بلیوں کو شاید اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہی نہیں آتا


بلی

بلیوں کو ناپسند کرنے والوں کے خیال میں بلیوں کی کی محبت صرف اسی وقت جاگتی ہے جب ان کے کھانے کا برتن خالی ہو جاتا ہے

ایسا لگتا ہے کہ کتے اپنے جذبات پرقابو پر پانے کے اہل ہی نہیں ہیں اور اگر وہ خوش ہیں، یا ان کا موڈ خراب ہے تو ان کی جسمانی حرکات سے ظاہر ہو جائے گا۔ انسان کتوں کے اشاروں کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔

البتہ بلیوں کی باڈی لینگوئج کافی پیچیدہ ہےاور ان کی دم، کانوں اور مونچھوں کی حرکت سے ان کے موڈ کا کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ بلی کی خرخراہٹ کو عام طور پر اسی کی محبت اور اطمینان کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

بلی کی خرخراہٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا موڈ کیا ہے، کیا وہ خوش ہے یا کہہ رہی ہےکہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔

ہم کتوں کی انسان سے دوستی کے بارے میں کافی یقین سے کہہ سکتے ہیں لیکن بلیوں کے بارے میں ایسا دعوی کرنا مشکل ہے ۔ بلیاں ہزاروں سالوں سے انسانی صحبت میں رہ رہی ہیں لیکن وہ آج بھی اپنی شہرت کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں۔ بلیوں کی آزاد خیالی کو بعض اوقات ایک نعمت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن کچھ لوگ اسی آزاد خیالی کو مغرورپن اور خود غرضی سے تعیبر کرتے ہیں۔

بلیوں کے مخالفین کا خیال ہے کہ ان کی محبت صرف اسی وقت جاگتی ہے جب ان کے کھانے کا برتن خالی ہو جاتا ہے۔

بلیوں کے مالک اس خیال کو رد کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ ان کا اپنی بلی سے اتنا ہی قریبی تعلق ہے جتنا کتوں کے مالک کا اپنے کتوں سےہوتا ہے۔

بلی

لیکن بلی کے الگ تھلگ رہنے کی شہرت میں حقیقت بھی ہے یا یہ صرف بلیوں کے مخالفوں کی رائے ہیں۔

بلیوں کی آزاد خیالی کی شہرت کے باوجود اس کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں۔ برطانیہ میں 2012 میں ہونے والے ایک جائزے میں ظاہر ہوا کہ برطانیہ میں تقریباً ایک کروڑ بلیاں ہیں اور ملک میں 25 فیصد گھروں میں کم از کم ایک بلی ٹہل رہی ہے۔

بلی کی آزاد خیالی اور مغرور ہونے کی شہرت کی وجہ شاید وہ حالات ہیں جن میں بلی نے انسانوں کے ساتھ رہنا شروع کیا۔ کتے نے انسانی قربت مرحلہ وار حاصل کی۔ جب بلیوں نے انسان کے قریب آنا شروع کیا تو یہ اس کی مجبوری نہیں تھی بلکہ انسان نے اسے اپنے قریب لانے کی کوشش کی۔

بلیوں نے دس ہزار سال پہلے پتھروں کے دور میں انسانوں سے اپنے راہ و رسم بڑھانے شروع کیے۔ جب بلیوں نے انسانوں کے ساتھ رہنا شروع کیا تب بھی ان کا طعام کے لیے انسانی دوستوں پر انحصار نہیں تھا بلکہ انسانوں نے اسے اپنے گھروں، گواداموں اور فضلوں میں چوہوں کے شکار کرنے کی حوصلہ افزائی کی تاکہ ان کا غلہ چوہوں سے بچ جائے۔

شاید اسی وجہ سے بلی اور انسان کے تعلق میں ایک فاصلہ رہا ہے۔ دوسری جانب کتوں نے انسان کو شکار کرنے میں مدد دی اور ان کی گذر بسر اس شکار میں سے حصہ پر ہوتی تھی۔

اب بلی شاید صوفے پر جم کر بیٹھی ہو یا کتابوں کی الماری کے ایک کونے پر بیٹھے پر آپ کو دیکھ رہی ہو لیکن اس کی شکار کرنے، اپنے علاقے میں گشت کرنے اور اپنے ہم نسلوں کو اپنے علاقے سے دور رکھنے کی جبلت میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ کتوں کے برعکس ہماری گھریلو بلیوں اور جنگلی بلیوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔

انٹرنیشنل کیٹ کیئر سے تعلق رکھنے والی کیرین ہائیسٹینڈ کے خیال میں بلیوں کےبارےمیں عام رائے دراصل انسانی غلط فہمی ہے۔ وہ کہتی ہیں:’ انسان اور کتوں میں بہت مشابہت ہے اور وہ بہت لمبے عرصےسے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ دونوں اکٹھے ہی ارتقائی عمل سے گذرے ہیں۔ جبکہ بلیوں کا انسان سے تعلق بہت حالیہ ہے اور اس کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی ایسی نسل سے ہے جو سماجی جانور نہیں ہیں۔’

بلی

انسان نےجس افریقی بلی کو گھریلو بنایا ہے وہ اکیلےرہنا پسند کرتی ہے اور صرف اس وقت میل ملاقات کرتی ہے جب اسے جنسی تعلق قائم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔’

بلی وہ واحد غیر سماجی جانور ہے جو انسانوں کے ساتھ رہنے پرتیار ہوئی۔ انسان نےبلی کے علاوہ جس جانور کو گھریلو بنایا ہے ان کا اپنے نسلوں سے ایک گہرا سماجی تعلق ہے۔

اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ بلی گھریلو جانوروں میں بھی اجنبی ہے، شاید اسی وجہ سے ہم اس کو اچھی طرح سمجھ ہی نہیں پائے ہیں اور ہم اس کے اشاروں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔

کیرین ہائیسٹینڈ کے خیال میں ‘چونکہ وہ خود مختار ہیں اور خود اپنا خیال رکھ سکتی ہیں، شاید اسی وجہ سے وہ بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ لائف سٹائل ان کے لیے موزوں بھی ہے یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے۔ انسان چاہتے ہیں کہ وہ انسانوں اور کتوں کی طرح بن جائے لیکن وہ ایسی ہے نہیں۔’

کتوں کی نسبت بلیوں پر کم ریسرچ ہوئی ہے لیکن اب بلیوں کے بارے میں ریسرچ میں تیزی آئی ہے۔ ابھی تک کی ریسرچ میں سامنے آیا ہے کہ بلیوں کے انسانوں کی طرف رویے کافی پیچیدہ ہیں۔

اس میں کچھ رویے تو جنیاتی ہیں تو کچھ سماجی۔ ایسی بلیاں جن کے بچپن میں انسانوں کا رویہ شفقت بھرا ہے ان کا انسانوں کے ساتھ رویہ مختلف ہوتا ہے اور وہ ان کے ساتھ زیادہ وقت گذارنا پسند کرتی ہیں۔

ایسی بلیاں جو گھروں سے بھاگ جاتی ہیں اور وہ بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح انسان کو دیکھتے ہوئےچھپ جانا پسند کرتی ہیں۔ اب بحیرہ روم کے ممالک کے علاوہ جاپان جیسے ملکوں میں آوارہ بلیوں کی کالونیاں بن رہی ہیں اور وہ ایسے گاؤں اور قصبوں میں زیادہ پھلتی پھولتی ہیں جہاں مچھلی رانی ہوتی ہے اور وہ وہاں سے انسانوں سے اچھا تعلق قائم رکھتی ہیں۔ مثال کے طور استنبول کی نیم آوارہ بلیاں گلیوں میں پھرتی ہیں اور مقامی لوگ ان کو خوراک مہیا کرتے ہیں اوروہ اب شہر کی شناخت کا حصہ بن چکی ہیں۔ حال ہی میں استنبول کی بلیوں پر ایک ڈاکومینٹری فلم بھی بن چکی ہے۔

پھر ایسی گھریلو بلیاں بھی ہیں جو انسانوں کے ساتھ رہتے ہوئے ایک فاصلہ رکھتی ہیں جبکہ کچھ ایسی ہیں جنہیں انسانی صحبت بہت پسند ہے۔

بلیوں کے ساتھ قریبی تعلق بنانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

کتوں کی طرح بلیاں بھی زبان کے بجائےاپنی جسمانی حرکات سے بہت کچھ کہتی ہیں۔

بلیوں کے رویے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والی کرسٹین ویٹال کے خیال میں’انسان کتوں کے برعکس بلیاں کی جسمانی حرکات کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہے اور یہ بلیوں کا قصور نہیں ہے۔’

کتوں کی ایک صفت نے انھیں انسانوں کی محبت بٹورنے میں بلیوں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پوڑسمتھ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ میں سامنے آیا ہے کہ انسان کی کتوں سے محبت کی وجہ ان کی کم سن بچوں کی حرکات کی نقل اتارنے کی صلاحیت نے انھیں انسان کا پسندیدہ جانور بننے میں مدد دی ہے۔ کتوں نے اپنی آنکھوں کا ایک ایسا پھٹا تیار کر لیا ہے جس کی جنبش سے وہ اپنے تاثرات بیان کر سکتا ہے حالانکہ کتوں کے رشتہ دار بھیڑیوں میں یہ صلاحیت موجود نہیں۔ کتوں کے اس ارتقائی کرتب نے انہیں انسان کا لاڈا بنا دیا ہے۔

بلیاں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی آنکھوں میں یہ پٹھا نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جب بلی آپ کو گھورتی ہے تو اس میں انسیت اور محبت نہیں جھلکتی اور انسانوں کو لگتا ہےکہ وہ بہت بے مروت ہے۔

بلی

جب بلی کے طعام و قیام کا بندوبست مکمل ہو تو وہ سماجی تعلق بنانے کی کوشش کرتی ہیں

لیکن جب بلی آپ پر کمرےکے دوسرے طرف سے آنکھ چھپکتی ہے تو یہ اس کی محبت کے اظہار کا ایک انوکھا انداز ہے۔ اگر وہ اپنا منھ دوسری طرف موڑ لیتی ہیں تو یہ بھی ناراضی کا اظہار نہیں بلکہ ان کے اطمینان و سکون کو ظاہر کرتا ہے۔

انسان کی یہ توقع کہ بلیاں بھی کتوں کی طرح کا رویہ اپنائیں، انسان کو بلیوں کے بارے میں متعصب بنا دیتا ہے۔

کیرین ہیسٹیڈ کاکہنا ہے کہ بلیوں اور کتوں کے مزاج میں فرق کو پہچان نہ پانا اصلہ مسئلہ ہے۔’ میں ایک کانفرنس میں گئی تو مجھے ایسا لگا کہ میں احمق ہوں۔ مجھے بلیوں کے بارے میں کچھ بنیادی چیزوں کا علم نہیں تھا۔ مثال کے طور پر بلیاں کھانے اور پانی کے لیے مختلف برتن پسند کرتی ہیں۔‘

اسی کو لے لیں کہ جب بلیاں اپنے مالکوں کی ٹانگوں سے لپٹتی ہیں تو عام خیال جاتا ہے کہ وہ مالکوں پر اپنا حق جتا رہی ہیں جس طرح ان کے آباؤ اجداد درختوں سے جسم کو رگڑ کر اپنے علاقے کا تعین کرتے تھے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ وہ اپنے مالکوں کے ساتھ محبت کا اظہارکر رہی ہوتی ہیں اور اپنی بو کو انسانی جلد پر منتقل کر رہی ہوتی اور جواب میں انسانی بو کو اپنے بالوں میں سمو رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح جنگلی بلیاں اپنی ان ساتھی بلیوں کے ساتھ جسم رگڑتی ہیں جن کے ساتھ ان کا اتحاد ہوتا ہے اور اس طرح وہ اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کرتی ہیں۔

کیرین ہیسٹینڈ کے خیال میں اگر بلی پرسکون ہے تو وہ دوستی کرنا چاہتی ہیں۔’ جب ان کے طعام و قیام کا بندوبست مکمل ہو تو پھر سماجی تعلق بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔

تو اگلی جب آپ گھر آئیں تو دیکھیں کہ آپ کی بلی صوفے پر پرسکون انداز میں بیٹھے ہوئے حالات کا جائزہ لے رہی یا کاہلی سے جمائیاں لے رہی ہے تو مایوس نہ ہوں۔ وہ اپنے انداز میں خوش ہے اور آپ کو کہہ رہی ہے’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33050 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments