ڈیپ فیک پورن کے ’زندگی کو ہلا دینے والے‘ اثرات جو ہمیشہ کے لیے صدمہ بن جاتے ہیں

ہیلین بشبے - شیفیلڈ ڈاکیومینٹری فیسٹیول میں انٹرٹینمنٹ رپورٹر


ڈیپ فیک پورن کے اثرات کے بارے میں ایک دستاویزی فلم کی ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ ان کی فلم لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ اس کی وجہ سے ہونے والا صدمہ ناقابل بیان ہوتا ہے۔

روزی مورس کی دستاویزی فلم ’مائی بلونڈ گرل فرینڈ‘ مصنفہ ہیلن مورٹ کی زندگی کے بارے میں ہے جب انھیں پتہ چلا کہ ان کی تصاویر ایک پورن سائٹ پر ڈیپ فیک تصاویر کے طور پر موجود ہیں۔

ڈیپ فیک امیج یا تصویر وہ ہوتی ہے جہاں ایک شخص کا چہرہ ڈیجیٹل طور پر دوسرے شخص کے جسم کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔

ہیلن کا کہنا ہے کہ فلم میں وہ سوچتی نظر آتی ہیں کہ ان کی یہ تصاویر اُن کے کسی پرانے فیس بُک اکاؤنٹ سے لی جا سکتی ہیں یا عوامی سطح پر کسی نے کھینچی ہوں گی۔

فلم میں ہم انھیں 19 سے 32 سال کی عمر کی اپنی تصاویر کو کھنگالتے ہوئے دیکھتے ہیں جو مختلف شادیوں کی تقریبوں، خاندانی تقریبات اور جب وہ حاملہ تھیں، کھینچی گئی تھیں۔

یہ وہ تصاویر ہیں جن کو پھر ڈیجیٹل طور پر جنسی مناظر اور پرتشدد مناظر والی خواتین کی تصاویر کے ساتھ ایڈٹ کیا گیا تھا۔

وہ ڈاکیومنٹری میں سیدھے کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے لیے تصاویر دیکھنے کی ضرورت تھی۔‘

یہ منظر سامعین کو ایک غیر آرام دہ گفتگو کا حصہ یاد دلاتا ہے۔

ہیلن کہتی ہیں کہ وہ ان تصاویر میں سے کسی کو بھلا نہیں سکتیں

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک عورت ہے جو بیڈ کے کنارے پر بیٹھی ہے، اس کا چہرہ میرے چہرے جیسا ہے لیکن اس کا منھ حقیقت میں میرا نہیں ہے اور وہ (جنسی فعل کر رہی ہے)۔۔۔ عورت کی جلد میری نسبت بہت زیادہ داغدار ہے اور اس عورت کے جسم پر بالکل میرے ٹیٹو جیسا ٹیٹو ہے۔

اس تحریر پر ہیلن کو ’مائی بلونڈ گرل فرینڈ‘ کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا۔ جو کہ بعد میں ڈیپ فیک پر مبنی ڈاکیومنٹری کا نام رکھ دیا گیا۔

مورس نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ان تصویروں کے ہیلن پر ہونے والے اثرات کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں جن میں خوفناک اور بار بار آنے والے ڈراؤنے خواب اور پاگل پن کے دورے شامل ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں ہیلن کا کہنا ہے کہ وہ اکثر ایسا محسوس کرتی ہیں جیسے ’سڑک پر موجود لوگوں کو کسی نہ کسی طرح تصویروں کے بارے میں معلوم ہو گیا تھا اور وہ میرے بارے میں اس خوفناک راز کو جان گئے تھے۔‘

یہ پہلی بار نہیں ہے جب انھوں نے اس کے بارے میں بات کی ہے اور ڈیپ فیک پورن پر دیگر دستاویزی فلمیں بھی بن چکی ہیں تو مورس کی فلم کیسے مختلف ہے؟

وہ کہتی ہیں کہ ’میری فلم مجرم پر توجہ نہیں دیتی ہے، مجھے اس شخص میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جس نے یہ سب کیا۔ میرا بنیادی مقصد یہ تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ آپ اس کہانی کے ساتھ ہیلن پر ہونے والے اثرات جان سکیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس دستاویزی فلم کے دوران آپ ہر مقام پر ہیلین کے ساتھ ہیں، جب میں ان سے ملی تھی تو وہ تب بھی اس کو ہضم کرنے کی اور اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور آپ یہ سب اذیت اور کرب اس وقت ہی سمجھ سکتے ہیں جب ہر سطح پر آپ ان کے ساتھ ہوں گے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں ہیلن سے ملی تو جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ یہ تھا کہ آپ کسی کے ساتھ رابطے میں آئے بغیر جنسی طور پر ان کے ساتھ زیادتی اور خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔‘

’اور اسی چیز نے مجھے یہ فلم بنانے پر مجبور کیا۔‘

ڈیپ فیک پورن کے لیے استعمال ہونے کا صدمہ بہت زیادہ اور حقیقی ہے۔ ڈرہم یونیورسٹی کی پروفیسر کلیئر میک گلن، جو تصویر پر مبنی جنسی استحصال کی ماہر ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا اثر زندگی کو تباہ کرنے والا اور تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے متاثرین ’سماجی طور پر ٹوٹ پھوٹ‘ بیان کرتے ہیں، جہاں ان کی زندگی اس استحصال سے ’پہلے‘ اور ’بعد‘ کے درمیان تقسیم ہو کر رہ جاتی ہے، اور یہ استحصال ان کی پیشہ ورانہ، ذاتی، معاشی زندگی کے ہر پہلو اور صحت کو متاثر کرتا ہے۔‘

دستاویزی فلم میں ہیلن کہتی ہیں کہ ’مجھے ایسا لگا جیسے وہ اصلی تصاویر ہیں اور یہ ان لوگوں کو بتانا مشکل ہے جن کی خود کی تصویروں کے ساتھ ایسا نہ ہوا ہو کہ یہ اصل میں کیا ہے۔‘

’لیکن ان تصاویر نے میرے ذہن میں بہت سے خیالات کو جنم دیا۔ میں ان تصاویر کو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں سکتی تھی اور میں اپنی صحیح تصاویر کو بھی ٹھیک طرح سے دیکھ نہیں پاتی تھی۔‘

مورس نے ان تصاویر کے ہیلن پر اثرات کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب جب میں ان کی تصویر لباس میں دیکھتی ہوں اور اگر میں وہ تصاویر دیکھوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ان پر حملے کی تصاویر ہیں۔‘

’سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ آپ تصویروں کی طرح یادداشت سے تصویر کو بہت آسانی سے نکال سکتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں، اگر آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو معلوم نہیں ہوگا کہ آپ کو وہ لمحہ یاد ہے یا آپ کو اس کی تصویر یاد ہے۔‘

روزی مورس کہتی ہیں ان کی ڈیپ فیک پر دستاویزی فلم متاثرہ شخص پر اس کے اثرات کے بارے میں ہے

’تو ہیلن کے ساتھ کیا ہوا ہے، یہ تصاویر، جو یادوں سے جڑی ہوئی ہیں، دوبارہ استعمال کی گئی ہیں، اور تقریباً اس کے ذہن میں یہ جعلی نام نہاد یادیں ڈالی گئی ہیں۔ اور آپ واقعی اس صدمے کا اندازہ نہیں کر سکتے۔‘

کینٹ لا سکول سے تعلق رکھنے والی پروفیسر ایریکا ریکلے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ نفسیاتی طور پر کسی پر حملہ کرنے جیسا ہے اور وہ بھی کسی کی اصل تصویر کے ساتھ وابستہ جذباتی لگاؤ پر۔‘

چند سال قبل انھوں نے اور کچھ ساتھیوں نے تصویر پر مبنی جنسی زیادتی کا ’شکار‘ ہونے والوں کا انٹرویو کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان میں سے ایک نے ڈیپ فیکس کے تناظر میں تبصرہ کیا کہ یہ تصویر ’ابھی بھی آپ کی تصویر ہے ۔۔۔ یہ اب بھی زیادتی ہے۔‘

ڈیپ فیکس پر نظر رکھنے والی کمپنی سینسٹی اے آئی کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق 96 فیصد غیر رضامندی سے بنائی گئی جنسی تصاویر تھیں اور ان میں سے 99 فیصد خواتین کی تھیں۔

پروفیسر میک گلن اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’خواتین کو اس زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بنیادی طور پر مرد ہی اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔

معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم کو سنجیدگی سے لینے کا اچھا ریکارڈ نہیں ہے، اور یہی معاملہ ڈیپ فیک پورن کا بھی ہے۔ آن لائن زیادتی کو اکثر کم کر کے بیان کیا جاتا ہے اور اسے معمولی بنا دیا جاتا ہے۔‘

ہیلن دستاویزی فلم مائی بلانڈ گرل فرینڈ میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ذرا سوچیے اس تکلیف اور پریشانی کو کہ آپ کو پتا ہی نہ ہو کہ یہ تصاویر کس نے بنائی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان تصویروں میں سے ہر ایک میں میری آنکھیں کیمرے کو دیکھ رہی ہیں۔ لیکن اس سب میں اس شخص جس نے یہ پروفائل بنائی اور ان تصاویر کو چوری کیا اس کا کوئی چہرہ نہیں ہے۔‘

وہ اس وقت اور بھی خوفزدہ ہو گئی جب انھیں پتا چلا کہ پولیس ان تصاویر کو بنانے والے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکی۔

انھوں نے انھیں بتایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، کیونکہ کوئی جرم نہیں ہوا تھا۔ ڈیپ فیک تصاویر بنانا غیر قانونی نہیں ہے۔

سکاٹ لینڈ کا قانون پولیس کو اس کی تحقیقات کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن انگلینڈ اور ویلز میں موجودہ قانون ایسا نہیں کرتا۔ تاہم جلد آنے والا آن لائن سیفٹی بل، جس پر فی الحال ہاؤس آف لارڈز میں بحث کی جا رہی ہے غیر متفقہ ڈیپ فیک پورن تصاویر کا اشتراک غیر قانونی قرار دے گا۔

پروفیسر میک گلین کا کہنا ہے کہ ’بل میں تبدیلیاں بہت دیر سے پڑی ہیں لیکن اس کے واقعی موثر ہونے کے لیے اس میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف آن لائن تشدد کو ترجیحی مسئلہ قرار دینے کی ضرورت ہے، اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات شامل کرنے کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ پلیٹ فارمز ان زیادتیوں کو سنجیدگی سے لیں۔‘

محکمہ برائے سائنس، اننوویشن اور ٹیکنالوجی نے، جو اس بل کے لیے ذمہ دار ہے، بی بی سی کو بتایا کہ اس کے اس سال قانون بننے کی امید ہے۔

مورس آخر میں کہتی ہیں کہ وہ اپنی فلم کے ذریعے ’سوال پوچھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے پاس کوئی حل نہیں ہے، لیکن میں واقعی محسوس کرتی ہوں کہ یہ ایسی چیز ہے جس پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ دستاویزی فلموں کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جھانکنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہیں۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم یہ تجربہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی نمائندگی کیسے کرتے ہیں۔ اور یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ دوسرے لوگ کیسے رہتے ہیں اور دنیا کا کیسے تجربہ کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32609 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments