باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں غیرت کے نام پر دو خواتین سمیت چار افراد قتل ، ایک زخمی


غیرت کے نام پر قتل
وہ شادی کرنا چاہتے تھے، لڑکے کے والدین نے لڑکی کے والدین سے رشتہ بھی مانگا تھا لیکن انکار کر دیا گیا۔ لڑکی والوں کی جانب سے کہا گیا کہ لڑکی کی منگنی ہو چکی ہے۔ پھر مبینہ طور پر لڑکا لڑکی نے ملاقات کا فیصلہ کیا لیکن اس ملاقات کے دوران دونوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق دونوں کی لاشیں موقع پر پڑی رہیں، ان کے رشتہ دار آئے اور لاشیں اٹھا کر ساتھ لے گئے لیکن کسی نے پولیس کو اطلاع نہ ہی کسی نے قتل کا دعویٰ کیا۔

قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں ایک ہفتے میں پیش آنے والے دو مختلف واقعات میں دو خواتین سمیت چار افراد ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوا ہے۔

یہ واقعات پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں پیش آئے ہیں۔ مقامی سطح پر انتظامیہ نے نوٹس لیا تو پولیس کی مدعیت میں غیرت کے نام پر قتل کے مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ پولیس رپورٹ کے مطابق قتل کے ایک واقعے میں لڑکی کے بھائی کو ملزم نامزد کیا گیا ہے تاہم اس مقدمے میں اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

شادی کی خواہش موت کاسبب بنی؟

سالارزئی تھانے کے ایس ایچ او سہیل نے بتایا کہ 25 ستمبر کی صبح انھیں اطلاع ملی کہ تھانے کی حدود میں واقع دور افتادہ پہاڑی قصبے بٹمالی میں مبینہ طور پر رات دو بجے ایک لڑکے اور لڑکی کو قتل کیا گیا ہے۔

پولیس کی مدعیت میں درج ہونے والی ابتدائی رپورٹ کے مطابق قتل ہونے والے لڑکا لڑکی مبینہ طور پر ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ موبائل فون پر رابطہ بھی تھا۔

پولیس کے مطابق اس سے قبل مقتول لڑکے کے گھر والے لڑکی کا رشتہ مانگنے کئی بار لڑکی کے گھر گئے لیکن دوسری طرف سے ’ہر بار رشتہ دینے سے انکار کیا گیا‘۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق مبینہ طور پر مقتول لڑکا اور لڑکی 24 اور 25 ستمبر کی درمیانی شب رابطہ کر کے ملنے کے لیے جائے وقوعہ پہنچے اور لڑکی کے بھائی امجد کو جب اس بات کا علم ہوا تو اُس نے فائرنگ کر کے دونوں کو قتل کر دیا۔

مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل ہونے والی سترہ سالہ لڑکی کے ایک رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘لڑکی کی کہیں منگنی ہو چکی تھی اور ایک ماہ بعد اس کی شادی طے تھی‘۔

رشتہ دار نے الزام عائد کیا کہ ’وقوعہ کے دن لڑکی کے گھر کے سامنے آٹے کی چکی میں واقع ایک کمرے میں دونوں اکٹھے تھے۔’

پولیس ایف آئی آر کے مطابق اس بات کا جب لڑکی کے بھائی کو علم ہوا تو اُس نے کمرے کے دروازے کو باہر سے تالا لگا دیا۔ اس دوران دونوں نے کمرے میں موجود ایک لوہے کی کھڑکی کو توڑ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کے بھائی نے دیگر رشتہ داروں کو اکٹھا کیا تاکہ وہ انھیں یقین دلا سکے کہ دونوں مبیبہ طور پر ناجائز تعلق کے مرتکب ہوئے ہیں اور انھیں غیرت کے نام پر قتل کرنے کے لیے ان کی رضا مندی حاصل کرسکے۔ جس کے کچھ دیر بعد اس نے مبینہ طور پر دونوں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

متعلقہ پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں اس قتل کی اطلاع ہونے سے قبل ہی لاشوں کو دفنا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکا۔

ضلعی پولیس کے ایس پی انویسٹی گیشن محمد زمان کا کہنا ہے کہ دونوں مقتولین کے رشتہ داروں نے علی الصبح ہی لاشوں کو دفن کر دیا تاکہ علاقے میں لوگوں کو واقعے کے بارے میں معلوم نہ ہوسکے اور ان کی بدنامی نہ ہو۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘جرم میں ملزم کو دونوں خاندانوں کی حمایت حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ قتل ہونے والی لڑکی کے چچا اور قتل ہونے والے لڑکے کے ایک قریبی رشتہ دار نے جرم کو چھپانے کی غرض سے دونوں کی خون آلودہ کپڑوں کو جلا دیا۔’

پولیس نے ان دونوں کو شواہد مٹانے کے الزام میں شاملِ مقدمہ کیا تاہم کچھ دن بعد عدالت نے دونوں کو ضمانت پر رہا کر دیا۔

قبائلی علاقہ جات

قتل کا دوسرا واقعہ جسں میں لڑکا بازار میں اور لڑکی گھر میں قتل

قتل کا دوسرا واقعہ بھی قبائلی علاقے باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں پیش آیا ہے جہاں پولیس ایف آئی آر کے مطابق دو موٹر سائیکل سوار بھائیوں پر راستے میں پہلے سے گھات لگائے بیٹھے ملزمان نے فائرنگ کی جس سے ایک ہلاک جبکہ دوسرا بھائی زخمی ہوگیا۔

زخمی ہونے والے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ اس پر ایک خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام تھا جو شاید اس پر فائرنگ کی وجہ بنا۔

اس واقعے کی ایف آئی آر کے بعد قتل کی ایک اور ایف آئی آر بھی سلارزئی پولیس تھانے میں درج ہوئی جس میں کہا گیا کہ مذکورہ خاتون کو بھی اپنے گھر میں قتل کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق خاتون شادی شدہ تھی۔

سلارزئی پولیس کے مطابق جب وہ اس خاتون کے گھر میں داخل ہوئے تو اس وقت خاتون کی لاش خون میں لت پت صحن میں پڑی تھی اور گھر کی خواتین موقع پر موجود تھیں مگر گھر کا کوئی مرد وہاں نہیں تھا۔

ایس پی انوسٹی گیشن محمد زمان کا دعویٰ ہے کہ یہ بھی غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ ہے۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق یکم اکتوبر کی دوپہر سلارزئی کے علاقہ تورتم میں موٹر سائیکل پر سوار دو بھائیوں پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہو گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ فائرنگ کے فوراً بعد ملزم نے گھر میں اپنی بھابھی کو بھی قتل کر دیا اور فرار ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے

پسند کی شادی: ’قتل‘ کےبعد خاموشی سے دفنا دیا گیا

غیرت کے نام پر قتل: ’آواز اٹھائی تو مار دیے جاؤ گے‘

بندوق کے زور پر زہر کا پیالہ

درہ خیبر

غیرت کے نام پر قتل پر خاموشی

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کے ان واقعات کو مقامی سوشل میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے بھی اجاگر نہیں کیا۔

پاکستان کے قبائلی اضلاع کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا اس وجہ سے ایسے واقعات کم ہی رپورٹ ہوتے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم عورت فاؤنڈیشن خیبر پختونخوا کی ڈائریکٹر شبینہ ایاز نے اس بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ کچھ علاقوں میں خاص طور پر قبائلی اضلاع میں تو سماجی مسائل پر کام کرنے والے اور انسانی حقوق کے عہدیدار بھی خوف یا دیگر وجوہات کے باعث خاموش رہتے ہیں اور آواز نہیں اٹھا پاتے۔

انھوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کو پاکستان کے کچھ علاقوں میں ’تسلیم کر لیا گیا ہے‘ اور اس کو ’جرم ہی نہیں سمجھا جاتا‘۔

انھوں نے کہا کہ خاص طور پر ’قبائلی علاقوں میں یہ ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے‘ اور حکومت نے 2004 میں غیرت کے نام پر قتل کا جو قانون منظور کیا تھا اس کے تحت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

انھوں نے باجوڑ کے واقعے میں پولیس کی مدعیت میں رپورٹ درج کرنے کے واقعے کو سراہا اور کہا کہ اس میں حکومت اور انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ غیرت کے نام پر ایسے قتل یا تشدد جیسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

پاکستان میں ایسے واقعات کتنے ہوتے ہیں؟

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان (ايچ آر سی پی) کے مطابق پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ایک عرصے سے جاری ہیں۔

ایچ آر سی پی کے 2019 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں 108، پنجاب ميں 159 جبکہ خیبرپختونخوا میں 40 خواتين کو غيرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 55 اور خيبر پختونخوا ميں 40 مرد بھی غيرت کے نام پر قتل کیے گئے تھے۔

جبکہ 2020 میں ایچ آر سی پی نے اپنے رپورٹ میں بتایا کہ اس سال کے آخر تک 363 خواتین اور 148 مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32800 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments