غزہ کی تباہی اور ضمنی نقصان


غزہ میں جاری جنگ کو چھ ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ سات اکتوبر دو ہزار چوبیس کے دن حماس کے چند جنگجو جو اسرائیل میں داخل ہوئے اور اچانک حملوں میں سینکڑوں افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔ ان حملوں میں تمام شہریوں کو نشانہ بنانا حماس کی سنگین غلطی تھی۔

اس کے بعد اسرائیل نے غزہ کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں نہ صرف شدید تباہی سے دوچار کیا بل کہ اب شدید قحط کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

بھوک اور کھانے کی کمی کا شکار آبادی رمضان کے مقدس مہینے میں بھی مسلسل اسرائیل کا نشانہ بنتی رہی۔ اسرائیل کے مطابق جب تک حماس تمام اغوا شدہ باشندوں کو رہا نہیں کرتا جنگ بندی نہیں ہو سکتی۔ اسی بہانے اسرائیل غزہ کی پٹی پر موجود شہروں اور قصبوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔

اب رفح نامی شہر میں لاکھوں پناہ گزین غزہ کے تباہ شدہ علاقوں سے آ کر کھلے آسمان تلے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور کر دیے ہیں۔ جب کہ دیگر ممالک اسرائیلی حملوں کی مذمت کیے جا رہے ہیں۔ جس کا کوئی اثر اسرائیل پر نہیں ہو رہا۔

پاکستان میں بھی چند اکا دکا مظاہروں کے علاوہ کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آ سکا ہے۔ رمضان میں ٹی وی پر افطار کے پروگرام کبھی کبھار غزہ کا ذکر کرتے رہے اور بس سرکاری سطح پر وقتاً فوقتاً مذمتی بیان جا رہی کیے جاتے رہے ہیں۔

محصور علاقوں میں صورت حال بدترین ہو چکی ہے۔ اموات کی تعداد پینتیس ہزار کے قریب ہے جو کہ کسی بھی دو ملکوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے معیار سے بھی بہت زیادہ ہے۔ غزہ میں امداد لے جانے والے قافلے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک عالمی امدادی تنظیم ورلڈ سینٹرل کچن یا ”عالمی مرکزی باورچی خانہ“ کے کارکن بھی اسرائیلی حملوں کے شکار ہوچکے ہیں۔

فلسطینی امدادی کارکنوں اور صحافیوں کی اموات تو معمول بن چکی ہیں اور عالمی ادارے کوئی فیصلہ کن قدم اسرائیل کے خلاف اٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔ غالباً تاریخ میں اس سے قبل طبی عملے اور صحافیوں نے خود کو کبھی جنگی علاقوں میں بھی اتنا غیر محفوظ محسوس نہیں کیا ہو گا جتنا کہ اب اسرائیل کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔

امریکا اور یورپ کے مغربی ممالک کے علاوہ خود عرب اور دیگر اسلامی ممالک نے بھی گومگوں کی کیفیت اپنائی ہوئی ہے اور ”دو طرفہ جنگ بندی“ کی بات کر رہے ہیں جب کہ اب یہ جنگ صرف ایک طرفہ ہی رہ گئی ہے۔

امریکا فلسطینی ریاست کے قیام کو اسرائیل کے ساتھ ”مذاکرات“ سے مشروط کرتا ہے جب کہ فلسطینی اقوام متحدہ سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں ایک ریاست کا درجہ دے کر اقوام متحدہ کا رکن بنا لیا جائے لیکن اس پر بھی اسرائیل کے رویے میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔

امریکی صدر بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو تقریباً ایک سی زبان بول رہے ہیں۔ دونوں نے اپنی اصلیت کو افشا کر دیا ہے۔ اب ان حکومتوں نے جو لبادے اوڑھ رکھے تھے وہ چاک ہوچکے ہیں مثلاً ترقی یافتہ، جمہوری، لبرل، روشن خیال، جدید اور سیکولر ہونے کے جو دعوے کیے جاتے رہے ہیں وہ سب کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔

اسرائیل کے حملوں نے اور اس کی بربریت نے ان تمام الفاظ کو معنی سے محروم کر دیا ہے۔ یہ سب اصطلاحیں جو قابل قدر ہیں اب اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہیں۔ اسرائیل، امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے ان تمام اصطلاحوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان جیسے ملکوں میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بہت باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ پروفیسر تو ایسی ترقی کو اکسیر کی طرح پیش کرتے ہیں جن سے ہمارے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

وہ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں یا سمجھتے ہیں تو اعتراف نہیں کرتے کہ اس طرح کی ترقی خود بخود معاشرے کو مہذب اور انسان دوست نہیں بنا سکتی اور یہی بات امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک اب تک ثابت کرتے رہے ہیں۔

