سارہ کین کی ڈرامہ نگاری، ذہنی بیماری اور خود کشی


ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ کی نرس بیس فروری انیس سو ننانوے کی رات ساڑھے تین بجے سارہ کین کے کمرے میں گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ سارہ کین کا بستر خالی ہے۔ انہوں نے چاروں طرف دیکھا لیکن سارہ کین نظر نہ آئیں۔ انہوں نے وارڈ میں ہر طرف انہیں ڈھونڈا لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دیں۔ آخر جب نرس واش روم میں گئیں تو انہیں سارہ کین کی لاش ملی۔ سارہ کین نے اپنے جوتوں کے تسموں کی مدد سے واش روم کے دروازے کی کھونٹی سے لٹک کر خود کشی کر لی تھی۔

خودکشی کے بعد سارہ کین کے والد پیٹر کین نے ہسپتال پر مقدمہ دائر کیا کہ ان کی بیٹی ڈاکٹروں اور نرسوں کی لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے اپنی خودکشی میں کامیاب ہوئی تھی۔

سارہ کین نے سترہ فروری کو اپنے گھر میں نیند کی پچاس اور ڈپریشن کی ایک سو پچاس گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی اور اپنے کمرے کے دروازے پر اپنے دوست ڈیوڈ، جو ان کے گھر میں ان کے ساتھ رہتے تھے، کے لیے نوٹ لکھا تھا کہ میرے کمرے میں داخل نہ ہونا۔ نوٹ پڑھ کر ڈیوڈ کا ماتھا ٹھنکا اور جب وہ کمرے میں گئے تو انہوں نے سارہ کین کو بے ہوش پایا۔ ڈیوڈ نے ایمبولینس کو بلایا جو سارہ کین کو ہسپتال لے گئے اور ڈاکٹروں کی مدد سے سارہ کین کی جان بچ گئی۔

سارہ کین پہلی کوشش میں ناکام رہیں لیکن تین دن کے بعد ہی اپنی دوسری کوشش میں خودکشی کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

جب ہم سارہ کین کی سوانح عمری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن کی مریضہ تھیں اور حد سے زیادہ حساس شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ اپنے ارد گرد پھیلی منافقت سے دلبرداشتہ رہتی تھیں۔

سارہ کین ایک مثالیت پسند خاندان میں پلی بڑھی تھیں۔ ان کے والد ایک پادری تھے۔ سارہ خود بھی بچپن میں مذہبی تھیں لیکن نوجوانی میں انہوں نے روایت سے بغاوت کر دی تھی۔

سارہ کین کی تخلیقی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا تھا لیکن جلد ہی وہ ڈرامہ نگاری کی طرف راغب ہو گئیں۔
سارہ کین نے چوبیس برس کی عمر میں 1995 کے زمانہ طالب علمی میں ایک ڈرامہ لکھا جس کا نام
BLASTED
تھا۔ اسے بہت سراہا گیا۔ ناظرین میں میل کانیان موجود تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ اس ڈرامے کو پھیلایا جائے اور لندن کے مقبول سٹیج پر پیش کیا جائے۔ سارہ کین نے ان کے مشورے پر عمل کیا۔ دونوں کی دوستی بھی ہو گئی اور وہ بعد میں سارہ کین کے ایجنٹ بھی بن گئے

سارہ کین نے اٹھائیس برس کی مختصر عمر میں پانچ معرکۃ الآرا ڈرامے لکھے جو مقبول بھی ہوئے اور متنازعہ فیہ بھی بنے کیونکہ ان کے ڈراموں میں شدت بھی تھی اور جارحیت بھی۔ وہ سٹیج پر عورتوں پر ہوتا ہوا ظلم اور جبر دکھاتی تھیں جو اشرافیہ کو ناگوار گزرتا تھا۔

سارہ کین کے پانچ ڈرامے مندرجہ ذیل تھے

SKIN 1995
PHAEDORA’S LOVE 1996
CLEANSED 1998
CRAVE 1998
4.48 PSYCHOSIS 1999

سارہ کین کے ڈراموں کے مطالعے اور تجزیے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ سارہ کین اپنے معاشرے کی نا انصافیاں دیکھ کر بہت غصے میں آ جاتی تھیں۔ وہ اپنے غصے کا اپنے ڈراموں میں برملا اظہار کرتی تھیں۔ ان کے ایک ڈرامے کا ایک کردار ساری دنیا سے ہی نہیں خدا سے بھی لڑ پڑتا ہے اور غصے میں نازیبا الفاظ تک کہہ دیتا ہے۔ یہ غصے کے اظہار کی انتہا ہے۔

سارہ کین کہتی تھیں کہ یہ کیسا خدا ہے جو معصوم بچوں اور عورتوں پر ظلم ہوتا دیکھتا رہتا ہے لیکن کچھ بھی نہیں کرتا بس خاموش رہتا ہے۔

سارہ کین کا آخری ڈرامہ ڈپریشن اور خود کشی کے بارے میں ہے۔ اس ڈرامے کا نام ہی
4.48 PSYCHOSIS

ہے۔ نفسیات کی زبان میں سائیکوسس دیوانگی اور پاگل پن کو کہتے ہیں۔ سارہ کین نے چار اعشاریہ چار آٹھ اس لیے ڈرامے کے نام میں شامل کیا ہے کیونکہ وہ ڈپریشن کے کئی مریضوں کی طرح صبح کاذب کے وقت چار بج کر اڑتالیس منٹ پر جاگ جاتی تھیں اور پھر سو نہ سکتی تھیں۔

سارہ کین کے آخری ڈرامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات سے باخبر تھیں کہ یہ ڈرامہ ان کی موت کے بعد سٹیج پر دکھایا جائے گا۔

سارہ کین کی موت انگلستان کے شاعروں ادیبوں اور فنکاروں کے لیے اتنی تکلیف دہ اور افسردہ کرنے والی تھی کہ

ریڈیو پر ایک منٹ کی خاموشی کی گئی
اور
لندن کے تھیٹروں میں چراغ کی لو کو کم کر دیا گیا۔

انگلستان کے ڈرامہ نگار اینتھنی نیلسن نے کہا کہ سارہ کین کو معاشرے کے سچ نے نہیں جھوٹ نے مار ڈالا۔ فرماتے ہیں

TRUTH DID NOT KILL HER LIES DID

مشہور ڈرامہ نگار اور نوبل انعام یافتہ ہیرلڈ پنٹر کو، جو سارہ کین کے دوست بھی تھے، جب سارہ کین کی خود کشی کی خبر ملی تو انہیں زیادہ تعجب نہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ سارہ کین ہر وقت انسانی دکھ، درد، اذیت اور موت کی باتیں کرتی رہتی تھیں اور ان کا اظہار اپنے ڈراموں میں بھی کرتی تھیں۔ ایک ڈرامے کا ایک کردار کہتا ہے۔

موت میرا محبوب ہے وہ میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔
DEATH IS MY LOVER. HE WANTS TO MOVE IN

سارہ کین کی ڈرامہ نگاری، ذہنی بیماری اور خودکشی کی کہانی لکھتے ہوئے مجھے ورجینیا وولف اور سلویا پلاتھ کی کہانیاں یاد آئیں جو میں اگلے کالموں میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ یہ کہانیاں ہمیں فن اور پاگل پن کے قریبی اور پیچیدہ رشتے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

نوٹ: میں اپنے نوجوانی کے شاعر دوست منظر حسین منظر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے فنکارہ سارہ کین کے بارے میں ایک محبت نامہ لکھ کر کالم لکھنے کی ترغیب و تحریک دی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 697 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail