prejudice پڑھنے کی خواہش پوری ہوئی حالانکہ یہ ناول مجھے کچھ سال پہلے ہی پڑھ لینا چاہیے تھا جب میں نے ایم اے انگلش کا امتحان دیا۔ یہ ناول ایم اے انگلش کے کورس میں شامل ہے مگر کیونکہ اس وقت میرے پاس وقت کی انتہائی کمی تھی امتحان سر پر تھے لہذاٰمیں نے یوٹیوب کھولی اور بی بی سی کی ایک ایسی سیریز مل گئی جو کہ اس ناول سے ماخوذ ہے 1995 میں اس ناول کو بی بی سی نے سیریز کی شکل میں نشر کیا تھا۔

مئسلہ آسان ہوگیا میں نے ناول پڑھے بغیر دیکھ کر ہی امتحان کی تیاری کرلی مگر اس ناول کو پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا جو آج تک قائم ہے۔ مجھے ادب میں صرف خوبصورتی پسند ہے میرے لئے زندگی کی خوبصورتی ہی ادب ہے۔ میں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں اور بدصورتی کو کبھی ادب کے طور پر قبول نہیں کیا۔ زندگی میں بہت کم ہمیں کوئی ایسا ناول یا کہانی ملتی ہے جو ہماری طبیعت کے عین مطابق ہو۔ مجھ جیسے انسان کو ٹریجڈی پسند نہیں آتی مجھ سے پوچھیں گے کہ پسندیدہ فلم کون سی ہے تو جواب آئے گا جب وی میٹ ؛ مجھ جیسے لوگوں کو کبھی ٹایٹینک پسند نہیں آتی دکھی کہانیاں تو دل پر صرف بوجھ ڈالتی ہیں بہت بھاری بوجھ۔

اگر آپ کو زندگی خوبصورت محسوس نہیں ہوتی تو بی بی سی کا یہ ڈرامہ ضرور دیکھیے گا آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ زندگی کتنی حسین ہے حسین لوکیشن ’کردار‘ ڈایئلاگ نظارے سبھی خوبصورت ہیں۔ دو سو سال سے زیادہ پرانا برطانیہ وہ وقت جب نہ تو موٹر گاڑی ہے اور نہ ہی ٹیلی فون بگھیوں پر سفر ہورہے ہیں اور خط و کتابت سے رابطے مگر اس کے باوجود اس زندگی میں کتنی کشش اور خوبصورتی ہے۔ اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آسان ترین اور خوبصورت ترین انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے اگر آپ کی انگریزی واجبی سی ہے تب بھی آپ یہ ناول پڑھ سکتے ہیں۔ دور جدید کا برطانیہ یا مغرب کی بات کی جائے تو وہ لوگ اب اس معاشرے سے بہت دور نکل چکے ہیں جس کی چھاپ اس ناول میں موجود ہے مگر ہم آج دو سو سال بعد اسی معاشرتی صورتحال میں موجود ہیں جو ناول میں دکھائی گئی ہے۔

ہمیں یہ اپنی ہی سوسایئٹی کی کہانی محسوس ہوتی ہے ایک عام پاکستانی خاندان، پانچ بیٹیاں، ماں کو صرف بیٹیوں کی شادی کی فکر اور اباجی تمام فکروں سے آزاد ہوکر ایک اپنی ہی دنیا بسائے بیٹھا ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے اپنی زندگی میں ہمارے معاشرے میں ایلیزبیتھ جیسے بہت سے کردار ملے ہیں ایک ایسی لڑکی جس کی شادی بہت امیر گھر میں ہوگئی لڑکی کے نصیب جاگ اُٹھے گھر میں نوکر چاکر بھی مل گئے اور ایک خوبرو نوجوان بھی جیون ساتھی کی شکل میں مل گیا اگر آپ اپنی زندگی میں تلاش کریں تو آپ کو بھی ضرور کوئی نہ کوئی ایسی مثال ضرور مل جائے گی جہاں لڑکا بالکل مسٹر ڈارسی کی طرح ہوگا جس کے ماں باپ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے خزانے کی چابی چھوڑ کر اللہ میاں کے پاس چلے گئے ہوں اور لڑکی شادی سے پہلے تو اتنی غریب مگر مسٹر ڈارسی جیسے لڑکے سے شادی ہوئی اور زندگی بدل گئی۔

پہننے کے لئے دس بیس تولے سونا، ہنڈا سٹی کی سواری، لاہور کے پوش ایریا میں گھر مگر لڑکی کے ماں باپ رہتے ہوں گے دو مرلے کے فلیٹ میں۔ ایسا آیئڈیل رشتہ ہو جانے کے بعد یہ لڑکی ہمارے معاشرے کی رول ماڈل بن جاتی ہے۔ ہر لڑکی کو مسٹر ڈارسی کا انتظار رہتا ہے اور ہر ماں کو ایسے ہی اچھے رشتے کا انتظار ستانے لگتا ہے۔ اس پورے ناول کی کہانی کا مرکز ہے شادی اور ہمارے معاشرے میں ہر لڑکی کی زندگی کا مرکز ہے شادی۔

لڑکی نے بی اے کرلیا کالج مکمل ہوا اور اب فارغ رہنے اور حسن سنوارنے کا زمانہ شروع۔ مایئں بھی بس یہی خواہش کرتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں حسین اور سٹایئلش ہوں گُن شُن تو وہ خودی سسرال میں جاکر سیکھ لیں گی اور ہاں سسرال میں تو نوکر ہوں گے اس نے کیا کام کرنا ہے جو کچھ سیکھے۔

ہر ماں اپنے سے اُوپر کی کلاس میں اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتی ہے اور کچھ لوگوں کے سر پر پیسے اور دولت کا خبط اس قدر سوار ہوتا ہے کہ وہ ناں تو لڑکے کی عمر دیکھتے ہیں اور ناں ہی یہ کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے یا کنوارہ دیکھتے ہیں تو صرف اس کا بنک بیلنس۔ اور یقین کیجیے میں نے آج تک کسی خوبصورت لڑکی کو کوجی شکل والے امیر بندے کے ساتھ ناخوش نہیں دیکھا۔ ہمارے معاشرے میں ابا جی کا کردار بھی ناول میں موجود مسٹر بینٹ جیسا ہی ہے۔

اس کی عام سے مثال آپ یہ دیکھیں کہ بہت دفعہ ہمیں سڑکوں پر یہ سین نظر آتا ہے کہ ابا جی کی داڑھی ہے ٹوپی پہنی ہوئی ہے اور بایئک پر پیچھے بیٹی فُل ماڈرن لباس میں ہے بال بھی کھلے ہیں سر پر دوپٹہ نہیں ہے کسی نے جینز پہنی ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ابا جی کا بیٹیوں پر رعب نہیں ہے یا اُن کے رشتے میں محبت کی کمی ہے یا باپ کی سوچ اولاد پر لاگو نہیں ہے اصل میں ہمارے معاشرے نے زیادہ تر ابا جی نے اپنی اولاد کے کاموں سے لا تعلقی کا اعلان کردیا ہوا ہے۔ ہمارے اباجی کا ایک ہی ڈایئلاگ ہے ”تم جانو تمہاری ماں جانے“

ایک اچھے امیر اور خوبصورت لڑکے کا رشتہ مل جانا بہت بڑی کامیابی ہے اور اگر وہ لڑکا آپ سے محبت بھی کرتا ہو تو اس سے زیادہ زندگی میں کیاچاہیے مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ پورے ناول میں مسٹر ڈارسی امیر اور خوبرو ہونے کے باوجود خود ایلیزبیتھ سے شادی کرنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور ایلیزبیتھ اس مقصد سے اس کے پیچھے نہیں پڑی۔ ایک قابل رشتے کی تلاش چھوڑو اور یہ سوچیں کہ میں خود کتنی قابل ہوں۔ اپنے آپ کو ایسا بنایئں کہ لوگ آپ کے پیچھے بھاگے نہ کہ آپ لوگوں کے۔ یاد رکھیئے گا ہیرے کی پرکھ صرف جوہری کو ہوتی ہے اگر آپ خود ہیرا ہیں تو ایک سچا انسان ہی آپ کی خوبیاں دیکھ سکتا ہے اور امیر لڑکے کی تلاش جاری رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).