اسی طرح جب جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو اسرائیل اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ کسی آمرانہ حکومت کے زیر تسلط نہیں ہیں جس سے مغربی ممالک نفرت کرتے ہیں۔ امریکا کی مداخلت افغانستان میں ہو یا عراق میں، شام میں ہو یا لیبیا میں یا اور کسی ملک میں یا روس کی جنگ یوکرائن میں ثابت کرتی ہیں کہ جمہوریت اور آمریت اتنی ہی اچھی ہوتی ہیں جتنا اچھا ہونے کا وہ ڈھکوسلا کر سکتی ہیں۔

اسرائیل میں ”جمہوریت“ پر عمل کیا جاتا ہے یعنی وہاں متواتر انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں کی پارلیمان اچھی خاصی آزاد ہے۔ لیکن ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جو اپنی حکومت کو ایسے سنگین جرائم سے نہ روک سکے جو کوئی آمرانہ حکومت بھی کر سکتی ہے۔

اسی طرح اسرائیل، امریکا اور دیگر مغربی ممالک ”لبرل“ اقدار کے پیروکار ہیں۔ یورپ نے صدیوں لبرل اقدار کو اپنے طرز حکمرانی کا خاصہ بنایا ہوا ہے جو اچھی بات ہے اور انہی اقدار کو وہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے ممالک میں رواج دینا چاہتے ہیں۔

ان اقدار میں انسانی حقوق کی پاسداری ایک اہم ترین قدر ہے لیکن جب مغربی ممالک چین اور روس میں انسانی حقوق کی پامالی کا رونا روتے ہیں تو وہ بڑی آسانی سے اپنے اتحادی اسرائیل کی انسانی حقوق کی نہ صرف پامالی بل کہ کشت و خوں سے بھی صرف نظر کرلیتے ہیں اور اسے اسرائیل کا ”حق دفاع“ قرار دیتے ہیں۔

حق دفاع کی یہی منطق دیگر ممالک پر لاگو نہیں کرتے جو مغربی ایجنڈے کی لبرل اقدار کے داعی نہ ہوں۔ اسرائیل اور امریکا نے غزہ کے معاملے پر جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اس نے ”روشن خیالی“ کے بیانیے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

راقم سمیت بہت سے لوگ ”روشن خیالی“ کو عزیز رکھتے ہیں کیوں کہ پاکستان جیسے معاشروں میں قدامت پرستی اور دقیانوسی سوچ سے بچنے کا یہی ایک راستہ نظر آتا ہے۔

بہت سے لکھنے والے انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے روشن خیالی کا نسخہ تجویز کرتے ہیں جو بڑی حد تک درست بھی ہے اور ممکنہ طور پر ہمیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی سے بچا بھی سکتا ہے لیکن ہمیں یہ وضاحت کرتے ہوئے بڑی مشکل پیش آتی ہے کہ وہ ممالک تو خود ”روشن خیالی“ کے دعوے دار ہیں اور ہمارے ملکوں میں قدامت پرستی اور بنیاد پرستی کو ہوا دیتے رہے ہیں۔

اسی طرح ”جدیدیت“ بھی ایک اور اصطلاح ہے جو دانش وری کے دعوے دار حلقوں میں خوب پھینکی جاتی ہے۔ شاید یہ بات درست ہے کہ جدیدیت ہی ایک ممکنہ راستہ ہے جو ہمارے جیسے پسماندہ معاشروں میں روشنی اور نئی سوچ کو لا سکتا ہے لیکن پھر وہ ہی سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اسرائیل، امریکا اور دیگر مغربی ممالک سب جدید یا ماڈرن ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ جب یہ ”جدید“ ممالک دیگر ممالک میں قتل و غارت گری کرتے ہیں تو جدیدیت کا دفاع کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اور پھر ایسے جدیدیت کا کیا فائدہ جو آپ کو جنگی جرائم سے نہ روک سکے اور آپ انسانیت کے خلاف بدترین حملوں کا موجب ہوں۔

جدیدیت کے اہم ترین نکات کو خود جدید ممالک نے تہہ و بالا کیا ہے اور غزہ اس کی بدترین مثال ہے۔

مثال کے طور پر قوانین اور اخلاقیات کی آفاقیت کو جدیدیت کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے۔ اب اسرائیل نے اور اس سے قبل کئی مغربی ممالک نے بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں بارہا بکھیری ہیں اور نام نہاد انتقام کی آگ میں سارے قوانین اور اخلاقیات جھونکے جاتے رہے ہیں۔ اب یہی فلسطینیوں سے انتقام کے طور پر کیا جا رہا ہے۔

دنیا کا کوئی قانون بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دیتا نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر ظلم و ستم کی کوئی گنجائش جدید دنیا میں ہونی چاہیے۔

اخلاقی طور پر کسی بلی کے بچے کو بھی مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جاسکتا لیکن غزہ کے میدان جنگ میں ہزاروں بچے اور خواتین بے دردی سے قتل کیے جا رہے ہیں۔ کیا اس سے دنیا میں جدیدیت کی ترویج ہو سکتی ہے۔

اسی طرح قومی ریاستوں کا قیام بھی جدیدیت کا خاصہ رہا ہے اور اسے سیاسی و سماجی احترام حاصل ہے اور ساتھ ہی رواداری اور سماجی ہم آہنگی بھی جدید معاشروں کی خاصیت سمجھی جاتی ہے اور بڑی حد تک ایسا ہے بھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل اور کئی دیگر قومی ریاستوں نے اپنی ریاست کی تعمیر و ترقی کے لیے لاشوں کے انبار بھی لگائے ہیں اور دنیا پر بے جا جنگیں مسلط کی ہیں۔ جو لوگ صدیوں سے اپنے اپنے علاقوں میں آباد تھے انہیں لاکھوں کی تعداد میں بے گھری پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

جب دنیا اس طرح کی بربریت سے صرف نظر کر لے تو وہ اس طرح کے رویوں کی خاموش حمایت کر رہی ہوتی ہے اور دیگر علاقوں میں بھی اس بربریت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک نے ایسی بے شمار مثالیں قائم کی ہیں جن سے دیگر ممالک فائدہ اٹھا کر ایسی ہی بربریت کے جواز پیش کر سکتے ہیں۔ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے یا ان پر خاموش رہنے والے خود اس بات کا جواز کھو بیٹھتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کو بربریت سے باز رہنے کی تلقین کریں۔

صنعت کاری بھی جدیدیت کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور تقریباً تمام ممالک صنعتی طور پر خود کو آگے لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کوئی کہیں پر بے لگام صنعت کاری پر سوال اٹھائے تو اسے قدامت پرست گردانا جاتا ہے اور صنعت کاری کے نام پر انسانی آبادیوں اور ثقافت اور طرز بودوباش سب کو تلپٹ بھی کیا جاتا رہا ہے۔

اسرائیل امریکا اور روس ہر لحاظ سے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہیں مگر ان کی صنعت کاری نے انسانیت کو نقصان بھی پہنچایا ہے اور بڑی انسانی قیمت ادا کی ہے۔ صنعتی طور پر پسماندہ ممالک مثلاً افغانستان یا خود غزہ کی پٹی ہو یا پھر نسبتاً کم صنعتی یافتہ یوکرائن سب نے ظلم سہے ہیں۔

اس پر یہ مصرعہ لگا کر جواز پیش نہیں کیا جاسکتا کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“

اسی طرح سرمایہ داری کا ارتقا اور کاروباری طبقے یا مرکنٹائل کلاس کا فروغ بھی جدیدیت کے دو اہم ستون رہے ہیں۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر اپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے انجیر اور زیتون کے باغات تباہ کیے اور ان کی کاروباری صلاحیت کو نیست و نابود کر کے رکھ دیا ہے۔

سرمایہ داری خود اسرائیل میں خوب پنپ رہی ہے اور اس کا کاروباری یا مرکنٹائل طبقہ بھی خوب پھل پھول رہا ہے مگر اس نے غزہ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

یہ ایک بدترین کلونیل طریقہ کار ہے جس کی مثال پرانی کلونیل ریاستوں میں بھی مشکل سے ملے گی۔

ان تمام باتوں کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی، جمہوریت، روشن خیالی، انسانی حقوق، صنعتی ارتقا، لبرل اقدار یا جدیدیت اور اس سے منسلک دیگر باتیں منفی یا نقصان دہ ہیں۔

یہ سب اچھی اصطلاحیں اور مثبت خیالات ہیں جن پر پیش رفت تمام معاشروں کو کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی آڑ میں خود ان کے خلاف حرکتوں کی مذمت ضرور کرنی چاہیے اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔

ترقی یافتہ ممالک کی حرکتوں اور وارداتوں سے اس لیے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ان کا پریس آزاد ہے وہاں سماجی گھٹن نہیں یا وہ جدیدیت کے علم بردار ہیں یا پھر انہوں نے بے شمار نوبل انعامات جیتے ہوئے ہیں۔

غزہ کی تباہی اور فلسطینیوں کے قتل عام کے ساتھ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے جمہوریت، انسانی حقوق اور رواداری کے بیانیے کو عالمی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اسے ”ضمنی نقصان“ قرار دے کر اس کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جب دنیا اسرائیل کی دہشت گردی کو نظر انداز کرتی ہے تو وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی خاموش حوصلہ افزائی کرتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments